میں خود پسندی سر کشی فساد اور
نا انصافی کے لیئے نہیں نکلا ہوںبلکہ میں اپنے جد کی اُمت کی اصلاح کے لیئے
نکلا ہوں۔تمہیں دکھائی نہیں دیتا کہ حق پر عمل نہیں ہو رہااور باطل کوروکا
نہیں جا رہا ہے ۔میں اس حالت میں موت کو سعادت اور ظالمین کے ساتھ زندہ
رہنے کو ذلت قراردیتا ہوں ۔حضرت امام حسینؑ ۔مدینہ کے حلات حضر ت امام حسینؑ
کے حق میں ناسازگار ہوگئے اور آپ نے سوچا کہ میرے حامیوں اور حکومت کے
درمیان کہیں ایک مسلح جنگ کی فضا پیدا نہ ہوجائے اور خون خرابہ کی نوبت
آجائے اور میرے نانے کا وہ پاک مدینہ جسے آپ نے حرم قرار دیاتھا وہ مقدس
سرزمین میرے خون سے رنگین نہ ہوجائے ۔ لہذا آپؑ روضہ رسول ﷺپر حاضر ہوئے
اور گُنبدے خضرا کو مشتاقانہ حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ کر ٹھنڈی سانس لے کر
عرض کی: نانا اب آپ کے شہر کے لوگ اور یہا ں کے حکمران مجھے آپ کے قدموں
میں نہیں رہنے دیتے پھر حضور اقدس سے اجازت لے کر بوجھل دل اور پر نم
آنکھوں کے ساتھ اہل وعیال اور اعزا ہ واقارب کو ساتھ لے کر مدینے کے حرمت
کے تحفظ کی خاطر شہر مکہ کی طرف ہجرت فرما گئے جب وہا ںپہنچے تو عبداﷲبن
زبیر بھی اپنے کئی حامیوں کو مکہ میں تیار کرچکے تھے۔ یزید کو جب عبدﷲبن
زبیر کے مکہ پہنچنے کی خبر ہوئی تو اس نے اپنا لشکر بھیجا اور سپہ سالار کو
حکم دیا کہ مکہ کا محاصرہ کرلیا جائے لہذا ےزیدی فوج نے نواسہ رسول ﷺ کومکہ
میں بھی چین سے رہنے نہ دیا ۔مکہ کی مقدس گلیوں میں خون خرابہ نہ ہو اس
لیئے آپ نے مکہ سے بھی ہجرت کرنے کا فیصلہ کرلیا آپ ؑ نے بڑی تکلیف کے ساتھ
مکہ کو الوادع کہا۔تین ذولحجہ کو جب حضرت امام حسینؑ مکہ سے کوفہ کے لیئے
راوانہ ہوئے تو راستے میں ایک شاعر مِلا آپ نے دریافت کیا کہ کوفہ کا کیا
حال ہے تو اس شاعر نے جواب دیا کہ ان کے دل تو آپ کے ساتھ ہیں لیکن تلواریں
یزید کے ساتھ ہیں۔ جب آپ ؑ کوفے کے لیے روانہ ہونے لگے تو آپ سے درخواست کی
گئی کہ مکہ میں کچھ روز اورقیام کر لیں لیکن امام حسینؑ نہیں چاہتے تھے کہ
مکہ میں یزیدی فوج آپؑ کی گرفتاری کے لیئے اہتمام کریں اور آپ ؑ کے حامی آپ
کے دفاع میں تلواریں اُٹھا لیں اور آپ ؑ کے سبب مکہ میں خون خرابہ پیدا ہو
جائے اسی لیے آپؑ نے حج کے دنوں سے قبل از روانگی اختیار فرمائی اس شاعر کی
بات سُننے کے باوجود آپ ؑ آگے بڑھے ۔ راستے میں حر بن یزید تمیی ملا جسے
ابن زیاد نے لشکر دے کر بھیجا تھا کہ حسین کو کوفہ میں داخل نہ ہونے دیا
جائے اور کوشش کر وکہ اُسے میرے پاس لے کر آﺅ۔ حرنے آپ ؑ سے مخاطب ہوا ۔
آئے حسین ابن علی آ پ کو پہ چل چکا ہوگا کہ آپ کے چچا زاد بھائی مسلم بن
عقیلؑ شہید ہو چکے ہیں اور کوفی لوگ حسب دستور بے وفا ثابت ہوئے وہ آپ کی
اطاعت کرنے سے بدل چکے ہیں اور حالات آپ کے لیے سازگارنہیں ہیں بتائیے آپ
کا کیا خیال ہے کیونکہ مجھے حکم ہے کہ آپ کو ابن زیاد کے دربار میں لے کر
