”جماعت اسلامی کو ایم ایم اے میں
شامل کرنا الکوحل ملانے کے مترادف ہے“یہ وہ بیان ہے جو رواں ماہ ایک ایسے
شخص نے دیا جو نہ صرف ایک سیاسی پارٹی کا مالک ہے بلکہ کافی عرصہ سے حکومت
میں کسی نہ کسی طرح شامل ہو کر اقتدار کا مزہ چکھتا رہا۔اس مزے میں حکومت
ڈکٹیٹرز کے پاس بھی رہی ، عورت کے پاس بھی رہی اور ان رہنماﺅں کے پاس بھی
رہی جنکے خلاف یہ حضرت کبھی کبھی منہ کھول دیتے ہیں ۔یہ شخص حکومتی پارٹی
کے علاوہ باقی تمام پارٹیوں کے خلاف صف آرا ءہوتے ہیں اور ایسی بیان بازی
کا مظاہر ہ کرتے ہیں کہ رحمان ملک ، رانا ثناءاللہ اور چوہدری نثار کے
بیانات ان کے بیانا ت کے سامنے ہیچ ہوتے ہیںجو مصائب میں گھری عوام کےلئے
باعث تفریح بھی ہوتے ہیں۔
بےوقوف بننے والی قوم کا باشندہ ہونے کی وجہ سے میں اس بیان کو پتھر پرلکیر
سمجھ بیٹھااور اس شخص کے بارے میں یہ فیصلہ کر لیا کہ یہ شخص جماعت اسلامی
کا پکا مخالف ہے جو کسی صورت جماعت اسلامی کو برداشت نہیں کر سکتالیکن میں
اس وقت ششدر رہ گئے جب موصوف ایک تقریب میں نہ صرف امیر جماعت اسلامی سید
منورحسن سے ملے بلکہ جماعت اسلامی کے سبھی قائدین کو اپنے مسکراتے چہرے کے
ساتھ خوش آمدید کہا۔اسی محفل میں موصوف کے ایک مرید سے میں نے الکوحل والے
بیان اور اس خوش دلی کا تذکرہ کیا تو وہ مرید صاحب بھی مسکرائے اور میرا
ہاتھ دبا کر بولے یہ سیاسی مصلحت ہے۔
چند دن پہلے سیاسی مصلحت کا پرچار کرنے والایہ شخص عمران خان کے خلاف صف
آراءتھا کیونکہ عمران خان ”یہود و ہنود “بن کر ان کے علاقے میں شمالی علاقہ
جات کے مظلوموں کے حق میں ایک ریلی لیکر گیا تھا لیکن عمران خان سے اس کی
مخالفت پہلی مخالفت نہیں ہے ملک کی سبھی ” بڑی پارٹیاں “ عمران خان سے خائف
ہیں کیونکہ عمران خان نہ وراثتی سیاستدان ہے نہ ہی ملک و قوم کو اپنی جاگیر
سمجھتا ہے اور نہ ہی موصوف کی طرح سیاسی مصلحت کاپرچار کرتا ہے ۔
سیاسی مصلحت کا پرچار کرنے والے موصوف کی جماعت اسلامی سے مخالفت کچھ نہ
سمجھ آنے والا معمہ ہے کیونکہ ےہ موصوف اور جماعت اسلامی ملک خداداد میں
شریعت کاعادلانہ نظام نافذ کرنے کے داعی ہیں لیکن سیاسی مصلحت کا پرچار
کرنے والے موصوف کی جماعت اسلامی سے مخالفت عوام کےلئے ایک نئے معمہ کا
باعث ہے۔معمہ یہ کہ عوام اسلامی شریعت کے نفاذ کےلئے کس کا ساتھ دیں سیاسی
مصلحت کا پرچار کرنے والے موصوف کا یا جماعت اسلامی کا۔
چونکہ الیکشن کا دوردورہ ہے اور سبھی سیاستدان ایک دوسرے سے برتری لےنے
کےلئے ایسی بیان بازی کررہے ہیں کہ جن سے عوام کاووٹ باآسانی جیتا
جاسکے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے نہ پہلے عوام کے لئے کچھ کیا اور نہ ہی
مستقبل قریب و بعید میں عوام کے لئے کچھ کرنا ہے کیونکہ ماضی ایک ایسا عنصر
ہے جو مستقبل کے فیصلے کرنے کے لئے ممدو معاون ہوتا ہے اور انکا ماضی کسی
سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔عوام سے خود غرضی سیاستدانوں کا وطیرہ ہے اور جو
سیاستدان خود غرض نہیں ہو گا وہ ایک اچھا انویسٹر ، ایک اچھا لینڈ لارڈ ،
ایک اچھا بزنس مین، ایک اچھا کسی بڑے بینک کاکسٹمر، ایک اچھا فیکٹریوں ،
محلات ، کارخانوں کا مالک نہیں ہو سکتاوہ صرف صرف عوام کی فلاح و بہبود
کرنے والا حکمران بن سکتا ہے بشرطیکہ عوام اپنے اوپر ایسے حکمران کو مسلط
کرنا چاہیں تب ۔وگرنہ جوہوگا وہ پچھلے سالوں کی طرح ہی ہو گا۔
ان کاماضی دیکھنے کے لئے آپ اصغر خان فیصلے کی حتمی فہرست ہی دیکھ لیں سب
کے راز اور سب کی اصلیت کھل کر سامنے آجاتی ہے اتنا بھی کیا اقتدار کا نشہ
کہ ہر جائز و ناجائزکام کو ایک ہی کر دیا 1990ءکے الیکشن میں بننے والی آئی
جے آئی نے پیپلز پارٹی کو ہرانے کےلئے چودہ کروڑروپے لیے اور یہ تب کی بات
ہے کہ جب گھی ایک کلوتیس روپے کا مل جاتا تھا اور آج گھی دو سو روپے کلو کے
لگ بھگ ہے اس لحاظ سے دیکھاجائے تو یہ چودہ کروڑآج کے اربوں روپے کے برابر
بنتے ہیں مگر مسئلہ پیسوں کے ساتھ ساتھ ان کی اصلیت و کرپشن کا ہے کہ جس
کےلئے انہوں نے اتنا گھناﺅنا جرم کیا کہ پوری پاکستانی قوم شرم وندامت کا
شکار ہے مگر افسوس کے انہیں شرم نہ آئی ۔
جب میں چھٹی جماعت کاطالبعلم تھا تب عموماً سیاست پر کلاس میں گرماگرمی ہو
جاتی تھی ایک دن اسی گرما گرمی میں نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی جس کی خبر
استاد محترم تک پہنچ گئی جنہوں نے ہماری اچھی خاصی درگت بھی بنائی اور ساتھ
ساتھ ایک نصیحت بھی کی جو آج بھی ایک مسلمہ حقیقت بن کر د ل ودماغ میں
سرایت کر چکی ہے ۔استاد محترم نے آج سے تقریباً بیس سال پہلے تمام کلاس کے
سامنے کہا کہ یہ سیاستدان اندرسے ایک ہی ہوتے ہیں بس اوپراوپرسے اپنے مفاد
ات حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے کی مخالفت کرتے ہیں ۔چونکہ راقم الحروف کا
ذہن تب اتنا وسیع بھی نہیں تھا جتنا آج ہے اور نہ ہی تب راقم الحروف کو
سیاستدانوں کے ہاتھ ” اچھے “ طریقے سے لگے تھے اس لئے استاد محترم کی یہ
بات کچھ زیادہ سمجھ نہ آئی ۔تب میں اس جملے کا مطلب یہی سمجھا تھا کہ اندر
سے ایک جیسے ہونے کا مطلب ہے کہ یہ سب سیاستدان آپس میں دوست ہیں جو ملکر
عوام کو بےوقوف بنا رہے لیکن بیس سال بعد سمجھ آیا کہ اس جملے کامطلب صرف
یہ نہیں تھا بلکہ اس ایک جملے کی تشریح کرنے بیٹھوں تو یقیناایک پانچ سو
صفحات کی کتاب بھی کم پڑ جائے لیکن کتنا ہی اچھا ہوتا کہ آج سے بیس سال
پہلے میں استاد محترم کی بات سمجھ جاتا توآج ملک عظیم کی گلی گلی آبدیدہ نہ
ہوتی اور نہ ہی سڑکیں خون سے دھوئی جاتیں ۔کچھ عرصہ بعد ملک میں پھرفیصلہ
کیاجانا ہے جس کے لئے ہاتھا پائی بھی ہوگی اوردرگت بھی بنے گی مگر افسوس کے
اس بار نصیحت کرنے کے لئے استاد محترم نہیں ہوں گے۔ |