ایوان ریڈلی ( تفشیش مراحل میں)11

 ڈائریکٹر انٹیلی جنس اندر آگیا ۔وہ ایک متین و برباد اور نفیس طبع شخص تھا۔ اس کا چہرہ اس کے دل میں کسی قسم کے ہیجانات کے راز افشا نہیں کر رہا تھا اوراُس کی آنکھوں سے بے اعتنائی اور بے رغبتی جھلک رہی تھی۔ اسے دیکھ کر میرے خیالات کی دنیا درہم برہم ہو گئی۔

وہ بے حد پراسرار شخصیت کا مالک تھا۔ اس نے مجھے کہا کہ میں اپنے کچھ ذاتی کوائف لکھوں ۔جواب میں،میں نے بتایا کہ میں ایک برطانوی صحافی ہوں۔ وہ میرے اِس انکشاف سے ذرہ برابر بھی متاثر نہ ہوا۔ میں سوچنے لگی کہ اگر میں یہ کہتی کہ مجھے ملکۂ برطانیہ نے پیغام رساں کے طور پر بھیجا ہے،توپھربھی اس کے چہرے کے تاثرات یہی رہتے۔

ڈائریکٹر انٹیلی جنس نے مجھے حکم دیا کہ میں اپناتفصیلی تعارف اورحالات لکھ کردوں اورپھروہ اُٹھ کرمیرے پاس سے چلاگیا۔اُس کے جانے کے بعد مجھے بے پناہ خوشی کا احساس ہوا۔ یہ خوشی اس بات کی تھی کہ میں لکھنے کیلئے اس کا ذاتی قلم حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ اب مجھے صرف کاغذ کی ضرورت تھی تا کہ میں بطور صحافی اپنا کام پھر سے شروع کر سکوں۔

آج جمعہ کادن اور 28ستمبر تھا۔ اور اس کی سہ پہر کا وقت، میری زندگی کا ایک یادگار دن اور ناقابلِ فراموش لمحات تھے۔ میرا خیال ہے کہ میراخاندان ، میرے دوست اور میرے رفقائے کار بھی اسے نہیں بھلا سکیں گے۔

اس کمرے میں ائیر کنڈیشننگ یونٹ لگا ہوا تھا اور میں کسی ایسی چیز کی تلاش میں تھی جس پر اس افسر کے حکم کے مطابق اپنے ذاتی کوائف لکھتی، بہت سی چیزیں اوپر نیچے کیں، بالآخر مجھے ایک ’’کافی ٹیبل بُک‘‘ مل گئی، جو کسی کو بطور الوداعی تحفہ دی گئی تھی، کیونکہ اس کے اندر کی جانب بے شمارخیر خواہوں کے دستخط تھے۔ مجھے اندازہ ہوا کہ یہ کتاب کسی برطانوی یا امریکی کو دی گئی تھی۔کتاب کانام "Caruand to Tatary" تھا۔ یہ ایک فرانیسی جوڑے رولیند ار سبریا کی مشترکہ کاوش تھی۔یہ کتاب پہلی بار 1978ئ میں شائع ہوئی تھی۔ یہ دراصل خود اس ’’مشاد‘‘ خاندان کی سرگزشت تھی۔ جس نے افغانستان کا سفر کیا تھا۔ اس میں افغانوں کی زندگی کے بارے میں حیرت انگیز تصویریں اور دستی کیمرے سے بلا اہتمام کھینی ہوئی فوٹوز تھیں۔ میں حیران تھی کہ کتاب کا مالک کون ہے اور یہ یہاں کیوں چھوڑ دی گئی ہے۔
وجہ خواہ کچھ بھی ہو، میں خوش اس بات پر تھی کہ اس نے مجھے کچھ دیر کیلئے مصروف رکھا ہے۔اگر میں اپنے آپ کو مصروف نہ رکھتی تو میرا ذہن طالبان کی سزائوں بشمول سنگسار کرنے اور سرقلم کر دینے کے بارے میں سوچتا رہتا۔

اسی اثنائ میں مجھے کچھ بساند سی محسوس ہوئی ، میں حیران تھی کہ یہ بدبو کہاں سے آرہی ہے؟ بعد میں احساس ہوا کہ یہ بد بو تو خود میرے جسم سے آرہی ہے ۔ دو دن سے میں نہائی نہیں ۔ پسینہ آتا رہا اور اس کے ساتھ بدبو بڑھتی رہی .اور میرے بال بھی کھوپڑی کے ساتھ چپکے ہوئے ہیں۔

