کل کی اخباری اطلاعات سے لگتا ہے
کہ آنے والے دنوں میں برطانیہ کی سیاست میں کوئی ہلچل یا بڑی تبدیلی رونما
ہو سکتی ہے . ٹوری اور لبرل کا وہ اتحاد کہ جس میں پہلے سے ہی بہت سی باتوں
اور خاص کر پالیسی کے معاملات کا فرق موجود تھا اب تب کھل کر سامنے آیاہے
جب لارڈ جسٹس لویسن کی جانب سے میڈیا کی آزادی اور صحافیوں کے حکومتی حلقوں
میں تعلقات کے حوالے سےایک رپورٹ سامنے آئی .اس رپورٹ میں اس تعلق کو نہ
صرف تنقید کا نشانہ بنایا گیا بلکہ یہ سفارشات بھی دی گئی ہیں کہ حکومت ایک
آزادانہ پالیسی اور نگران شعبے کا قیام عمل میں لائے جو میڈیا کی بے لگام
اور مغرور حرکتوں پہ نا صرف نظر رکھے بلکہ اس کو قابو میں بھی لائے . تنقید
صرف میڈیا پر یا پھر اخباری اداروں پر ہی نہیں کی گئی بلکہ اس کی زد میں
حکومت ، سیاست دان اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی آئے ہیں کہ جنکے
صحافیوں کے ساتھ تعلقات ایک مدت سے قائم ہیں.
ا س رپورٹ اور تجویزات کے اجرا کے بعد وزیر اعظم اور ڈپٹی وزیر اعظم کے
درمیان ایک تفریق اس وقت صاف نظر آئی جب وزیر اعظم نے اس قسم کے کسی بھی
نگران ادارے کے قیام کو غیر فعال یا کم اہم قرار دیا مگر ڈپٹی وزیر اعظم نے
اس ادارے کے قیام کو میڈیا کی نگرانی لیے بہترین قرار دیا .
اگر ہم برطانوی سیاست اور اس میں میڈیا یا نشر و اشاعت کے اداروں کی دلچسپی
یا مداخلت کی تاریخ کی کھوج لگائیں تو ہمیں تاریخ میں ذرا پیچھے جانا ہو گا
. ١٩٣١ میں رمسی میکڈونلڈ نے لیبر پارٹی کی ایک قومی حکومت بنائی. اس حکومت
میں ٹوری پارٹی کے بے شمار وزیر شامل تھے . یہ حکومت سازی کے لیے ایک بڑا
ناسازگار وقت تھا .
جب حکومت کے بینچوں پر مخالف پارٹی کے ممبران کو اتحادی ممبران کی صورت جگہ
دی جاتی ہے تو بہت سی باتوں پہ ایسے سمجھوتے ہوتے ہیں جو پالیسی کے مخالف
بھی ہوتے ہیں اور ان سے حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ بھی اپنی
جگہ موجو د رہتا ہے . ١٩٣١ کے عام انتخابات کے بعد وزیر اعظم کی خرابی صحت
کی وجہ سے ٹوری پارٹی نے حکومت اپنے قبضے میں لے لی اور اس وقت کے لورڈ
پریسیڈنٹ آف کونسل ارل سٹینلی بالڈون نے وزیر اعظم کی ذمہ داریاں سنبھال
لیں . اس طرح ١٩٣٥ تک یہ بندوبست چلتا رہا اور ١٩٣٥ میں الیکشن کی کامیابی
کے بعد ارل بالڈون نے مکمل طور پر رمسی میکڈونلڈ کو حکومت سے ہٹا دیا . یہ
وہ دور تھا جب کسی برطانوی وزیر اعظم نے نشریاتی اداروں ریڈیو اور اخبارات
کا استعمال کرتے ہوے اپنے آپ کو عوام میں مقبول بنایا . یہ اور بات ہے کہ
اس حکومت کے دور میں ا یتھوپیہ کی تقسیم کا سمجھوتہ طے پایا جس کا نقصان
تاج برطانیہ اور سلطنت کو ہوا ، اس کے علاوہ بے روزگاری اور ہٹلرکے حوالے
سے غیر فعال حکومتی پالیسی اور جنگ عظیم میں فوجوں کو سہی طریقے سے تیار نہ
کرنے کے الزامات بھی اس حکومت پر لگے. اور ایک الزام یہ بھی تھا کہ اس
حکومت نے میڈیا کو اپنی تشہیر کے لیے استعمال کیا . شاید ٹوری پارٹی کا
ماضی کا یہ رشتہ آج اس نہج پر پہنچ گیا ہے کہ صحافیوں کے حکومتی حلقوں میں
ذاتی تعلقات اور بد عنوانیوں نے لارڈ جسٹس لویسن کو یہ کہنے پر مجبور کیا
کہ حکومت کو نشریاتی اداروں سے اپنا ہاتھ نکالنا ہو گا ، انہوں نے سختی سے
تجویز دی ہے کہ اس ضمن میں قانون سازی کرنا اہم ہے .
