حسینؓ ! تیرے لہوکی خُوشبو

جوں جوں ”یومِ عاشور“ قریب آتا جا رہا ہے ، خوف کے گھنے سیاہ بادل پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لیتے چلے جا رہے ہیں ۔کربلا کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے خود کُش حملوں ، بم دھماکوں ، انسانی لوتھڑوں اور آگ اور خون کی بارش کے سوا کوئی خبر ہی باقی نہیں بچی۔گھر گھر میں صفِ ماتم بچھی ہے اور در در پہ نوحہ خوانی۔جو بچ رہے اُن کے در و دیوار پہ بھی ”اُداسی بال کھولے سو رہی ہے“ ۔

آئینِ خُداوندی تویہی ہے کہ وہ انسانوں کو اختلاف کا حق بھی دیتا ہے اور مہلت بھی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو روزِ ازل ابلیس کو اختلاف کی اجازت ملتی نہ فرعون ، شداداور نمرود کو ایک لحظے کی مہلت۔جب اُس تخلیق کار نے تو ہر انسان کو اختلاف کا حق دے کر بھیجا تو پھر ہمیںاپنے افکار ، نظریات اور تصورات بزورِ بازو دوسروں پر ٹھونسنے کا کیا حق پہنچتا ہے؟۔لیکن ہم تو اسے اپنا مذہبی فریضہ گردان کراخوت و محبت اور رواداری کی بجائے نفرت ، منافرت اور جبر و تشدد کادرس دینے لگے۔ جب سبھی کا اللہ ، رسول اور قُرآن ایک ہے تو پھر یہ نفرت و منافرت کیوں؟۔ کیا یہ قُرآن و حدیث میں لکھا ہے یافقہ کی کسی کتاب میں کہ اگر معاملاتِ دیںپر کوئی دینی بھائی آپ سے اختلاف کرتا ہے تو اُسے کافر کہنا یا قتل کرنا جائزہے؟۔ البتہ حکمت کی کتاب یہ ضرور کہتی ہے کہ جس نے بِلا وجہ کسی ایک شخص کا قتل کر دیا اُس نے گویا پوری خدائی کو قتل کر دیا۔ہم تو عامی ہیں اور ہمارا دینی علم واجبی لیکن ہمارے علمائے کرام تو ماشاءاللہ بحرِ علمِ دیں کے شناور ہیں ۔و ہ تو جانتے ہی ہونگے کہ صرف شرک ، زنا اور خونِ ناحق ہی ایسے” کبائر“ ہیں جن پرربّ ِ کردگار سب سے زیادہ غضبناک ہوتا ہے ۔تو پھر یہ شیعہ سُنی فسادات اور فرقہ واریت کے دہکتے الاو ¿ کیوں؟۔پھر یہ مخمصہ کیوںکہ فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھنے والوں میں سے کسے شہید کہا جائے ؟۔شیعہ کو یا سُنّی کو؟۔

اُدھر حاکمانِ وقت کے نِت نئے بیانات سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پوری قوم پر اَن دیکھی ، اَن جانی جنگ مسلّط کر دی گئی ہواور بد نصیبی کی انتہا یہ ہے کہ اِس جنگ کے متحارب گروہوں کے سالار عُلماءکرام ہی ہیںحالانکہ اگر احکاماتِ الٰہی کو مدّ ِ نظر رکھا جائے تو تمام فرقے اپنے اپنے عقائد پر قائم رہتے ہوئے بھی باہمی احترام ، محبت اور اخوت کا رشتہ استوار رکھ سکتے ہیں۔

بصد ادب اہلِ تشیّع سے سوال ہے کہ کیا حسینؓ صرف اُنہی کے ہیں ، کسی اور کے نہیں؟۔اگر وہ سبھی کے سانجھے ہیں تو پھر یہ تفریق کیوں؟۔اگر تقلید کی بجائے تحقیق کی جائے تواسلامی تاریخ تو یہ بتلاتی ہے کہ
ہیں کرنیں ایک ہی مشعل کی
بو بکر ؓ و عمرؓ ، عثمانؓ و علیؓ
ہم مرتبہ ہیں یارانِ نبی
کچھ فرق نہیں اِن چاروں میں

خُلفائے راشدین کے ہاں تو اخوت ، محبت اوریگانگت کے ساتھ ہی ساتھ خانوادہ رسول کا احترام اپنی انتہاؤں کو چھوتا نظر آتا ہے لیکنانتہائی معذرت کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ ہمارے علمائے کرام کی ہی دین ہے جو ہم نے ”یارانِ نبی “ میںبھی تفریق و تقسیم کر کے اتنی دوریاں پیدا کر دیں جو ہر روز ایک نئے کربلا کو جنم دیتی ہیں۔

