ڈی ایٹ ممالک کا نواں سربراہ
اجلاس رکن ممالک کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کے عزم کیساتھ
اسلام آباد میں اختتام پذیر ہو گیا ہے۔ اس اجلاس میں ایران کے صدر محمود
احمدی نژاد، انڈونیشیا کے صدر سسیلو یودھویونو بمبانگ، نائیجریا کے گڈلک
جوناتھن، مصر کے نائب صدر محمد مکی، ترکی کے وزیراعظم طیب ایردوان،
ملائیشیا کے نائب صدر محی الدین محمد یاسین اور بنگلہ دیش کی وزیراعظم کے
مشیر ڈاکٹر علی گوہر نے شرکت کی۔ کانفرنس میں شرکت کرنے والے معزز مہمانوں
میں ایران کے صدر محمود احمدی نژاد سب سے نمایاں رہے جنہوں نے نہ صرف کئی
فکر انگیز باتیں کیں بلکہ اپنے کردار سے کئی ایسی مثالیں بھی قائم کیں کہ
جن سے پاکستانی رہنماءبہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ڈی ایٹ کانفرنس سے خطاب کرتے
ہوئے محمود احمدی نژاد نے کہا کہ ڈی ایٹ ممالک غیر منصفانہ عالمی نظام کا
شکار ہیں۔ انسانی وسائل اور صلاحیتیں ان ممالک کی اصل قوت ہیں اور انہیں
ترقی دینے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح ایرانی سفارتخانے میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ
امریکا کے ہاتھ اور زبان بہت لمبی ہے۔ وہ اپنے لمبے ہاتھ دوسروں کی جیب میں
ڈالتا ہے اور لمبی زبان سے دوسرے ممالک میں مداخلت کرتا ہے۔ پاکستان کے
موجودہ حالات کا ذمہ دار امریکا کو ٹھہراتے ہوئے احمدی نژاد وہ کچھ کہہ گئے
جو ہمارے حکمران کہنے سے کتراتے ہیں ،جبکہ پریس کانفرنس کے اختتام پر
سکیورٹی حکام کے بار بار روکنے کے باوجود وہ پاکستانی صحافیوں میں گل مل
گئے اور اُن کے ساتھ تصاویر بھی بنائیں۔ محمود احمدی نژاد کی سادگی اور
دلیری کی مثالیں پوری دنیا دیتی ہے۔ وہ امریکا اور اسرائیل پر تنقید کے
باعث مغرب میں جتنے غیر مقبول ہیں اتنے ہی اپنے عوام کے دل میں ہردلعزیز
شخصیت ہیں، کیونکہ ان کا انتخاب ہی امریکا دشمنی کی وجہ سے کیا گیا۔ احمدی
نژاد کے صدر بننے کے بعد ایران کو اقتصادی پابندیوں اور ایٹمی پروگرام پر
عالمی دباﺅ کا سامنا کرنا پڑا لیکن انہوں نے ڈٹ کر حالات کا مقابلہ کیا۔
لوہار کے گھر میں پیدا ہونے و الا محمود احمدی نژاد وہ واحد لیڈر ہے جو ہر
فورم پر امریکا اور اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے۔ رواں
سال ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں انہوں نے اس عالمی
ادارے کو بھی نہ بخشا اور یہ تک کہہ ڈالا کہ اقوام متحدہ جو عدل کے قیام
اور تمام اقوام کو حقوق دینے کیلئے بنی تھی عملی طور پر امتیازی رویوں کا
سبب بنی ہوئی ہے اور اسی ادارے نے پوری دنیا پر ایک مٹھی بھر ممالک کے ظلم
و جبر کا راستہ ہموار کیا ہوا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اقوام متحدہ کی
جنرل اسمبلی سے خطاب کیلئے احمدی نژاد جب امریکا گئے تو کئی دن تک صرف ایک
ہی سوٹ استعمال کیا۔ ہوٹل کا کھانا کھانے کے بجائے اپنے ہوٹل میں خود ہی
کھانا پکایا اور سستے ترین اسٹور سے صرف چالیس ڈالر کی خریداری کی جن میں
بچوں کے جوتے، وٹامن کی درجنوں بوتلیں اور گھر کا دوسرا سامان شامل تھا۔
اسٹور کے مالک نے مطلوبہ اشیاءبطور تحفہ دینے کی خواہش کا اظہار کیا مگر
انہوں نے اپنی جیب سے ان اشیاءکی کل مالیت چالیس ڈالر ادا کئے۔ مغربی میڈیا
نے محمود احمدی نژاد کی چالیس ڈالر کی شاپنگ کو نمایاں کوریج بھی دی۔
نہ صرف یہ کہ ایرانی صدر محمود احمدی نژاد ایک دلیر لیڈر ہیں بلکہ وہ
