گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔
نور کا سُتون اور سفید پَرِندے
اما مِ عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد آپ کے سرِ منوَّر سے
مُتَعَدَّدکرامات کا ظُہور ہوا ۔اہلِ بَیت علیہم الرضوان کے قافِلے کے
بَقِیّہ افراد 11 مُحرَّمُ الحرام کو کوفہ پہنچے جب کہ شُہَدائے کربلا
علیہم الرضوان کے مبارَک سر اُن سے پہلے ہی وہاںپَہنچ چکے تھے۔ ِامامِ عالی
مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سرِانور رُسوائے زمانہ یزیدی بد بخت” خو لی بن
یزید “کے پاس تھا یہ مَردود رات کے وَقت کوفہ پہنچا۔قَصرِ امارت( یعنی
گورنر ہاﺅس)کا دروازہ بند ہو چکا تھا۔ یہ سرِ انور کو لے کر اپنے گھر آگیا۔
ظالم نےسرِ انور کو بے ادَبی کے ساتھ زمین پر رکھ کر ایک بڑا برتن اس پر
اُلٹ کر اس کو ڈھانپ دیا اوراپنی بیوی ” نوار“ کے پاس جا کر کہا:میں تمہارے
لئے زمانے بھر کی دولت لایا ہوں، وہ دیکھ حُسین بن علی کا سر تیرے گھر پر
پڑا ہے۔ وہ بگڑ کر بولی: ”تجھ پر خدا کی مار!لوگ تو سِیم وزر لائیں اور تو
فرزندِ رسول کا مبارَک سر لایا ہے۔خدا کی قسم ! اب میں تیرے ساتھ کبھی نہ
رہوں گی۔“” نوار“ یہ کہکر اپنے بچھونے سے اُٹھی اورجِدھرسرِ انور تشریف
فرماتھا اُدھر آ کر بیٹھ گئی۔ اُس کا بیان ہے:خدا کی قسم! میں نے دیکھا کہ
ایک نور برابر آسمان سے اُس برتن تک مثلِ سُتون چمک رہا تھا اور سفید پرندے
اس کے اِردگِرد منڈلا ر ہے تھے ۔ جب صبح ہوئی توخولی بن یزید سرِ انورکو
ابنِ زِیادِ بد نِہاد کے پاس لے گیا۔
(اَلکامِل فی التَّاریخ ج۳ص۴۳۴ )
بہاروں پر ہیں آج آرائشیں گلزارِ جنّت کی
سُواری آنیوالی ہے شہیدانِ مَحَبَّت کی
خولی بن یزید کا درد ناک انجام
دنیا کی مَحَبَّت او ر مال وزر کی ہَوَس انسان کو اندھا اور انجام سے بے
خبر کر دیتی ہے۔ بد بخت خولی بن یزید نے دُنیا ہی کی مَحَبَّت کی وجہ سے
مظلومِ کر بلا کا سرِانور تن سے جُدا کیا تھا۔ مگر چند ہی برس کے بعد اِس
دنیا ہی میں اُس کا ایسا خوفناک انجام ہوا کہ کلیجہ کانپ جاتا ہے چُنانچِہ
چند ہی برس کے بعد مُختار ثقفی نے قاتلینِ امامِ حسین کے خلاف جو انتِقامی
کاروائی کی اس ضمن میں صدرُ الافاضِل حضرتِ علّامہ مولیٰنا سیِّد محمد نعیم
الدّین مُراد آبادی علیہ رحمة اللہ الھادی فرماتے ہیں:مختار نے ایک حکم دیا
کہ کربلا میں جو شخص(لشکرِ یزید کے سپہ سالار) عمرو بن سعد کا شریک تھا وہ
جہاں پایا جائے مار ڈالا جائے ۔ یہ حکم سُن کر کوفہ کے جَفاشِعار سُورما
بصرہ بھاگنا شروع ہوئے۔مُختار کے لشکر نے ان کا تَعاقُب کیا جس کو جہاں
پایا ختم کر دیا ،لاشیں جَلا ڈالیں، گھرلُوٹ لیے۔” خولی بن یزید “وہ خبیث
ہے جس نے حضرتِ ا مامِ عالی مقام ، سیِّدُنا امامِ حُسین رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کا سرِمبارَک تنِ اقدس سے جُدا کیا تھا۔ یہ رُو سیاہ بھی گرِفتار کر کے
مُختار کے پاس لایا گیا،مُختار نے پہلے اس کے چاروں ہاتھ پیر کٹوائے
پھرسُولی چڑھایا، آخِرآگ میں جھونک دیا۔ اِس طرح لشکرابنِ سعد کے تمام
اَشرار کو طرح طرح کے عذابوں کے ساتھ ہلاک کیا ۔چھ ہزارکُوفی جو حضرتِ ا
مامِ عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہکے قتل میں شریک تھے ان کو مختار نے طرح
طرح کے عذابوں کے ساتھ ہلاک کر دیا۔ (سوانحِ کربلا ص۲۲۱)
اے تِشنگانِ خون جوانانِ اہلبیت
کُتّوں کی طرح لاشے تمہارے سڑا کیے
رُسوائے خَلق ہو گئے برباد ہو گئے
تم نے اُجاڑا حضرتِ زَہرا کا بَوستاں
دنیا پرستو! دین سے منہ موڑ کر تمہیں
آخِر دکھایا رنگ شہیدوں کے خون نے
دیکھاکہ تم کو ظلم کی کیسی سزا ملی
گُھورے ۱ پہ بھی نہ گور۲ کو تمہاری جا ملی
مردودو! تم کو ذلّتِ ہر دَوسرا مِلی
تم خود اُجڑگئے تمہیں یہ بد دُعا ملی
دنیا ملی نہ عیش وطَرَب۳ کی ہوا ملی
سرکٹ گئے اماں نہ تمہیں اِک ذر ا مِلی
پائی ہے کیا نعیم اُنہوں نے ابھی سزا
دیکھیں گے وہ جحیم۴ میں جس دن سزا مِلی
فیضان سنت کا فیضان ۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف وکرم سے مجھے
بس ایک بار کہا تھا میں نے یا اللہ مجھ پر رحم کر مصطفی کے واسطے |