کچھ دیربعدجیلر، جس کا نام عبداﷲ منیر تھا ، کچھ کھانے کی چیزیں لے کر آیا، مگر میں نے کھانے سے انکار کر دیا۔حالانکہ میں نے تقریباً دو دن سے کچھ نہ کھایا تھااور میرے ذہن میں غصے، اشتعال اور خوف کے بعد آخری چیز جو ہو سکتی تھی وہ کھانا تھا۔ عبداﷲ انگریزی بالکل نہیں جانتا تھا۔میں نے اپنے ہاتھوں کے اشاروں سے اسے واضح طور پر بتا دیا کہ میں جب تک فون پر اپنی والدہ سے بات نہیں کرلوں گی، کھانا نہیں کھائوں گی۔

ڈائریکٹر انٹیلی جنس کچھ کچھ انگریزی جانتا تھا۔ اس کو پتہ چلا تو اس نے اندر آکر پوچھا کہ میں کیوں نہیں کھا رہی؟. اتنے میں تین اور طالبان مع ایک نوجوان ترجمان ’’حامد‘‘ بھی آپہنچے۔

میں نے ہاتھ باندھتے ہوئے کہا:
’’جب تک مجھے میری امی سے بات نہیں کرنے دی جائے گی، میں کیسے کھا سکتی ہوں؟ اور دوسری بات یہ کہ میں بطور قیدی آپ کا کھانا نہیں کھا سکتی، صرف بطور مہمان کھائوں گی۔‘‘
وہ میرا بیان سن کر شش و پنج میں پڑ گئے اور میں نے دل ہی دل میں سوچنے لگی:
’’ اری رڈلی! تمہارے اندر یہ حوصلہ کہاں سے آگیا ہے ؟‘‘

وہ بھی یہی سوچتے ہوں گے۔ پھر وہ سوچتے سوچتے باہر نکل گئے ۔ نہ کھانا چھوڑ کر گئے اور نہ فون کرانے کا وعدہ کیا۔ ان کے جانے کے بعدمیں نے کھڑکی سے باہر جھانکا، جو مچھر دانی کی سی جالی سے ڈھکی ہوئی تھی اور اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہو گئی۔

اس کے بعد کوئی ملاقاتی نہیں آیا۔ میں نے سوچتے سوچتے سونے کی کوشش کی اور بالآخر نیند کی آغوش میں چلی گئی۔

اگلی صبح ترجمان حامد ناشتے سے پہلے مجھ سے ملنے آیا اور کہا:
’’ہمیں اس بات پر بہت تشویش ہے کہ آپ کو رات ٹھیک سے نیند نہیں آئی۔‘‘

میں نے جواب دیا:
’’ میں تو خوب اچھی طرح سوئی رہی ہوں۔‘‘
حامد نے پھر کہنے کی کوشش کی:
’’ہمیں پریشانی ہے کہ آپ کو ٹھیک نیند نہیں آئی اور یہ کہ شاید آپ بہت پریشان ہیں۔‘‘
میں نے جواب دیا:
’’نہیں! مجھے رات کو کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ ممکن ہے میں نے کوئی بُرا خواب دیکھا ہو۔ اگرایسا تھا تو وہ گزر گیا ہے اور میں نے اسے بھلا دیا ہے۔‘‘

تھوڑی دیربعد جیلر عبداﷲ کمرے میں آیا اور اس نے دروازے کے اندر کی جانب لگے ہوئے تالے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے مجھے اشاروں سے سمجھایا کہ میں رات کو یہ تالہ لگا لیا کروں تاکہ کوئی اندر نہ آسکے۔
حامد نے، جس نے انگریزی بولنا پاکستان میں سیکھی تھی، ایک بار پھر مجھے بتایا کہ میرے کھانا نہ کھانے سے یہاں شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔ اتنے میں ڈائریکٹرآپہنچا۔ اس کے آنے پر اگرچہ میں نے واضح طور پر یہ محسوس کیا کہ اسے حامد کی ترجمانی کی چنداں ضرورت نہیں ہے، اس کے باوجود اس نے اسی کے ذریعے مجھے بتایا کہ وہ ٹیلی فون کی سہولت دینے سے معذور ہے کیونکہ مواصلاتی نظام میں شدید خرابیاں ہیں اور کالیں سیٹلائٹ ٹیلیفون کے بغیر نہیں ملائی جا سکتیں۔

اگر انہوں نے مجھے ٹیلی فون تک رسائی کرا دی ہوتی تو میں نے اپنے اخبار کو ان خوبصورت لوگوں کے بارے میں ، جنہوں نے میرا اپنے گائوں ’’کاما‘‘ میں پُر جوش خیرمقدم کیا ایک اچھا فیچر مہیا کر دیتی اور جلال آباد مارکیٹ کے گرد و پیش کی زندگی کی تفصیلات بھی بتا دیتی۔

مجھے لگتا تو نہیں تھا کہ ان تک یہ اطلاع کسی نہ کسی طریقے سے پہنچ گئی ہوگی کہ میں طالبان کے ہاتھ لگ گئی ہوں۔