ایرانی ثقافت کی چلتی پھرتی تصویر بھی نظر آتے ہیں۔ وہ جہاں بھی گئے وہاں
ایسی بہت سی مثالیں چھوڑیں کہ جن میں حکمرانوں کیلئے سبق پوشیدہ ہوتا ہے۔
چین کے رہنماﺅں کی طرح احمدی نژاد بھی اپنے ملک کی قومی زبان فارسی میں بات
کرتے ہیں۔ جب وہ تہران کے میئر تھے تو انہوں نے شہر میں مغربی طرز کے فاسٹ
فوڈ ریستوران ختم کر دیئے اور بلدیہ کے مرد ملازمین کیلئے لمبے بازوﺅں والی
قمیصیں پہننے اور داڑھیاں رکھنے کے احکامات جاری کئے۔ اس دوران احمدی نژاد
نے ایک اشتہاری مہم پر بھی پابندی لگا دی جس میں فٹ بال کے برطانوی کھلاڑی
کو دکھایا گیا تھا، کیونکہ 1980ءکے انقلاب کے بعد ایران میں کسی بھی
اشتہاری مہم میں مغرب سے تعلق رکھنے والوں کو دکھانا ممنوع ہے۔ وہ
دارالحکومت کے میئر ہونے کے باوجود ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتے رہے اور
میئر کی سرکاری رہائش گاہ استعمال نہیں کی اور نہ ہی سرکاری گاڑی استعمال
کی جبکہ صدر مملکت بنتے ہی انہوں نے قومی خزانے کے ضیاع کو بچانے کیلئے
سادگی کی عظیم مثال قائم کر دی۔
صدر مملکت کی حیثیت سے وہ اپنی تنخواہ نہیں لیتے اور نہ ہی ایوانِ صدر کے
کچن میں مرغن کھانے کھاتے ہیں بلکہ ہر وقت ایک بیگ اپنے ساتھ رکھتے ہیں جس
میں اہلیہ کے ہاتھ سے تیار کردہ سادہ سے سینڈوچ ہوتے ہیں جو بڑے شوق سے
کھاتے ہیں۔ یہ وہ احمدی نژاد ہے کہ جس نے صدارتی محل میں داخل ہوتے ہی وہاں
کے تمام قیمتی قالین تہران کی ایک بہت بڑی مسجد کو تحفتاً دے دیئے اور
صدارتی محل میں نسبتاً کم قیمت کے قالین بچھوا دیئے گئے۔ انہوں نے صدر بننے
کے بعد اپنے لئے مختص صدارتی ایئر کرافٹ کو ایک عام بوئنگ جہاز میں تبدیل
کر دیا اور خود اکانومی کلاس میں سفر کرتے ہیں۔ جب کبھی دوروں کے دوران
انہیں ہوٹل میں ٹھہرنا پڑے تو وہ اس بات کی تسلی کرتے ہیں کہ انہیں چھوٹے
بیڈ والا نارمل سا کمرہ دیا جائے کیونکہ وہ بیڈ کے بجائے زمین پر سونے کو
ترجیح دیتے ہیں۔ انہوں نے ایوانِ صدر میں صدر کیلئے مختص پرتعیش کمرے اور
دیگر اعلیٰ حکام کیلئے پرتعیش استقبالیہ لاﺅنج کو بھی ختم کر دیا۔ صدارتی
محل کے پروٹوکول میں کمی اور پرسنل سیکرٹری کے عہدے بھی ختم کر دیئے تاکہ
وزراءکسی مشکل کے بغیر ان سے مل سکیں۔
ایرانی صدر محمود احمدی نژاد سادگی کی ایک اعلیٰ مثال ہیں اور اُن سے
بغلگیر ہونے والے پاکستانی رہنماﺅں کو بھی اُن سے سیکھنے کیلئے بہت کچھ
حاصل ہو سکتا ہے۔ بحیثیت حکمران وہ سمجھتے ہیں کہ کس طرح قومی خزانے کے
ضیاع سے بچا جائے۔ ایران کے سارے حکمران ہی سادہ زندگی گزارتے ہیں مگر
احمدی نژاد نے تو انتہا ہی کر دی ہے۔ احمدی نژاد میں نہ مردانہ حسن نہ
مردانہ وجاہت ہے لیکن اس کی خود اعتمادی اور وقار قابلِ دید ہے۔ اس کے
برعکس ہمارے قومی رہنماﺅں کی حالت ایسی ہے کہ جس کو ہم قابلِ رحم ہی کہہ
سکتے ہیں۔ ایران بحیثیت قوم خوشحال ہے مگر اس کے حکمران غریب ہیں جبکہ
اِدھر ہمارے حکمران شہنشاہ اور رعایا غریب و نادار ہے۔ آخر محمود احمدی
نژاد بھی تو ایک ریاست کا حکمران ہے کہ جس کا طرزِ زندگی ایک عام ایرانی سے
بڑھ کر نہیں ہے۔ عزت اس میں نہیں کہ تم لاکھوں روپے کے سوٹ پہنو، اربوں
کھربوں کے محلات میں رہو، سینکڑوں سپاہی پہرے پر کھڑے کرو یا پھر پوری
کابینہ لے کر خصوصی جہاز میں سرکاری خرچے پر عیاشیاں کرو بلکہ اگر عوام کے
دل میں عزت بنانی ہے تو پھر حکمرانوں کو احمدی نژاد بننا پڑیگا۔ |