شہزادہ حیدرکرار امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جانب کربلا روانگی

 پائی نہ تیغِ عشق سے ہم نے کہیں پناہ
قرب ِحرم میں بھی تو ہیں قربانیوں میں ہم
آفتاب اپنے وقت پر طلوع اور اپنے وقت پر غروب ہورہاہے ۔مہتاب اسی طرح اپنی روشنی سے سینہ زمین کو روشن کیے ہوئے ہے ۔لیکن حالات بتارہے ہیں کچھ ہونے والا ہے ۔ ٦٠ھ؁ حج کازمانہ،دنیا کے دوردراز حصوں سے لاکھوں مسلمان وطن چھوڑ کر عزیزوں سے منہ موڑ کر اپنے رب عزوجل کے مقدس اور برگزیدہ گھر کی زیارت سے مشرف ہونے حاضرآئے ہیں ۔دلوں میں فرحت نے ایک جوش پیدا کردیا ہے ،اور سینوں میں سرور لہریں لے رہا ہے کہ یہی ایک رات بیچ میں ہے صبح نویں تاریخ ہے اور مہینوں کی محنت وصول ہونے ،مدتوں کے ارمان نکلنے کا مبارک دن ہے۔مسلمان خانہ کعبہ کے گرد پھرپھر کر نثار ہورہے ہیں ،مکہ معظمہ میں ہر وقت کی چہل پہل نے دن کوروزِ عید اوررات کو شبِ براء ت کا آئینہ بنا دیا ہے۔کعبہ کا دلکش بناؤ، کچھ ایسی دل آویز اداؤں کا سامان اپنے ساتھ لئے ہوئے ہے کہ لاکھوں کے جمگھٹ میں جسے دیکھئے شوق بھری نگاہوں سے اسی کی طرف دیکھ رہا ہے ۔معلوم ہوتا ہے کہ سیاہ پردے کی چِلمن سے کسی محبوب دلنواز کی پیاری پیاری تجلیاں چھن چھن کر نکل رہی ہیں،جن کی ہوش ربا تاثیروں ،دلکش کیفیتوں نے یہ مجلس آرائیاں کی ہیں ۔عاشقانِ دِلدادہ فرقت کی مصیبتیں ،جدائی کی تکلیفیں جھیل کرجب خوش قسمتی سے اپنے پیارے محبوب کے آستانہ پر حاضری کاموقعہ پاتے ہیں ،ادب وشوق کی الجھن ،مسرت آمیز بے قراری کی خوش آئند تصویر ان کی آنکھوں کے سامنے کھینچ دیتی ہے اور وہ اپنی چمکتی ہوئی تقدیرپر طرح طرح سے نازکرتے اور بے اختیار کہہ اٹھتے ہیں:
مقامِ وجد ہے اے دل کہ کوئے یارمیں آئے
بڑے دربار میں پہنچے بڑی سرکارمیں آئے

