انتخابِ قیادت انتخابِ فراست

اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ وطن عزیز کو اس وقت دوبڑے مسائل کا سامنا ہے۔ ان میں سے ایک سیکورٹی یعنی ملک کی سلامتی اور عوام کی زندگیاں محفوظ بنانے کا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ دہشت گردی، انتہا پسندی اور لاقانونیت کی بلند تر سطح کی وجہ سے خاصا سنگین ہوگیا ہے جبکہ قانون کی عملداری ہر شعبے میں کمزور نظر آتی ہے۔ دوسرے مسئلے کا تعلق معیشت یعنی ملک کی مجموعی اقتصادی صورتحال اور عام لوگوں سے تعلق رکھنے والے معاملات سے ہے۔ ان معاملات میں روزگار ، مہنگائی ، علاج معالجے، تعلیم ، ٹرانسپورٹ اور کئی دوسرے امور آجاتے ہیں۔ اقتصادی نظم و ضبط میں ناکامی ، موثر منصوبہ بندی کے فقدان اور غلط بخشیوں کے رجحان کے باعث اس شعبے میں کوئی واضح پالیسی عملی طور پر نظر نہیں آتی۔ دوسری جانب کرپشن کے زہر نے ہر شعبے میں سرایت کرکے معیشت کو غیرمعمولی نقصان سے دوچار کیا ہے۔ ملکی سرمائے کا فرار، توازن ادائیگی کا ابھرتا ہوا بحران ، بیرونی سرمایہ کاری میں کمی ، کئی صنعتوں کی بیرون ملک منتقلی ، قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ، توانائی کی خطرناک صورت حال ، بڑھتی ہوئی غربت، معاشی گنجائش کے زوال سمیت ایک طویل فہرست ایسے عوامل کی ہے جو ملک کو دیوالیہ ہونے کے خطرات سے دوچار کررہے ہیں۔ معاشی اور سیاسی استحکام ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں جبکہ معیشت کا بڑی حد تک انحصار سیکورٹی اور احساس تحفظ پر ہے۔ جس ملک میں لوگوں کی زندگیاں ہر لمحے خطرے سے دوچار ہوں اور کاروباری زندگی بار بار تعطل کا شکار ہورہی ہو وہاں معیشت کے بارے میں اچھی پیش گوئیاں کرنا آسان نہیں۔ اسی طرح جس معاشرے میں معیشت کی خرابی ، بیروزگاری اور مہنگائی کے باعث لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہوں اسے محفوظ معاشرہ قرار دینا ممکن نہیں۔ اس لئے ہماری سیاسی پارٹیوں کو ، خواہ ان کا تعلق حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے، اپنے ماہرین اور تھنک ٹینکس کی مدد سے اس باب میں واضح لائحہ عمل بنانا اور عوام کو اس بات سے آگاہ کرنا چاہئے کہ وہ کس طرح معیشت کو درست کریں گی اور عام آدمی کو ہر طرح کا تحفظ کیسے فراہم کریں گی۔ ملک کی معاشی صورت حال اور قومی معاملات کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھنا درست نہیں ہوگا۔ دونوں کی طرف بیک وقت توجہ دینا ہوگی۔ ملک جب اپنی سمت کھوتا ہوا نظر آنے لگے تو سیاسی پارٹیوں اور ان کے رہنماﺅں کو انفرادی یا پارٹی مفادات کو نظر انداز کرکے ریاست کو بچانے پر توجہ دینی چاہئے۔ ملک ہوگا تو سیاست اور ادارے بھی ہوں گے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی ترجیحات درست کریں۔ یہ نہ ہو کہ دوسرے محلے میں بم پھٹے تو اپنے محلے کو محفوظ جان کر حالات سے لاتعلق رہیں، اپنے محلے کا کوئی گھر نشانہ بنے تو خود اپنے گھر کو محفوظ سمجھ کر اپنے حال میں مگن رہیں۔ ہمیں خواب غفلت سے جاگنا ہوگا۔ سیاستداں ملک کو اچھی معیشت اور عوام کو محفوظ زندگی دینے کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی کریں۔ عوام انتخابات میں ووٹ اس بات کو مدنظر رکھ کر دیں کہ کونسی قیادت ملک کو بدعنوانی اور عدم تحفظ کی مہیب صورت حال سے نکالنے کا قابل عمل پروگرام اور اس پر عملدرآمد کرانے کی اہلیت رکھتی ہے۔ صرف اسی طرح ہم ایک محفوظ اور خوشحال پاکستان کی منزل کی طرف پیش قدمی کرسکتے ہیں۔الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابی قوانین کی پابندی یقینی بنانے کےلئے جو اقدامات کئے جا رہے ہیں ان کی بنیاد پر یہ توقعات بے محل نہیں ہیں کہ آئندہ عام انتخابات شفاف اور غیر جانبدارانہ ہوںگے۔ بدھ کے روز چیف الیکشن کمشنر مسٹر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم نے بعض سیاسی جماعتوں کی تشہیری مہم میں سرکاری وسائل کے استعمال کا نوٹس لے کر ایک اچھی روایت کا آغاز کیا ہے۔ پچھلے دنوں کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں حکومتی عہدیداروں کی طرف سے سرکاری وسائل کے استعمال سے جو مہم چلائی جا رہی ہے اس کا انتخابی قوانین کی روشنی میں جائزہ لینے کے کسی بھی فیصلے کو آزادانہ و غیرجانبدارانہ انتخابات کی سمت پیش قدمی کہا جاسکتا ہے اور تمام سیاسی پارٹیوں کو اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ ان کا کوئی بھی عمل قبل از انتخاب دھاندلی کے زمرے میں نہ آئے۔مسٹر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم نے اپنا موجودہ منصب سنبھالنے کے بعد انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے متعلق جو یقین دہانیاں کرائی تھیں ان کو روبہ عمل لانے کے سلسلے میں انہیں تمام آئینی و قانونی اختیارات حاصل ہیں۔ چونکہ عوامی نمائندگی کے قانون 1976ءکے تحت الیکشن کمیشن انتخابی عمل کی شفافیت پر اثرانداز ہونے والی کسی بھی کارروائی کوروکنے کا مجاز ہے اور قانون کے آرٹیکل 92کے تحت انتخابی عمل پر اثرانداز ہونے کےلئے سرکاری حیثیت کا غلط استعمال کرنے پر الیکشن کمیشن کو دو سال قید تک کی سزا دینے کا بھی اختیار حاصل ہے چنانچہ ان قوانین پر عملدرآمد کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر کی طرف سے گزشتہ ایک ماہ کے دوران شائع اشتہارات کی تفصیلات بھی طلب کرلی گئی ہیں ہم اس پس منظر میں تمام سیاسی جماعتوں کو یہ مخلصانہ مشورہ دینا چاہیں گے کہ وہ انتخابی عمل کو صاف و شفاف بنانے کےلئے الیکشن کمیشن سے بھرپور تعاون کریں تاکہ موجودہ نظام پر عوام کا اعتماد مستحکم ہو جو ماضی کی بعض بے قاعدگیوں کے باعث بڑی حد تک مجروح ہوا ہے۔ عوامی حلقے آئندہ عام انتخابات کو وطن عزیز کی تاریخ کے اہم انتخابات سے تعبیر کر رہے ہیں۔ اس لئے سیاسی پارٹیوں کو ایسی غلطیوں سے اجتناب برتنا چاہئے جو کسی المیے کو جنم دینے کا سبب بنیں۔
Hashir Abdullah
About the Author: Hashir Abdullah Read More Articles by Hashir Abdullah: 9 Articles with 6202 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.