دنیا میں ہر شخص اپنی رائے رکھتا
ہے اور اپنے طریقے سے اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے۔ میں اپنی رائے کا اظہار
اپنی تحریروں سے کرتا ہوں۔ میں نے بڑی مرتبہ اپنی تحریروں میں موجودہ حکومت
کوتنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ لیکن ذاتی طور پر صدر آصف زرداری اورسابق
وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی سمیت پیپلزپارٹی کے کسی فردیا پیپلز پارٹی سے
کوئی رنجش نہیں ہے ۔ایک پاکستانی ہونے کے ناطے جودیکھا’سنا’پڑھا’جانا اور
جاننے کے بعد جو محسوس کیا لکھ دیا۔ایک بات اور کہنا چاہوں گا جو لکھا وہ
خالصتا میری ذاتی رائے تھی اور میری رائے ناقص اور کمزور ہوسکتی ہے۔
لیکن ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا۔ جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ
دنیا میں ہر شخص کی اپنی رائے ہے۔یعنی سب کواختلاف رائے کا حق حاصل ہے۔ ہم
جانتے ہیں کہ مختلف لوگ ایک ہی موضوع پر مختلف رائے رکھتے ہیں ،میرے نزدیک
اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب کو ایک جیسا عقل و شعور عطا نہیں کیا
اس لیے ہر کوئی اپنے شعور کے مطابق کسی چیز کا جائزہ لیتا ہے اورہر کوئی
مختلف پہلوئوں پر غوروفکر کرتا ہے جس کا نتیجہ مختلف آراء کی صورت میں
نکلتا ہے۔اس لیے ہمیں کسی کی رائے کو صرف اس لیے غلط نہیں کہنا چاہیے
کیونکہ اس کی رائے ہماری رائے سے مختلف ہے۔اب میں آپ کے سامنے ایک مثال
رکھتا ہوں جس میںدو کالم نویسوں نے موجودہ جمہوریت کے بارے اپنی اپنی رائے
کا اظہار کیا ہے۔
دونوں کالم نویسوں نے جمہوریت کی بات کی ہے لیکن دونوں کی رائے مختلف
ہے۔ایک ہی صفحے پراوپر نیچے چھپے دو کالمز کے کچھ حصے حاضر خدمت ہیں
۔(1)”پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کوختم کرنے کے لیے بڑے دائو پیچ اور
حربے استعمال کئے گئے ۔لیکن صدر پاکستان آصف علی زرداری کی ہمت کی داد دینی
پڑتی ہے کہ اس نے کسی نہ کسی طرح بچاؤکی راہیں ڈھونڈ کر جمہوری نظام کو
پٹری سے اترنے سے بچائے رکھا۔ کبھی میموگیٹ کا حواکھڑا کیا گیا’کبھی ایبٹ
آباد کمیشن کی کارووائی سے حکومت پر دبائو ڈالنے کی کوششیں کی گیئں اور
کبھی نیٹو سپلائی لائن کواحتجاجی سیاست کا روپ دیا گیا تاکہ حکومت دبائو
میں آکر نئے انتخابات کا اعلان کردے لیکن اپوزیشن کسی بھی ایشوپرحکومت کو
گھٹنے ٹیکنے پرمجبور نہ کرسکی۔ پی پی پی کی حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے
اعلانات اور گو زرداری گو کے نعرے بھی اسی تناظر میں تھے لیکن آصف علی
زرداری کی بہتر حکمت عملی کے سامنے مخالفین کے دانت کھٹے ہوگئے اور مخالفین
صدر آصف علی زداری کو ایوان صدر سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے موسیٰ گیلانی کوادویات کے ایک
مقدمے میں پھانسنے کی کوششیں کی گیئں اور میڈیا نے اس خفیہ ایجنڈے پر جس
طرح اسٹیبلشمٹ کی آواز میں آواز ملائی وہ بھی سب کے سامنے ہے ”راقم کی رائے
اس سے مختلف ہے۔ مجھے بھی سب کی طرح اختلاف رائے کا حق ہے لیکن اگر میں کسی
کی رائے کو بے کار قرار دُوں تو یہ احمکانہ عمل ہوگا،جمہوریت اور ختلاف
رائے کی آزادی دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے ، یہی دو چیز یں قوموں کو
کامیابیوں کے قریب ترکرتی ہیں لیکن تب جب یہ دونوں آزاد اور طاقتور
ہوں۔میرے نزدیک اختلاف رائے اور الزام تراشی میں بہت زیادہ فرق ہے ۔میرے
دوست نے میڈیا پر اسٹیبلشمٹ کی آواز میں آزواز ملانے کا الزام تو لگادیا