غرض آج کا یہ دھوم دھامی جلسہ جو ایک غرض مشترک کے ساتھ اپنے محبوب کے درِدولت پرحاضر ہے ،اپنی بھرپور کامیابی پرانتہا سے زیادہ مسرت ظاہر کر رہاہے۔مگر امامِ مظلوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقدس چہرے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی خاص وجہ سے اس مجمع میں شریک نہیں رہ سکتے یاان کے سامنے سے کسی نے پردہ اٹھا کر کچھ ایسا عالم دکھادیا ہے کہ ان کی مقدس نگاہ کواس مبارک منظرکی طرف دیکھنے اورادھر متوجہ ہونے کی فرصت ہی نہیںاوراگر کسی وقت حاجیوں کے جماؤکی طرف حسرت سے دیکھتے اورحجِ نفل کے فوت ہونے پراظہارافسوس بھی کرتے ہیں، توتقدیر،زبانِ حال سے کہہ اٹھتی ہے کہ ''حسین!رضی اللہ تعالیٰ عنہ تم غمگین نہ ہواگر اس سال حج نہ کرنے کاافسوس ہے تو میں نے تمہارے لئے حجِ اکبرکاسامان مہیاکیا ہے اورکمر شوق پردامنِ ہمت کا مبارک احرام چست باندھو، اگر حاجیوں کی سعی کے لئے مکہ کاایک نالہ مقرر کیا گیا ہے توتمہارے لئے مکے سے کربلا تک وسیع میدان موجود ہے ۔حاجی اگر زمزم کاپانی پئیں توتمہیں تین دن پیاسارکھ کر شربتِ دیدار پلایا جائے گا کہ پیو تو خوب سیراب ہو کر پیو،حاجی بقرہ عید کی دسویں کو مکہ میں جانوروں کی قربانیاں کریں گے، تو تم محرم کی دسویں کوکربلا کے میدان میں اپنی گودکے پالوں کو خاک وخون میں تڑپتادیکھو گے ، حاجیوں نے مکہ کی راہ میں مال صرف کیا ہے ،تم کربلا کے میدان میں اپنی جان اورعمر بھر کی کمائی لُٹادوگے ،حاجیوں کے لئے مکہ میں تاجروں نے بازارکھولا ہے ،تم فرات کے کنارے دوست کی خاطراپنی دکانیں کھولو گے ۔یہاں تاجرمال فروخت کرتے ہیں، وہاں تم جانیں بیچوگے ،یہاں حاجی خرید وفروخت کوآتے ہیں ایسی ہی خریدو فروخت کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے : اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَ اَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَ۔۔۔ترجمہ کنز الایمان: بیشک اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کے مال اور جان خرید لئے ہیں اس بدلے پر کہ ان کے لیے جنت ہے(پ11،التوبۃ:111)

امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بقرہ عید کی آٹھویں تاریخ کوفے کاقصد فرما لیا،جب یہ خبر مشہور ہوئی تو عمر بن عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس ارادے کا خلاف کیا اور جانے سے مانع آئے، فرمایا: ''جوہونی ہے، ہوکررہے گی۔'' عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے نہایت عاجزی سے روکنا چاہا ،اور عرض کی:''کچھ دنوں تأمل فرمائیے اورانتظارکیجئے ،اگرکوفی ابنِ زیاد کو قتل کردیں اوردشمنوں کونکال باہر کر یں توجانئے کہ نیک نیتی سے بلاتے ہیں اوراگروہ ان پرقابض اوردشمن موجود ہیں ہرگزوہ حضوررضی اللہ تعالیٰ عنہ کوبھلائی کی طرف نہیں بلاتے ،میں اندیشہ کرتاہوں کہ یہ بلانے والے ہی مقابل آئیں گے۔'' فرمایا: ''میں استخارہ کروں گا۔''عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما پھر آئے اورکہا: ''بھائی صبرکرناچاہتا ہوں مگرصبرنہیں آتا،مجھے اس روانگی میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شہید ہونے کا اندیشہ ہے ،عراقی بدعہد ہیں ،انہوں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے باپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کیا ،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ساتھ نہ دیا ،آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اہلِ عرب کے سردار ہیں ۔عرب ہی میں قیام رکھئے یاعراقیوں کو لکھئے کہ وہ ابنِ زیاد کو نکال دیں ،اگرایسا ہوجائے تشریف لے جائیے اوراگر تشریف ہی لے جانا ہے تو یمن کاقصدفرمائیے کہ وہاں قلعے ہیں ،گھاٹیاں ہیں اوروہ ملک وسیع زمین رکھتاہے۔'' فرمایا:''بھائی خداکی قسم!میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوناصح مشفق جانتاہوں،مگرمیں تو ارادہ مصمم کرچکا۔'' عرض کی:'' توبیبیوں اور بچوں کوتوساتھ نہ لے جائیے ۔'' یہ بھی منظور نہ ہوا۔
عبداللہ ابن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہمارونے لگے۔اسی طرح عبد اللہ ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہمانے منع کیا،نہ مانا،انہوں نے پیشانی مبارک پر بوسہ دے کرکہا:''اے شہیدہونے والے!میں تمہیں خداعزوجل کوسونپتاہوں ۔ ''