ایک دفعہ امیر المومنین حضرت عمرؓ کے بیٹے اور حضرت حسینؓ کھیل رہے تھے۔کھیل کے دوران اُن کا کسی بات پر جھگڑا ہو گیا تو حضرت امام حسینؓ نے کہا ”ہٹ غلام زادے“ ۔حضرت عمرؓ کا بیٹا بسورتا ہوا اپنے باپ کے پاس پہنچا ۔اُس نے شکایت کی کہ حسینؓ نے اُسے غلام زادہ کہا ہے ۔جب امیر المومنین نے یہ سُنا تو فرمایا”بیٹے بھاگ کے جا اور حسینؓ سے یہ لکھوا لا ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنا کہا بھول جائیں اورہم اِس سعادت سے محروم رہ جائیں“۔ یہ بھی تاریخ بتلاتی ہے کہ حضرت علیؓ نے اپنے جگر گوشوں ، حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کو عین اُس وقت امیر المومنین حضرت عثمانؓ کی حفاظت پر مامور کیا جب شر پسند اُن کی جان کے درپے تھے ۔ اُس وقت حضرت علیؓ نے اپنے جگر گوشوں کی جان کی ہر گز پرواہ نہیں کی ۔تاریخ یہ بھی بتلاتی ہے کہ حضرت عمرؓ نے متعدد بار برملا یہ کہا ” اگر علیؓ نہ ہوتے تو عمر ؓ تو ہلاک ہی ہو گیا ہوتا“۔ لیکن ہم نے اخوت و محبت کے سارے درس بھلا کر ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کو ہی خدمتِ دیں سمجھ لیا ۔کیا خونِ حسینؓ سے رنگین کربلا کی مٹی کا یہی درس ہے؟۔ شاعر نے کہا:۔
قتلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

لیکن ہم ہر سال اپنوں کو ذبح کرکے کربلا کی یادیں تازہ کرتے اوراسلام کو” زندہ“ کرتے رہتے ہیں ۔حالانکہ تب تو حسینیت کے مقابل یزیدیت تھی لیکن اب؟۔۔۔اب توہرجانب حسینیت ہی حسینیت ہے۔ کون بد بخت ہے جو خانوادہ رسول سے پیار نہیں کرتا اور کون مردودایسا ہے جو یزیدکو لعین نہیں کہتا یا اُس سے نفرت کا کھُلم کھلا اظہار نہیں کرتا؟۔جب اِس سانحہ عظیم پر ہرچشمِ مسلم اشکبارہے تو پھر یہ فساد فی الارض کیوں؟۔پھر یہ کس کا اسلام ہے جو صرف اپنوں کا خون بہا کر ہی زندہ ہوتا ہے؟۔

حضرت امام حسینؓ نے طاغوت کے خلاف علمِ جہاد بلند کیا اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ یہ جنگ کسی صورت میں نہیں جیت سکتے ، اُنہوں نے نانا کے دین کی سرفرازی کے لیے نہ صرف اپنی بلکہ اپنے پورے خاندان کی شہادت قبول کر لی لیکن فسق و فجورکے آگے جھُکنا گوارا نہ کیا۔کیا حسین ابنِ علیؓ نے اپنی جان اُمتِ مسلمہ کو جوڑنے کے لیے دی تھی یاتوڑنے کے لیے ؟۔اگر جوڑنے کے لیے اور لاریب کہ جوڑنے کے لیے ہی دی تھی ، تو پھر ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے ہم ہی خونِ حسینؓ کی خُوشبو نہ پہچان سکے اور نہ ہی یہ جان پائے کہ کربلا کی مٹی میں کیا درس پنہا ں ہے ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سبھی مل کریومِ حسینؓ مناتے (خواہ اپنے اپنے طریقے سے ہی مناتے )اور وہی جذبہ خُلفائے راشدین کے دن مناتے وقت بھی نظر آتا لیکن ایساہوا نہیں اور نہ ہی ایسا ہوتا نظر آ رہا ہے جو لائقِ تحسین تو خیر کیا ہو گا البتہ جگ ہنسائی کا باعث ضرور ہے اور دیگر ادیانِ عالم کے طنز و تعریض کا سبب بھی ۔ ہمارے یہ دینی اختلافات ہی ہماری بربادیوں کا باعث ہیں جن سے ہمارا دشمن بھی بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے ۔اسی فرقہ واریت کو بہانہ بنا کر پتہ نہیں را ، موساد اور سی آئی اے کے کتنے ایجنٹ اپنی مذموم کارروائیوں میں مصروف ہیںلیکن ہم اُنہیں اپنا کھُلا دشمن بھی قرار نہیں دے سکتے کیونکہ حرف تو ہماری اپنی ذات پہ بھی آتا ہے ۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 865 Articles with 559977 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More