چلوں تب امام عالی مقام نے اہل قافلہ سے مشورہ کیا اور یہ قرار پایا کہ فی
الحال کسی میدان میں قیام کیا جائے لہذا امام حسین ؑ اپنے قافلے کے ساتھ
ایک ایسے میدان میں آپہنچے جس کے بارے میںانہیں خبر تک نہ تھی کہ وہ کونسا
میدان ہے۔ دریائے فرات کا کنارہ نزدیک تھا آپ ؑ نے خیال کیا کہ ےہاں پانی
قریب ہے کچھ آسانی ہوگی وہ یکم محرم اور بعض روایتوں میں ہے کہ دو محرم کا
دن تھا جب آپ ؑ نے اپنے ساتھیوں سے دریافت کیا کہ یہ کون سا میدان ہے اس کا
نام کیا ہے تو انھوں نے بتایا کہ حضرت اس کا نام کربلا ہے تو فرمانے لگے بس
یہیں خیمے لگا دویہی ہمارے سفر کی آخری منزل ہے ۔ حضرت امام حسین ؑ کو حضرت
محمد ﷺکے وہ فرامین یاد آگئے جو آپ ﷺ کربلہ کے متعلق بچپن میں آپ کو فرمایا
کرتے تھے اور حضورﷺ کی دی ہوئی وہ تمام بشارتیں آپ کی آنکھوں کے سا منے ا ٓ
گئیں کیونکہ آپؑ کویہ ساری بشارتیں پہلے ہی سے دی جاچکی تھیں اس لیئے آپ نے
اس میدان کو اپنے سفر کا منتہی سمجھ کر خیمے لگائے اور خیال فرمایا کہ دریا
قریب ہے پانی میسر آئے گا لیکن ظالموں نے آپ کو پانی سے محروم کرنے کا
منصوبہ پہلے ہی سے بنا یا ہواتھا ۔ابن زیاد نے جب سمجھا کہ عمر وبن سعد
امام حسین ؑ کے قتل سے گریز چاہتا ہے تو اس نے شمر ذی الحبوشن کو لشکر دے
کر روانہ کیا اور کہا کہ عمروبن سعد اگر حسین ؑ کے ساتھ مقابلہ نہیں کرنا
چاہتا تو اسے معزول کرکے لشکر کی قیادت تم سنبھال لینا ۔جب شمر کربلا پہنچا
تو محرم کا آغاز ہو چکا تھا عمروبن سعد نے یہ دیکھا کہ حکومت مجھ سے چھینی
جارہی ہے اس لیئے اما م حسین ؑ کے ساتھ مقابلہ کرنے کا فیصلہ کرلیا اور ابن
زیاد کے کہنے پر پانچ سو لشکریوں کو بھیجا کہ وہ دریائے فرات پر قبضہ کر
لیں حسینؑ اور اس کے حامیوں کو پانی کا ایک گھونٹ تک بھی نہ لینے
دیاجائے۔یہاں مجھے محسن نقوی کا ایک شعر یاد آرہا ہے۔ (دیکھتا ہوں سیلاب تو
یہ خیال آتا ہے ! کہ پانی بھٹک رہا ہے تلاشِ حسین ؑمیں ) آخر کار فیصلہ
ہوگیا کہ دس محرم کو جنگ شروع ہوگئی ۔آپؑ شب عاشور کی رات آپ اپنے خیمے میں
گئے عزت ماب خواتین کو جمع کیا اپنی بہن حضرت زینبؑ ، زوجہ مطہر ہ ، حضرت
شہر بانوؑ ،چھوٹی شہزادیوں ،شہزادوں اور خانواہ رسولﷺکے جوانوں کو ارشاد
فرمایا!میں آپ سب سے بے حد راضی اور خوش ہوں آپ نے حق وصداقت ،وفا شعاری
ادا کر دیا میں قیامت کے دن تمہارے حق میں گواہی دونگا تمہیں اجازت دیتا
ہوں کہ رات کے اندھیرے جہاں چاہو چلے جاﺅ مجھے جام شہادت اسی میدان میں نوش
کرنا ہے لیکن تمہیں اپنی خاطر جنگ میں جھونکنا اور مروانا نہیں چاہتا ۔ آپ
کے عزیزوں کی آنکھیں پر نم ہوگئیں سب نے تھر تھراتے ہوئے لبوں سے جواب دیا
کہ امام عالی مقام!ہم اپنے خون کا آخری قطرہ آپ کے قدموں پر گرادیں گئے اگر
آج آپ کو تنہا چھوڑدیا توکل اپنے خدا اور اپنے نبی کریم ﷺکو کیا منہ
دکھائیں گئے۔اہل بیت کے مقدس کے خیموں میں رات بھر تلاوت ہوتی رہی اور امام