یوہیں عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے روکا ،فرمایا:''میں نے اپنے والد ماجد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ہے کہ ایک مینڈھے کے سبب سے مکے کی بے حرمتی کی جائے گی۔ میں پسند نہیں کرتاکہ وہ مینڈھا میں بنوں ۔''جب روانہ ہولئے ،راہ میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چچازادبھائی حضرت عبداللہ ابن جعفرطیاررضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خط ملا، لکھا تھا،''ذرا ٹھہرئیے میں بھی آتاہوں۔ ''

حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عمروبن سعید حاکم مکہ سے امامِ مظلوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے ایک خط ''امان اور واپس بلانے کا'' مانگا ،انہوں نے لکھ دیا اور اپنے بھائی یحیی بن سعید کوواپس لانے کے لئے ساتھ کر دیا ۔دونوں حاضر آئے اور سرسے پاؤں تک گئے کہ واپس تشریف لے چلیں ،مقبول نہ ہوا۔فرمایا:'' میں نے رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کوخواب میں دیکھا ہے اورمجھے ایک حکم دیا گیا ہے ،اس کی تعمیل کروں گا ،سرجائے خواہ رہے۔''پوچھا:''وہ خواب کیا ہے ؟'' فرمایا:''جب تک زندہ ہوں کسی سے نہ کہوں گا ۔'' یہ فرما کر روانہ ہوگئے ۔ (الکامل فی التاریخ،ذکرمسیرالحسین الی الکوفۃ ...)

جب امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی امام محمدبن حنفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوروانگی امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خبر پہنچی ،طشت میں وضو فرما رہے تھے ۔اس قدرروئے کہ طشت آنسوؤں سے بھردیا۔امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھوڑی دور پہنچے ہیں کہ فَرَزْدَقْ شاعرکوفے سے آتے ملے ، کوفیوں کاحال پوچھا،عرض کیا: ''اے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے جگر پارے !ان کے دل حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ہیں اوران کی تلواریں بنی امیہ کے ساتھ ،قضاآسمان سے اترتی ہے اورخداجوچاہتاہے کرتا ہے۔ ''

ابن زیاد کی جانب سے ناکہ بندی
غرض ادھر توامام رضی اللہ تعالیٰ عنہ روانہ ہوئے ،ادھر ابن زیاد بدنہاد بانی فسادکو جب یہ خبر پہنچی،قادسیہ سے خفان وکوہ لعلع اورقطقطانہ تک فوج سے ناکہ بندیاں کرادیں اور قیامت تک مسلمانوں کے دلوں کوگھائل کرنے اورکلیجوں میں گھاؤڈالنے کی بنیاد ڈال دی۔ امام مظلوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قیس بن مسہرکواپنی تشریف آوری کی اطلاع دینے کوفے بھیجا۔جب یہ مرحوم قادسیہ پہنچے ،ابن زیاد کے سپاہی گرفتارکرکے اس خبیث کے پاس لے گئے ۔اس مردود نے کہا:''اگرجان کی خیرچاہتے ہو تو اس چھت پرچڑھ کرحسین کوگالیاں دو۔''یہ سن کروہ خاندانِ نبوت کافدائی اہلِ بیتِ رسالت کا شیدائی چھت پر گیا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی حمدوثناکے بعد بلند آواز سے کہنے لگا: ''حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ آج تمام جہان سے افضل ہیں ،رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ زہرارضی اللہ تعالیٰ عنہا کے کلیجے کے ٹکڑے ہیں،مولیٰ علی ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھوں کے نور،دل کے سُرُورہیں ،میں ان کاقاصد ہوں ،ان کا حکم مانو اور ان کی اطاعت کرو''پھر کہا: ابنِ زیاد اور اس کے باپ پرلعنت۔ آخرِ کار اس مردک نے جل کرحکم دیا کہ چھت سے گرا کرشہید کئے جائیں ۔ (الکامل فی التاریخ،ذکر مسیر الحسین الی الکوفۃ،)