لیکن یہ نہیں سوچا کہ میڈیا کسی ایک فرد یا طبقے کا ترجمان نہیں بلکہ میڈیا
تو قوم کے فرد کی ترجمانی کرتا ہے۔
میری اس بات کا ثبوت آپ کی آنکھوں کے سامنے ہے آپ اس وقت میری جو تحریر پڑھ
رہے ہیں یہ میری آواز ہے جسے آپ تک پہنچایا میڈیا نے ،اگر کل کسی کو میری
بات سے اختلاف ہو اور میڈیا اس کی رائے آپ تک پہنچادے تو کیا میڈیانے برا
کیا ؟میرے خیال میں اچھا کیا اسی کا نام تو آزادی رائے ہے ۔
اپنے دوست کو کہنا چاہوں گا کہ چند لفظ کہوں گا کہ ان کومیڈیا پر اسٹیبلشمٹ
کی آواز میں آواز ملانے کا الزام لگانے سے پہلے یہ سوچ لینا چاہیے تھا کہ
میڈیا تو آپ کی اورمیری آواز میں بھی آواز ملاتاہے اور اگر ایسانہ ہوتا تو
آپکی یہ تحریر کبھی بھی اخبارات میں شائع نہ ہوتی۔حق آزادی رائے کا یہ مطلب
نہیں کہ ہم دوسروں پر الزام تراشیاں کریں ۔ جس پہلوپر صاحب رائے نے غورکیا
اس کے مطابق پی پی پی کی موجودہ حکومت کا ہر قدم جمہوریت ہے ۔میری رائے میں
صدرآصف علی زرداری کو ایوان صدر سے نکالنے کی کوشش کسی نے نہیں کی ہاں
گوزرداری گو کا نعرہ ضرور لگایا گیا لیکن وہ صرف ایک نعرہ تھا ۔پی پی پی کی
موجودہ حکومت وہ پہلی جمہوری حکومت ہے جوچار سال سے زیادہ مدت پوری کرچکی
ہے اور بظاہر یہی نظر آرہا ہے کہ یہ حکومت اپنے پانچ سال پورے کرے گی اگر
یہ حکومت اپنے پانچ سال پورے کرتی ہے تواس بات کا کریڈٹ صرف پی پی پی کو ہی
نہیں جاتا بلکہ پیپلزپارٹی کے ساتھ ساتھ ان تمام سیاسی پارٹیوں کو بھی جاتا
ہے۔
جو ایوان میں موجود ہیں وہ چاہے حکومت میں رہیں یا اپوزیشن میں۔کالم نمبر2”
بدترین لوڈشیڈنگ ‘تیل وگیس کی قیمتوں میں بد ترین اضافہ ‘بے روزگاری
‘سرکاری اداروں کی تباہی کے عوامی گفٹ کے بعد ایک طرف عوام کو اپنے بچوں کے
خالی پیٹ بھرنے کے لیے خوراک مہیا نہیں آرہی تو دوسری طرف سیاست دان ٹاک
شوز اور جلسوں میں جمہوریت کا راگ بجاتے دیکھائی دیتے ہیں ۔سیاست دانوں کا
خیال ہے کہ جب نادان اوربھوک سے مارے بچے ٹی وی پر سیاست دانوں کو میک اپ
لگا کر جمہوریت کی حفاظت پرگھنٹوں بحث کرتے سنتے ہیں تو وہ بچے اپنے والدین
سے یہ سوال کرتے ہیں ۔یہ جمہوریت کس جن’بھوت یا پری کا نام ہے جواگرناراض
ہوتو ہمیں کھانا نہیں ملتا اور اگر خوش ہو توپیٹ میں جگہ نہیں رہتی کھانے
کے لیے ؟”قارئین محترم راقم بچہ تو نہیں لیکن آج اپنے آپ کو نادان محسوس
کررہا ہے۔کیونکہ میرے ملک میں جمہوریت واقع ہی کسی جن بھوت یا پری کی مانند
ہی ہے ۔جسے سنا جا سکتا ہے ۔
پڑھا جاسکتا ہے ،لکھا جاسکتا ہے لیکن اس کا استعمال منع ہے ۔بالکل ایسے ہی
جیسے سگریٹ کے ہر پیکٹ پر لکھاہوتا ہے کہ خبردار تمباکو نوشی مضرصحت ہے
۔(حکومت فلاں )لیکن حکومت کی جانب سے ممنوعہ قرار دیے جانے کے با وجود
سگریٹ ہرگلی ہرمحلے میں عام دستیاب ہے۔ٹھیک اسی طرح جمہوریت بھی ایسی مقدس
گائے ہے جسے صرف دور سے سنا اور دیکھا جاسکتا ہے لیکن عام آدمی کے لیے
چھونا منع ہے۔کسی کی رائے کچھ بھی ہو فیصلہ تو 18کروڑ عوام ہی کرے گی اور
آئندہ عام انتخابات میں پتا چل جائے گا کہ موجودہ حکومت کتنی عوام دوست
گزری۔
اگر عوام کی اکثریت دوبارہ پیپلزپارٹی کو ووٹ دیتی ہے تو پھر ثابت ہوجاے گا
کہ پیپلزپارٹی کی موجودہ حکومت عوام دوست گزری۔سوال یہ نہیں کہ آنے والے
عام انتخابات میں کون سی پارٹی حکومت بنانے میں کامیاب ہوتی ہے۔بلکہ سوال
تو یہ ہے کہ عوام دوست پالیساں کون بنائے گا ؟آخر میں اتنا کہوں گا کہ ہمیں
اپنی رائے کا اظہار کرتے وقت کسی پر الزام تراشی نہیں بلکہ اصلاح کی کوشش
کرنی چاہیے۔ |