اس تمہید کا مقصد صرف آج کی پیش رفت اور ماضی کے جھرونکوں سے ملنے والی وہ
اہم بات میرے پیش نظر ہے کہ جب حکومتیں صحافتی حلقوں اور نشریاتی اداروں کو
اپنی ایما پر استعمال کرتی ہیں تو اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ
صحافی اور صحافتی ادارے بے لگام ہو جاتے ہیں . وہ اپنی حدود سے باہر نکل کر
پیغام رسانی کے بجائے جج، وکیل ، پولیس والے اور نا جانے کیا کیا بن جاتے
ہیں . میں خود اس شعبے سے منسلک رہا ، اب نہ میری جیب میں کوئی پریس کارڈ
ہے اور نہ ہی میں کسی ایسے ادارے کا ملازم ہوں کہ جس کی رسائی ان ایوانوں
تک ہو کہ جہاں قوموں کے مستقبل کے فیصلے ہوتے ہیں . مگر میڈیا کی آزادی اور
بے انتہا آزادی بلکہ عجیب قسم کی آزادی نے آج پاکستان کو بھی ایک ایسی
صورتحال سے دوچار کیا ہوا ہے کہ اگر اس پہ قابو نہ پایا گیا تو مستقبل میں
قانون سازی کرنا تو دور اسے روکنا بھی نا ممکن ہو جائے گا .
گزشتہ روز میں نے عمران خان صاحب کا ایک انٹرویو دیکھا جو پاکستان کے ایک
بڑے نشریاتی ادارے پہ چلا . خان صاحب نے اس میں میڈیا کی آزادی کی بات کی
اور ساتھ ساتھ اس بات پر بھی زور دیا کہ فنون لطیفہ پہ کام کیا جانا ضروری
ہے اور اگر انھیں حکومت ملی تو وہ یہ سب کریں گے . میں آج تک ایک بات پر
کافی کنفیوز ہوں کہ پاکستان کا میڈیا آخر ہے کیا اور اس کی کیا پالیسی ہے .
ابھی خان صاحب سب کے پسندیدہ مہمان ہیں کیونکہ انکی پارٹی اور نظریات کی
حمایت نوجوانوں میں نظر آتی ہے مگر میں چاہوں گا کہ خان صاحب کو ایک کہانی
سناؤں کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ پاکستان کا میڈیا جہاں کسی جماعت یا شخصیت کو
مشہور اور اہم بنا سکتا ہے وہیں اس میڈیا کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ یہ اسی
مشہور جماعت یا شخصیت کو بدنام اور کمزور بنانے میں وقت نہیں لگاتا کیونکہ
میڈیا پاکستان میں آج جس قدر بے لگام ہے اس پر ایک کمیشن یا نگران ادارہ
نہیں بلکہ کافی ادارے بھی قابو نہیں پا سکیں گے . اخبارات اور ٹی وی اسٹیشن
ان صحافیوں کے دم سے چل رہے ہیں کہ جن کو روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں .
ملکی سالمیت ، داخلی پالیسی اور خارجی رابطے کیا ہوتے ہیں اس کی تربیت سے
نا بلد لوگ کبھی بھی کوئی بھی خبر چھاپ دیں اس پر نظر رکھنے والا کوئی نہیں
. ٹاک شوز کی بدتمیزیاں اور سیاست دانوں کے کھلنڈر ےپن نے میڈیا کو مچھلی
مارکیٹ بنا دیا ہے . کبھی کوئی سیاست دان کسی اور سیاست دان کی ذاتی زندگی
اور گالی گلوچ سے سامعین کو محظوظ کرتا دکھائی دیتا ہے تو کہیں سیاست دانوں
کے دوست صحافی انکو نیک نام ثابت کرتے نظر آتے ہیں .بغیر تحقیق کہ فوج ،
عدلیہ اور پاکستان کے آئین کا مذاق اڑایا جانا عام سی بات ہے . بے شمار
ایسے صحافی سامنے سامنے اپنے ہنر دکھاتے نظر آتے ہیں جو حکومتوں کے منظور
نظر ہوتے ہیں ، ان کے اکاونٹس ، ان کے مکان اور ان کا لائف سٹائل ہی کسی
عام شخص کو تشویش میں ڈالنے کے لیے کافی ہیں جو آج تک منظر عام پر نہیں آئے
اور نہ آ پائیں گے . یہ مقدس گائیں ہیں کہ جن کو کبھی بھی کوئی بھی سدھار
نہیں پایا.