زہیر بن قین بجلی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی معیت
امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگے بڑھے توراہ میں زہیر بن قین بجلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ملے،وہ حج سے واپس آتے تھے اورمولیٰ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کچھ کدورت رکھتے تھے ۔ دن بھر امام کے ساتھ رہتے ،رات کو علیحدہ ٹھہرتے ۔ایک روز امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بلا بھیجا، بکراہت آئے ،خداعزوجل جانے کیا فرمادیااورکس اداسے دل چھین لیا کہ اب جو واپس آئے تواپنااسباب امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اسباب میں رکھ دیا اورساتھیوں سے کہا: جومیرے ساتھ رہنا چاہے رہے ورنہ یہ ملاقات پچھلی ملاقات ہے ،پھر اپنا سامان لے آنے اور امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ہوجانے کا سبب بیان کیا کہ شہربلنجر پرہم نے جہاد کیا ،وہ فتح ہوا،کثیر غنیمتوں کے ملنے پر ہم بہت خوش ہوئے ۔حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''جب تم جوانانِ آلِ محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ورضی اللہ تعالیٰ عنہمکے سردار کوپاؤ توان کے ساتھ دشمن سے لڑنے پراس سے زیادہ خوش ہونا۔''اب وہ وقت آگیا،میں تم سب کوسپردبخداکرتاہوں،پھر اپنی بی بی کو طلاق دے کرکہا: ''گھر جاؤ، میں نہیں چاہتاکہ میرے سبب سے تم کوکوئی نقصان پہنچے ۔ '' (الکامل فی التاریخ،ذکر مسیر الحسین الی الکوفۃ)

خداعزوجل جانے ان اچھی صورت والوں کی اداؤں میں کس قیامت کی کشش رکھی گئی ہے ،یہ جسے ایک نظردیکھ لیتے ہیں، وہ ہر طرف سے ٹوٹ کرانہیں کا ہو رہتا ہے۔ پھر یاروں سے یاری رہتی ہے نہ زن وفرزندکی پاسداری ۔آخریہ وہی زہیرتوہیں جو مولیٰ علی ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کدورت رکھتے اوررات کو امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے علیحدہ ٹھہرتے تھے، یہ انہیں کیا ہوگیا ؟اورکس کی ادانے بازرکھاجوعزیزوں کاساتھ چھوڑ ،عورت کو طلاق دینے پر مجبورہوکر بے کسی سے جان دینے اور مصیبتیں جھیل کر شہید ہونے کو آمادہ ہو گئے۔

امام مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی خبر
اب یہ قافلہ اوربڑھا توابن اشعث کا بھیجا ہواآدمی ملا ،جوحضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وصیت پر عمل کرنے کی غرض سے بھیجا گیاتھا ،اس سے حضرت مسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی خبر معلوم ہونے پر بعض ساتھیوں نے امام رضی اللہ تعالیٰ عنہکوقسم دی کہ یہیں سے پلٹ چلئے ۔ مسلم شہیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عزیزوں نے کہا :''ہم کسی طرح نہیں پلٹ سکتے ،یاخونِ نا حق کابدلہ لیں گے یامسلم مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جاملیں گے ۔'' امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:''تمہارے بعدزندگی بے کارہے ۔''پھرجولوگ راہ میں ساتھ ہولئے تھے ان سے ارشادکیا :''کوفیوں نے ہمیں چھوڑدیا، اب جس کے جی میں آئے پلٹ جائے ،ہمیں کچھ ناگوارنہ ہوگا۔'' یہ اس غرض سے فرمادیا کہ لوگ یہ سمجھ کر ہمراہ ہوئے تھے کہ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایسی جگہ تشریف لیے جاتے ہیں جہاں کے لوگ داخلِ بیعت ہو چکے ہیں ،یہ سن کر سواان چند بندگانِ خداکے جومکہ معظمہ سے ہم رکاب سعادت مآب تھے ،سب اپنی اپنی راہ گئے ۔
پھر ایک عربی ملے،عرض کی کہ'' اب تیغ وسناں پرجاناہے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہکو قسم ہے واپس جائیے ۔'' فرمایا:''جوخداچاہتاہے ہوکررہتاہے ۔' (الکامل فی التاریخ،ذکر مسیر الحسین الی الکوفۃ،)