حسین ؑ سب کو صبر کی تلقین فرماتے رہے۔ علی الصبح معرکہ کربلا بپا ہوگیا سب
سے پہلے یکے بعد دیگرے ایک ایک شخص آتا رہا اور قافلہ حسینی کے جوان یزیدی
لشکر کے لوگوں کو واصل جہنم کرتے رہے پھر یزیدی فوج نے اجتماعی حملے کا
فیصلہ کرلیا لیکن حسینی قافلے سے صرف ایک ایک جوان ہی یزیدی پورے قافلے کا
مقابلہ کرتا رہا ۔لیکن جب سارے ساتھی جان نثار اور حبیب ابن مظاہر جیسے
دوست بھی شہید ہوگئے تو اب صر ف اہلبیت نبوت کے افراد ہی رہ گئے تھے۔تب آپ
نے تلوار نکالی لیکن علی اکبرمیدان میں آگئے عرض کرنے لگے اباجان !بیٹا آپ
کا جوان ہے اورجوان بیٹوں کے ہوتے ہوئے باپ کو ایسی تکلیف کی ضرورت نہیں
علی اکبرمیدان میںپہنچے جہاد شروع کیا ۔آپ کی تلوار جس طرف اُٹھتی یزید ی
فوج کے ٹکڑے اڑا دیتی علیؑ حیدر کرار کا پوتا اور حضرت محمد ﷺ کا نواسہ دیر
تک یزیدیوں کے واصل جہنم کرتا رہا پھر آخر کار تین دن سے بھوکے پیاسے علی
اکبرؑ کو پیاس نے آ گھیرا لڑتے لڑتے جسم پر بیسوں زخم لگ گئے تھے تازہ دم
ہونے کے لیئے پانی کا ایک گھونٹ پینے کے لیئے خیمے آئے ۔عرض کیا اباجان !
اگر پانی کا ایک گھونٹ مل جائے تو تازہ دم ہوکر پھر حملہ کروں فرمایا! علی
اکبرؑ پانی تو میسر نہیں ہے لیکن اپنی سوکھی ہوئی زبان تیرے منہ میں ڈال
سکتا ہوں امام علی اکبرؑ نے امام عالی کی سوکھی زبان چکھی اور اس سے پھر
تازہ دم ہوکر میدان میں پہنچے کافی دیر لڑنے کے بعد بے اندازہ زخم کھا کر
زمین پر گر پڑے ایک نیزہ آپ کے سینہ اقدس میں پیوست ہوگیا !اچانک آواز آئی
!یا ابتاہ ! ائے اباجان!امام حسینؑ بے ساختہ دوڑ پڑ ے جاکر اپنے بیٹے کو
گود میں اُٹھایا ۔بیٹا ایک عجیب انداز سے باپ کو تک رہا ہے عرض کی! اباجان!
آپ نیزے کا یہ پھل جسم سے نکال دیں تو میں ایک بار پھر میدان میں جانے کے
لیئے تیار ہوں ۔امام حسینؑ جب حضرت علی اکبرؑ کو گود میں اُٹھائے ہوئے تھے
تو اس وقت آپ کی عمر چھپن سال پانچ مہینے اور پانچ دن تھی ابن عساکر لکھتے
ہیں کہ داڑھی اور سر کا ایک بال بھی سفید نہ تھا لیکن خون کے فوارے کو دیکھ
کر اور جوان بیٹے کی روح قفس عنصری سے پروازکرتی دیکھ کر اتناصدمہ پہنچا
اور اس قدر غم سے لاحق ہو ئے کہ جب خیمے میں جوان بیٹے کہ لاش اُٹھا کر آئے
تو سر اور داڑھی کے بال سفید ہوچکے تھے۔ عزم وہمت اور صبر و استقلال کے اس
پیکر جواں بیٹے کی لاش خیمے میں رکھی ہوئی شہیدوں کے ساتھ لاکر رکھ دی اور
اس بار خود میدان میں جانے کی تیاری شروع کی تو ایک نو سال کا چھوٹا سا بچہ
تلوار اُٹھا کر سامنے آیا ۔یہ شکل محمدﷺ قاسم بن حسن بن علی ؑتھے ۔آپ نے
قاسم سے فرمایا ! بیٹے تو میرے حسن بھائی کی آخری نشانی ہے توآرام کر! جواب
دیا چچاجان! میں قیامت کے دن اپنے باپ کو کیا منہ دکھاﺅں گا وہ کہیں گئے کہ
قاسم تیرے چچا تیری آنکھوں کے سامنے شہید ہوگئے اور تو دیکھتا رہا نہیں