طالبان انٹیلی جنس کے دو اورافراد میرے انٹرویو کے لئے آئے۔ میں نے ایک بار پھر ان سے معذرت کی کہ میری گرفتاری کی وجہ سے آپ کیلئے کئی مسائل پیدا ہو چکے ہیں۔ معلوم ہوتا تھا کہ انہوں نے میرے اس احساس کی قدر کی ہے۔انہیں جو بات سمجھ نہیں آ رہی تھی، یہ تھی کہ کسی کو خواہ وہ صحافی ہی سہی، ان کے ملک میں آنے کی کیا ضرورت آپڑی ہے ؟. جبکہ بہت سے لوگ یہاں سے باہر جانے کی کوشش میں ہیں۔
میں نے حامد کے ذریعے انہیں اپنے کام کی نوعیت سمجھانے کی کوشش کی اور انہیں بتایا کہ دنیا کے مختلف ملکوں کے اخبارات ، ٹی وی اور ریڈیو کے تقریباً تین ہزار صحافی پاکستان میں بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ سرحدکے اس پار کیا ہو رہا ہے؟

صحافی اور میڈیا مین کے الفاظ جو میں بار بار کہہ رہی تھی میرا خیال ہے کہ وہ واضح طور پر انہیں نہیں سمجھ رہے تھے۔ میں نے ایک بار پھر ان سے ٹیلیفون کے استعمال کی اجازت مانگی۔ انہوں نے انکار میں سر ہلا دیا۔اس پر میں پھٹ پڑی۔میں نے کہا:
’’اگر آپ نے مجھے میری والدہ کو ٹیلیفون نہ کرنے دیا تو وہ بہت پریشان ہوں گی۔ میں یہاں ایک خوبصورت ائیر کنڈیشنڈ کمرے میں نہایت نفیس لوگوں کے پاس بیٹھی ہوں ، اس میں فلش سسٹم اور شاور کی سہولتیں ہیں اور میں اُنہیں یہ بھی بتانا چاہتی ہوں کہ آپ میری اچھی طرح دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ وہ بے چاری جانتی تک نہیں کہ میں یہاں ہوں۔ میں انہیں صرف یہ بتائوں گی کہ میرا ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے جسے میں اپنے طور پر حل کرنے کی کوشش کر رہی ہوں، اور وہ میری یہ توجیہ یقیناً قبول کر لیں گی.ورنہ. میرا اخبار آپ کے بارے میں بڑی بڑی سرخیوں سے خبریں چھاپے گا۔ کیا آپ کو پتہ ہے کہ مغرب کے لوگ آپکے کے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہیں؟‘‘

اُنہوں نے میری بات نہایت سنجیدگی سے سنی۔ حامد میرے الفاظ کا ترجمہ کر ہی رہا تھا کہ میں نے اس میں اس جملے کا اضافہ کرا دیا:
’’میری ماں سمجھے گی کہ طالبان نے مجھے ٹخنوں سے باندھ کر چھت کے ساتھ برہنہ کرکے لٹکایا ہوا ہوگا اور مجھے کوڑے مارے جا رہے ہونگے۔‘‘

یہ سُن کر حامد کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ اس نے اس جُملے کا تیزی سے ترجمہ کیا ۔ سننے والوں کے اَبروتن گئے۔ انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھااور فوراً چل دئیے۔
’’اچھا.!‘‘

یہ کہہ کر میں سوچ میں پڑ گئی۔ میں انہیں کتنا غلط سمجھی تھی.!
میں اپنی بھوک ہڑتال پر اگرچہ سختی سے قائم تھی ۔ پھر بھی میرے پاس کھانا آگیا۔ اس رات حامد اور عبداﷲ میرے کھانے سمیت آئے تھے اور میرے عین سامنے کھانا شروع کر دیا۔ یہ ترغیب دینے کا ایک نفیساتی حربہ تھا۔ میں نے ان کے لائے ہوئے سگریٹ پھونکنا شروع کر دئیے اور ساتھ ساتھ سبز چائے بھی پی جا رہی تھی، جو بہت فرحت بخش تھی۔

اچانک ایک دھماکہ ہوا، جس سے درودیوار لرز گئے۔ میں اگرچہ آلتی پالتی مارے بیٹھی تھی، مگرمیرا خیال ہے کہ پھر بھی میں تقریباً تین فٹ اُچھلی ہونگی۔ حامد زیرِ لب مسکرایا اور عبداﷲ بمشکل اپنا قہقہہ روک سکا۔ یہ تقریبا پانچ بجے کا وقت تھا۔ حامد نے اپنی گن اُٹھائی ’’امریکہ، امریکہ‘‘ کا نعرہ لگانے کے بعد ہوائی فائر کیا اور فوراً نکل گیا۔ میں نے بھی خود کو تیار کر لیا ، کہ شاید یہ امریکہ کی جوابی کارروائیوں کا حرفِ آغاز ہو۔

