پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
نام نہاد لبرل جو مسلمانوں کے چولے میں یہودیت اور نصرانیت کے پروردہ ہیں،
ظالم و مظلوم کی تمیز سے نابلد ہیں۔ بے حجابی اور اسلامی شعائر سے دشمنی ان
کی نسلوں میں رچی بسی ہے۔ ان لوگوں کو اسلام اور اس پر جان نثا1 کے نام
نہاد لکھاری کا عافیہ صدیقی جیسی معصو م اور مظلوم خاتون پر اتہام طرازی کا
پردہ چاک کرکے جھوٹے کو اس کی آخری حد تک پہنچادیا۔
ایف بی آئی کی ایک ویب سائٹ کے مطابق عافیہ صدیقی کو 2003ء میں امریکا کے
خلاف کام کرنے کے الزام میں صرف پوچھ گچھ کے لیے گرفتار کیا گیا تھا، جس کا
کراچی پولیس بھی اعتراف کرچکی ہے کہ عافیہ صدیقی کو اُن کے سابقہ شوہر امجد
خان کی جھوٹی اطلاع پر پولیس نے پکڑ کر خفیہ ادارے کے حوالے کردیا تھا۔ جب
خفیہ ادارے نے ڈاکٹر عافیہ کو غائب کردیا تو2003ء میں عمران خان نے سب سے
پہلے حامد میر کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے اغوا پر
بھرپور احتجاج کیا تھا، جس کی تصدیق اُس وقت کے وزیر داخلہ فیصل صالح حیات
نے غیر منصفانہ الفاظ میں کی تھی۔ پانچ سال ہمارے ’’معصوم‘‘ خفیہ ادارے نے
عافیہ کے ساتھ مسلسل ظالمانہ انداز میں تحقیقات کی، جب کچھ ہاتھ نہ آیا تو
بھگوڑے جنرل اور غاصب مقتدر نے اپنے آقائوں سے ڈالر کے عوض پاکستان کی
بیٹی کو ان کے بھیڑیوں کے نرغے میں دے دیا، جن کی بہادری کا یہ عالم ہے کہ
پچاس ممالک کا عظیم الشان لشکر جو دنیا کے ہر جدید ہتھیار سے لیس تھا، لے
کر اکیلے اسامہ بن لادن کو پکڑنے آئے تھے اور دس گیارہ سال منہ کالا کرنے
کے باوجود اسامہ بن لادن کو پکڑ کر دنیا کے سامنے پیش نہ کرسکے۔ عافیہ
صدیقی پر افغانستان کی بگرام جیل میں انسانی حقوق کے چیمپئنوں نے وہ
انسانیت سوز مظالم ڈھائے جن کا سن کر انسانیت بھی لرزہ براندام ہوجاتی ہے۔
جب ان کے ہاتھ کچھ نہ لگا تو پرویزمشرف کے آخری ایام میں ڈاکٹر عافیہ
صدیقی کو واپس پاکستان کی حکومت کے حوالے کردیا گیا۔ اب عافیہ صدیقی اور اس
کے خاندان کے لوگوں کو طرح طرح کی دھمکیاں موصول ہورہی تھیں۔ اس دوران اگر
عافیہ کو پابندِ سلاسل نہ رکھا جاتا تو وہ پرویزمشرف اور اس کی حکومت کا
بھانڈا میڈیا پر آکر پھوڑ دیتی، اور پھر یہ اپنا مصنوعی چہرہ کسی کو
دکھانے کے قابل نہ رہتا۔ لہٰذا ایجنسیوں نے عافیہ صدیقی کو واپس افغانستان
بھیج دیا، جہاں اسے بگرام جیل کے ایک ڈبہ نما کمرے میں جو غالباً سات بائی
سات فٹ کا تھا، میں رکھا گیا۔ یہاں عافیہ پر خاد کے درندے سی آئی اے کے
درندوں کے ساتھ مل کر مسلسل ظلم کے پہاڑ توڑ رہے تھے، جس کی رپورٹنگ 2010ء
کے ابتدائی مہینوں میں طالبان کی قید سے رہائی پانے والی ایک مغربی خاتون
صحافی ایوان ریڈلے نے اپنی پریس کانفرنس میں کیا۔ ایوان ریڈلے نے افغانستان
کے بگرام ایئربیس کے عقوبت خانے میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی موجودگی کا دعویٰ
کیا تھاکہ وہ قید خانے کا دورہ کررہی تھی، اُس نے بہت سے قیدیوں کو دیکھا
اور ان کے کمروں کا بھی معائنہ کیا، لیکن ایک ڈبہ نما کمرہ ایسا تھا جو
مکمل بند تھا مگر اس کمرے سے کسی قیدی خاتون کی چیخوں کی دلدوز آوازیں
آرہی تھیں جو یقینا ڈاکٹر عافیہ صدیقی ہی کی تھیں۔ اس خبر کے بعد افغان
حکومت نے ڈاکٹر عافیہ کے معاملے میں ایک نیا ڈرامہ کھیلنا شروع کیا۔ایف بی
آئی کی رپورٹ کے مطابق36سالہ عافیہ صدیقی کو17 جولائی 2008ء کو گورنر غزنی
کی رہائش گاہ کے احاطے میں افغان پولیس نے مشتبہ حالت میں گرفتارکیا۔ اس
کمزور سی تین بچوں کی ماں، منحنی خاتون کے قبضے سے شیشے کی بوتلیں، خطر ناک
کیمیکل سے بھرے مرتبان ملے اور بم بنانے کی ترکیبیں اور کچھ دستاویزات
برآمد ہوئیں جن میں نیویارک سمیت امریکا کے اہم شہروں اور تنصیبات کے نقشے
بھی تھے۔ اس کے بعد ایک نیا انہونا ڈرامہ امریکیوں نے بنایا کہ عافیہ نے
ایک مسٹنڈے امریکی سے بھاری بھرکم گن چھین کر اُس پر فائر کیا، وہ مسٹنڈا
امریکی سپاہی تو بچ گیا مگر گولی واپس آکر عافیہ کو زخمی کرگئی۔ اس کے بعد
امریکیوں نے عافیہ پر مقدمہ چلایا مگر اُسے وکیل کرنے کی اجازت نہ دی گئی۔
پیرزادہ لکھتے ہیں کہ ’’وکیلِ صفائی اور عدالتی وکلا نے ہر ممکن دلائل دیے
مگر ثبوت میں کوئی دلائل پیش نہ کرسکے‘‘۔ جیسے موصوف عدالتی کارروائی کے
دوران عدالت کے کمرے میں موجود تھے… اور پھر ان کے دل کی مراد بر آئی اور
نیویارک کی عدالت نے ستمبر 2010ء میں ایک امریکی مسٹنڈے سپاہی پر گولی
چلانے کے جرم میں غضب خدا کا86 سال کی غیر منصفانہ سزا سنادی۔ حالانکہ
عافیہ کے خلاف جرح کے دوران یہ بات کھل کر سامنے آچکی تھی کہ کوئی ایک
الزام بھی ان کے مخالف وکیل ثابت نہ کرسکے تھے۔
مگر فیصلہ یہودیوں کی ایماء پر دلائل کے برعکس آیا۔ اتنی لمبی سزا تو کئی
کئی قتل کرنے والوں کو بھی نہیں دی جاتی۔ یہ ہے وہ معاشرہ جس کی تعریف میں
ہزاروں پیروں کی اولادیں رطب اللسان رہتی ہیں۔ ایک پیرزادہ پاکستان کا سابق
وزیراعظم بھی تھا جس کی ایمانداری آج نیب میں بھی ثابت ہورہی ہے اور
ہزاروں ان جیسے لوگ اس کی پارسائی کی قسمیں کھا رہے ہوں گے۔ پیرزادہ کہتے
ہیں کہ ’’اس بات کا ثبوت نہیں ملا کہ عافیہ کو پاکستانی ایجنسیوں نے
اُٹھایا اور تحویل میں رکھا۔‘‘ جنہیں ہماری ایجنسیوں نے پکڑا اور مار کر
پھنیک دیا یا غائب کردیا کیا اُن سیکڑوں بلوچوں اور دیگر پاکستانیوں کا
عدالتوں کے بار بار کے اصرار کے باوجود سراغ دیا جارہا ہے اور اُنہیں
عدالتوں میں پیش کیا جارہاہے؟؟؟
اب آتے ہیں ملالہ اور ڈاکٹرعافیہ کی طرف کہ کون پاکستان کی بیٹی ہے۔ پہلے
یہ واضح کردوں کہ میں بے گناہوں پر ہتھیار اٹھانے والوں اور بے گناہ لوگوں
کو قتل کرنے والوں پر لعنت بھیجتا ہوں، مگر اسلام کی سربلندی کے لیے کام
کرنے والوں کو سلیوٹ کرتا ہوں۔ ملالہ تعلیم کے حصول کی اگر بات کررہی تھی
اس گناہ پر اگر کسی نے اُس پر گولی چلائی تو وہ بھی گردن زدنی ہے… مگر جب
ہم کہتے ہیں کہ ملالہ پا کستان کا سر فخر سے بلند کرنے کی دلیل ہے تو بھول
جاتے ہیں کہ عافیہ اسلام اور پاکستان کے سر کا تاج ہے۔ کیونکہ ڈاکٹر عافیہ
کے آئیڈیل سرورِ کائنات رحمت للعالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم
ہیں۔ جبکہ ملالہ کا آئیڈیل کالالاکھوں مسلمانوں کا قاتل اوباما ہے۔ مظلوم،
اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹر عافیہ مسلمانوں کی ہیرو ہے جبکہ ملالہ یہودیت،
نصرانیت اور میڈیا کی ہیرو ہے، جسے امریکی ایجنڈے کے لیے استعمال کیا گیا۔
عافیہ نے جہد مسلسل کے نام پر ایک جہادی خاتون ہونے کے الزام میں 86 سال کی
غیر منصفانہ سزا اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کے ہاتھوں پائی۔ ملالہ نے
جہاد کی مخالفت کے نام پر نام پایا، اور اسلام کی مخالفت پر دنیا کی ہیروئن
قرار پائی۔جبکہ ڈاکٹر عافیہ مسلمان سائنٹسٹ ہونے پردہشت گرد کہلائی۔ملالہ
نے سورہ نسائ،اور حدیث نبویؐ کی مخالفت کرتے ہوئے حجاب اور داڑھی کی مخالفت
کی اور امن کی فاختہ کہلائی،جس پر اس کے باپ کا کہنا ہے کہ ملالہ نے اپنے
خون سے تہذیب اور وحشی پن (گویا اسلامی شعائروحشی پن ہے)کے درمیان لکیر
کھینچ دی ہے۔
مغربی دنیا ملالہ کو محض اس ایک نقطے پر پروجیکٹ کررہی ہے کہ وہ اسلامی
شعائر کی مخالف ہے۔ اگر ملالہ یہویوں اور نصرانیوں کی منظورِ نظر ہوکر بھی
پاکستان کی بیٹی ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ مگر ڈاکٹر عافیہ صدیقی اسلام
کا سِمبل ہوکر پاکستان کی بیٹی کیوں نہیں ہے؟؟؟ پاکستان کی بیٹی کو ظلم کی
چکی میں پسوانے والے بدمعاش مشرف کی طرح مغرب کی کاشت کردہ تعلیم کی دیوی
ملالہ بھی اُسی کی طرح مغرب کی پناہ میں ہے۔ پاکستان کے غیرت مند مسلمان
خود فیصلہ کریں کہ پاکستان کی حقیقی اور عظیم بیٹی کون ہے، ڈاکٹر عافیہ یا
ملالہ یوسف زئی؟؟؟ |