پہلے میرے ننھے گلے پر پہلے تلوار چل لے پھر آپ کی باری آئے گئی اور پھر
قاسم ابن حسن بھی شہید ہوگئے تمام جوان نادان مہمان اور معصوم بیٹوں کے
لاشے اُٹھا اُٹھا کر اما م حسینؑ تھک گئے کمر جُھک گئی تھی آنکھوں سے نظر
آنا بند ہوگیا اور میدان کربلا میں تن تنہا رہ گیا حضرت زھراؑ کا لخت جگر ۔جب
وقت نماز آیا فرمانے لگے یزیدیو ! کچھ دیر رُک جاﺅ تاکہ اﷲکی بارگاہ میں
سجدہ ادا کرلوں لیکن لشکر یزید یہ مہلت بھی دینے کو تیا ر نہ تھے امام حسین
ؑ نے ان کے عزائم دیکھ کر تلوار رکھ دی اور ظہر کی نماز کے لیے نیت باندھ
لی ۔ظالموں نے یہ نہ دیکھا کہ نماز ادا کر رہے ہیں،کچھ دیر تو رُک
جائیں،بلکہ یزیدی فوج نے موقع غنیمت جانااور چاروں طرف سے چڑھائی کردی
تیروں نیزوں تلواروں اور بھالوں سے اور پتھروں کی ہر طرف سے برسات ہونے لگی
جن کے پاس کچھ نہیں تھاوہ گرم ریت اُٹھا کرامام حسینؑ کے زخموں پر مَل رہے
تھے ۔تین دن کی پیاس،بھوک اورپے در پے حملوں نے نواسہ رسولﷺکے جسم کو نڈھال
کر دیاچناچہ گھوڑے سے گر گئے یہاں تک کہ جسم اطہر میں اُٹھنے کی سکت باقی
نہ رہی۔حضرت امام حسینؑ صبر و رضااور توکل کے سارے مرحلے کامیابی سے طے
کرکے شہادت کے اس مقام پر پہنچ گئے جسکی رفعت و عظمت کو کوئی نہیں
پاسکتا۔ادھر ہائف غیبی سے صدا آئی ! حسین آجاتو نے صبر کو کمال عطا کر
دیااستقامت کو انتہا تک پہنچا دیاہے امت مصطفیﷺکا سر اُنچا کردیا ائے حسین
آج سے تیرے اقدام کوبنائے لاالاقرار دے دیا جائے گا ۔حسین تو نے میرے سر کو
فخر سے بلند کردیا ہے۔حضرت فاطمہ الزہرہؑ بیٹے کو شاباش دیتی ہیں علیؑ شیر
خدا بیٹے کو آفرین کہتے ہیں۔آپ کا سر تن سے جُدا کر دیا جاتا ہے ظالموں کے
جذبہ انتقام کی پھر بھی تسکین نہیں ہوتی وہ جسم اطہر پر گھوڑے دوڑاتے ہیں
ٹاپوں سے روندتے ہیں انہیں خیال تک نہیں آتاکہ یہ وہ سر ہے جسے سرکار دو
عالم چوما کرتے تھے،یہ وہ جسم ہے جسے اپنے کندھے پر سوار کرتے تھے اور اپنی
پیٹھ پر بٹھا کرگھٹنوں کے بل چلتے تھے۔
آج کوئی بھی یزید کو اچھے الفاظ میں یاد کرنے والا نہیں ہر کوئی اس پر لعنت
بھیج رہاہے اور روز قیامت تک لعنت بھیجتے رہیں گئے۔اور اس کے برعکس نواسہء
رسولﷺامام حسین ؑاس دار فانی کو چھوڑ کر جانے کے باوجود بھی آج بھی لوگوں
کے دلوں میں زندہ ہیں اورروز قیامت تک زندہ رہیں گے ۔آج بھی کروڑوں افراد
اُنکی یاد میں آنسوں بہانے والے ہیں اور جو اُن کے کردار کو سراہتے ہیں کہ
امام حسین ؑ حق پرستوں کے شہنشاہ اور راہ حق میں جان دینے والوں کے امام
تھے اور جنھوں نے اپنے قول و فعل سے یہ بتا یا کہ دین اسلام کی تبلیغ گردن
کاٹنے سے نہیں گردنیں کٹوانے سے ہوتی ہے ۔حق ،دین اور ایمان کے راستے میں
شہید ہونے کے باعث حضرت اما م حسینؑ کل بھی زندہ تھے اورحسینؑ آ ج بھی زندہ
ہیں۔
قتل حسینؑ اصل میں مرگ یزید ہے !
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد |