سپریم کونسل کی ڈیمانڈ پر چند
تجاویز
١۔ انجمن کی رکنیت عام کردی جائے اور اس پر عائد پابندی ختم کردی جائے ۔جو
بھی انجمن کے آئین سے وفاداری کا حلف اٹھائے اسے انجمن کا ممبر بنایا جائے۔
٢۔ صدر کے لئے تعلیمی قابلیت کم از کم گریجویشن ہو اور عمر کی حد زیادہ سے
زیادہ چالیس کردی جائے۔
٣۔ امام بارگاہوں اور مساجد کو فلاحی مقاصد کے لئے کھول دیا جائے۔جیسے
تعلیم و ہنر، ڈسپنسری، انڈسٹریل ہوم، ٹریننگ سینٹرز اور کوچنگ سینٹرز اور
چھوٹے بچوں کے لئے کاظمیہ پپلک سکولزکا قیام عمل میں لایا جائے۔
٤۔ مجالس عزا کو بھرپور منظّم کیا جائے اسکے تحت مجالس اور جلوسوں کو
بہترین تعلیم تربیت کا ذریعہ بنایا جائے نہ کہ سارا زور چندہ بٹورنے اور
دیگوں میں اڑانے کا منصوبہ ہو۔
٥۔ خواتین ہماری سوسائیٹی کا انتہائی اہم حصّہ اور رکن ہے انہیں سماج سے
کاٹ کر الگ تھلگ رکھنا اپنی نسلوں کے ساتھ ایک طرح کا ظلم عظیم ہے۔ وہ قوم
کبھی ترقی نہیں کرسکتی جو اپنے خواتین کو ایک عضوِ معطّل سمجھے اور انہیں
ووٹ کا بنیادی حق بھی نہ دے۔ لھٰذا آئندہ الیکشن میں خواتین کو بھی ووٹ کا
حق دیا جائے۔ اور سپریم کونسل میں بھی ان کوممبرشپ دی جائے۔
٦۔ انجمن کے صدر کے پاس ایک سے زیادہ عہدہ ہونے سے گو کوئی فرق نہیں پڑتا
البتہ انجمن کے تمام حقوق و فرائض پر کوئی زد نہیں پڑنا چاہیے۔ اگر صدر کے
کسی عمل سے ایسا کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہواور صدرکسی ایسے کام میں
ملوث ہو جس سے انجمن کی کارکردگی پر کوئی حرف آتا ہو یا مالی بدعنوانی میں
شریک ہو تو صدر کو فوری طور پر معطّل کرنے کا اختیار آئین کے تحت مجلس
عاملہ اور جنرل باڈی کو حاصل ہے۔جس کے لئے طریقہ کار انجمن کے آئین میں
موجود ہے۔
٧۔ اصلاح کی ضرورت ہر آن ہر ایک کے لئے موجود رہتی ہے بشرطیکہ کوئی اس کام
کے لئے مخلص ہو۔ ہمیں یہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم نے اپنے اماموں
کوراضی کیا؟ کیا ہمارے رویّوں میں حسینی قربانی کی کوئی جھلک موجود ہے؟ کیا
ہم نے وہ تقاضے پورے کئے جو امام ہم سے چاہتاہے؟ کیا ہم نے کبھی یہ جاننے
کی کوشش یا فکر کی کہ امام ہم سے کیا چاہتا ہے؟ ان سوالوں کا جواب خود
ہمارے اندر موجود ہے اور ہنوز! ہم خود اِن سوالیہ نشانات کے دائرے میں آتا
ہے۔۔ لھٰذا ہمیں چاہیے کہ ان تمام معاملات پرٹھنڈے دل سے غوروفکر کریں نہ
کہ ضدّباذی کا مظاہرہ کرے۔ اور تمام معاملات کو مقصد حسینی اور سیرت حسینی
کےمِشن سے ہم آہنگ کرے۔ عزائے حسینی کا اصل مقصد و مفہوم ہی انسانوں کی
فلاح وبہبود اورتعلیم و تربیت ہے۔ مگر افسوس !! آج معاملہ بالکل اُلٹ ہے۔
بدقسمتی سے ایسے لوگ عزائےحسینی کے مورچوں پر قابض ہوچکے ہیں جن کے کردار و
عمل اور عزائم کی وجہ سے پوری قوم جہالت اور غربت کے اندھیروں میں بھٹک رہی
ہے۔ اور ایسے لوگ خود کو درست کرنے اور اپنی اصلاح کرنے کے بجائے اپنی اپنی
دکانیں چمکانے کے لئے قوم سے عزائے حسینی کی اصلاح کے لئے تجاویزکے
طلبگارہیں!! اور اگر کوئی ان کے آگے سچ بولنے کی جسارت کرے تو الٹا اُنہی
کونشانہ بنایا جاتا ہے۔
٨۔ ہم سیاسی طور پر انتہائی لاوارث لوگ ہیں۔ ہمیں اپنے سیاسی حقوق کے حصول
کے لئے کافی جدّوجہد کرنی ہوگی۔ اس مقصد کے لئے ہمیں فی الحال دوسری قوموں
سے اتّحاد و تعاون کی ضرورت ہے۔ لیکن اس سے قبل ہمیں خود کو متحد کرکے
دکھانے کی ضرورت ہے کیونکہ ابھی تک ہماری صفیں اس معاملہ میں بالکل ویراں
اور کج ہے۔ ہم اتحاد و اتفاق کے بنیادی اصولوں سے اک دم نابلد ہے۔ جسکا
خمیازہ ہم بھگت بھی رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی ہمیں اس بات کا احساس بالکل نہیں
ہوتا! جتنا اتحاد و اتفاق جانوروں میں ہوتا ہے شاید
ہمارے اندر اتنے ٪ بھی موجود نہیں۔ ہم ابھی تک صرف اور صرف ایک ہجوم ہے قوم
نہیں بن سکی۔ اور اگر یہی حال رہے تو آگے بھی کوئی چانس نظر نہیں آتا۔۔
ہمیں غور کرنے کی عادت نہیں ہے اگر غور کرتے تو یہ حالت نہ ہوتے
پُورِک جاگو جگاؤ تحریک پاکستان |