حضرت حر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آمد
جس کے سبہ سالار حر ہیں ایک ہزارسواروں کا یہ لشکر امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوابن زیادبدنہادکے پاس لے جانے کے لئے بھیجاگیا تھا۔ مالکِ کوثر کے بیٹے رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکم دیا کہ'' انہیں اور ان کے گھوڑوں کو پانی پلاؤ۔'' پانی پلایاگیا۔

جب ظہرکاوقت ہوا ،امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مؤذن کواذان کا حکم دیا،پھران لوگوں سے فرمایا: ''تمہاری طرف میراآنااپنی مرضی سے نہ ہوا،تم نے خط اور قاصدبھیج بھیج کربلایا۔ اب اگر اطمینان کا اقرار کروتومیں تمہارے شہرکوچلوں ورنہ واپس جاؤں ۔'' کسی نے جواب نہ دیا اورمؤذن سے کہا :تکبیر کہو ۔امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حرسے فرمایا:''اپنے ساتھیوں کو تم نمازپڑھاؤگے؟''کہا:''نہیںآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پڑھائیں اورہم سب مقتدی ہوں گے۔ بعدِنماز حراپنے مقام پر گئے۔امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ تعالیٰ کی تعریف کے بعد ان لوگوں سے ارشاد کیا:''اگرتم اللہ عزوجل سے ڈرو اور حق کو اس کے اہل کے لئے پہچانو تو خداتعالیٰ کی رضامندی اسی میں ہے کہ ہم اہلِ بیت ان ظالموں کے مقابلہ میں ا ولی الامر ہونے کے مستحق ہیں ۔ اگرتم ہمیں ناپسند کرواورہمارا حق نہ پہچانو اوراپنے خطوں اور قاصدوں کے خلاف ہمارے بارے میں رائے رکھنا چاہو تومیں واپس جاؤں۔ ''

حرنے عرض کی:'' واللہ! ہم نہیں جانتے کیسے خط اورکیسے قاصد؟ امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خط نکال کرسامنے ڈال دئیے۔حرنے کہا:''میں خط بھیجنے والوں میں نہیں ، مجھے تویہ حکم دیا گیا ہے کہ جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پاؤں توکوفہ ،ابن زیاد کے پاس پہنچاؤں۔'' فرمایا: ''تیری موت نزدیک ہے اور یہ ارادہ دور۔'' پھر ہمراہیوں کوحکم دیاکہ''واپس چلیں۔''حرنے روکا۔فرمایا:''تیری ماں تجھے روئے کیا چاہتا ہے؟ '' کہا: ''سنئے !خداکی قسم! آپ کے سواتمام عرب میں کوئی اور یہ بات کہتا تومیں اس کی ماں کو برابرسے کہتا۔،مگرواللہ!آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ماں رضی اللہ تعالیٰ عنہاکانامِ پاک تو میں ایسے موقع پرلے ہی نہیں سکتا۔''فرمایا:''آخرمطلب کیاہے؟ '' عرض کی: ''ابن زیادکے پاس حضوررضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لے چلنا۔''فرمایا: ''توخداکی قسم!میں تیرے ساتھ نہ چلوں گا ۔'' کہا :''توخداکی قسم !آپ کو نہ چھوڑوں گا ۔''

جب بات بڑھی اورحُرنے دیکھا امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ یوں راضی نہ ہوں گے اور کسی گستاخی کی نسبت ان کے ایمان نے اجازت نہ دی تویہ عرض کی کہ ''میں دن بھر توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے علیحدہ ہونہیں سکتا ۔ہاں جب شام ہوتوآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھ سے عورتوں کی ہمراہی کا عذرفرما کرعلیحدہ ٹھہرئیے اوررات میں کسی وقت موقع پا کر تشریف لے جائیے ۔میں ابن زیاد کوکچھ لکھ بھیجوں گا ۔شاید اللہ تعالیٰ کوئی وہ صورت کرے کہ میں کسی معاملہ میں مبتلا ہونے کی جرأت نہ کرسکوں۔'' (الکامل فی التاریخ،ثم دخلت سنۃاحدی وستین...)مزید معلومات کے ساتھ پھر حاضرہونگے ۔اپنی دعاوں میں ضرور یادرکھیے گا۔
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 544056 views i am scholar.serve the humainbeing... View More