بہرحال بات خان صاحب کے حوالے سے ہو رہی تھی. عمران خان اگر ایک امید کا
نام ہیں تو عمران خان صاحب کو تعلیم ، صحت اور دیگرشعبوں کو درست کرنے کے
ساتھ ساتھ ایک پاکستان دوست میڈیا پالیسی بھی مرتب کرنی ہو گی اور الیکشن
سے پہلے عوام کو اس پالیسی سے آگاہ کرنا ہو گا اگر وہ حقیقی تبدیلی چاہتے
ہیں تو یہ بہت اہم ہے کہ میڈیا کو حدود کا تعین کیا جائے .
پچپن میں سنا تھا کہ ایک جنگل میں ایک ہاتھی رہتا تھا . وہ سفاکانہ اور
مغرور طبیعت رکھتا تھا- جنگل کے تمام جانور اس جنگلی ہاتھی سے ڈرتے تھے. یہ
ہاتھی اپنی مرضی کا مالک تھا کسی بھی مقصد کے بغیریہ درختوں کی شاخیں توڑ
دیتا اور ان درختوں پہ بسنے والے پرندوں کی جان عذاب میں ڈال دیتا . اسی
طرح اس نے کئی جانوروںکو نقصان پہنچایا . ایک دن جنگل کے تمام جانوروں نے
سوچا کہ اس ہاتھی سے پیچھا چھوڑانا ضروری ہے . لومڑی کے ذہن میں ایک ترکیب
آئی اور وہ ہاتھی کے پاس گئی اس نے ہاتھی کو بتایا کہ وہ کسقدر طاقتور ہے
اور اسے یہ خوش خبری بھی دی کہ وہ اسے جنگل کے باقی جانوروں کی طرف سے
پیغام دینے آئی ہے کہ وہ سب ملکر اسے بادشاہ بنانا چاہتے ہیں . لومڑی نے
کہا کہ اس مقصد کے لیے جنگل میں ایک تقریب کا انعقاد کیاجا رہا ہے جہاں
ہاتھی کی تاج پوشی ہو گی اس لیے ہاتھی اس کے ساتھ چلے .
ہاتھی خوش فہمی کا شکار اور مغرور تو پہلے ہی تھا مگر اب جب اسے بادشاہی
ملنے کی خبر ملی تو وہ لومڑی کے پیچھے پیچھے چلنا شروع ہو گیا تا کہ وہ
مکمل طور پر جنگل کا حکمران بن سکے . لومڑی ہاتھی بادشاہ کا اقبال بلند ہو
کے نعرے لگاتی آگے چلتی گئی اور ہاتھی بادشاہی کے نشے میں مخمور اس کے
پیچھے چلتا رہا. جنگل میں ایک جگہ دلدلی علاقہ تھا جب لومڑی یہاں پہنچی تو
اپنے کم وزن کی وجہ سے آگے نکل گئی اور حکومت کے نشے میں مخمور ہاتھی
بادشاہ اس دلدلی مٹی میں ڈوب کر ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے غائب ہو گیا اور
اس طرح سفاک ہاتھی سے جنگل کے جانوروں کی جان چھوٹی.
خان صاحب تھوڑے ہوشیار رہیں اور اگر کسی کو یہ کہانی سمجھ آئی ہے تو وہ
اپنے اپنے محبوب لیڈروں سے گزارش کریں کہ میڈیا کے ہاتھی کو بے لگام نہ
چھوڑیں . اگر یہ ڈوبا تو آپ کو ، قومی سالمیت کو اور سب سے اہم پاکستانی
شناخت کو بھی ساتھ لے ڈوبے گا . الله نہ کرے ایسا ہو .
ختم شد |