پندرہ بیس منٹ بعد عبداﷲ واپس آگیا اور کچھ افسردہ دکھائی دینے لگا۔ اس نے حامد کو بتایا کہ دھماکہ کسی شخص کا پائوں سرنگ پر آجانے سے ہوا ہے۔ میں نے پوچھا :
’’تو پھر اس بدقسمت کا کیا بنا؟‘‘

اس پر عبداﷲ نے پریشان ہو کر میری طرف دیکھا اور کندھے اُچکا دئیے۔
دو گھنٹے بعد مجھے ریپڈ مشین گن فائرنگ کی آواز آئی، لیکن محسوس ہوا کہ یہ سب کچھ ایک سمت میں ہوا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ کسی تربیتی کیمپ کے قریب ہونے کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہو۔

میںنے اس رات کچھ آرام کرنے کی کوشش کی اور دروازے کو اندر سے مقفل کر دیا تھا۔ میں اب بھی سمجھ نہیں پائی تھی کہ جہاں مجھے ٹھہرایا گیا ہے یہ جگہ کیسی ہے؟ کبھی تو یہ دکھائی دیتا تھا کہ اس کے ساتھ کسی قسم کا ہسپتال واقع ہے، کیونکہ میں نے چند زخمیوں کو ادھر سے گزرتے ہوئے دیکھا تھا۔مگر اس خیال میں ایک اُلجھن پیدا ہو رہی تھی کہ فوجیوں کی آمد و رفت بھی تھی اور انٹیلی جنس کے عملہ کے لوگ بھی موجود رہتے تھے۔

اتوار 30ستمبر کی صبح ساڑھے نوبجے دو افغان میرے کمرے میں لائے گئے اور مجھے بتایا گیا کہ یہ کابل سے آنے والے دو صحافی ہیں۔مجھے اس پر بڑی حیرت ہوئی، کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ سارے مغربی میڈیا کو باہر دھکیل دیا گیا ہے۔ تاہم میں نے ان کا خیر مقدم کیا اور نہیں بے حد اشتیاق سے اپنے پاس بیٹھنے کی دعوت دی۔

یہ میرے لئے ایک ولولہ انگیز بات تھی کیونکہ میرا خیال ہے کہ صحافی خواہ دنیا کے کسی بھی حصے میں کام کر رہے ہوں، ان کے مابین ایک خصوصی تعلق ضرور ہوتا ہے۔ مجھے اُمید لگی کہ شاید یہ میرے لیے کوئی پیغامات چھپا کر لانے پر رضامند ہو گئے ہوں اور اب انہیں مجھے تک پہنچانے کے لئے انہوں نے یہ ترکیب نکالی ہو۔

حامد نے مجھے کہا کہ میں اپنے سٹوری سنائوں اور وہ اِس کا ترجمہ کرتا چلا جائے گا۔

میرے کہانی شروع کرنے کے تین یا چار منٹ ہو ئے ہوں گے۔اچانک میں نے دیکھا کہ وہ دونوں صحافی کچھ نہیں لکھ رہے اور نہ ہی ان کا کوئی ٹیپ ریکارڈر چل رہا ہے۔اب مجھے فورا شبہ پڑ گیا۔ مجھے وہ دونوں مخبر لگے، جو مجھ پر چھوڑ دئیے گئے ہیں۔ میں نے الزام لگایاکہ آپ لوگ کوئی جعلساز ہیں یا اس سے بھی بدتر صحافی ہیں کہ انہیں صرف وہی کچھ لکھنے کیلئے ’’بھرتی‘‘ کیا گیا ہے، جوسرکار اُن سے لکھوانا چاہتی ہے۔

مجھے یاد ہے کہ اُس وقت مجھے کتنا غصہ آیا تھا اور مجھ میں اتنی خود اعتمادی پیدا ہو چکی تھی کہ میں نے اُن سے کہہ دیا کہ تم نے میری میزبانی کا ناجائز فائدہ اُٹھایا ہے۔ پھر میں نے انہیں کمرے سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔

حامد نے کہا کہ یہ لوگ بہت اہم ہیں۔ مجھے ان کے ساتھ احترام کا سلوک کرنا چاہئے۔ لیکن میں اُٹھ کر کھڑی ہو گئی، اپنے بازو باندھ لیے اور کھڑکی میں سے باہر خوبصورت باغیچے کو دیکھنے لگی۔ حامد اُن سے اِس دوران کیا کہتا رہا؟ کیا میری کہی ہوئی باتوں کا ترجمہ کرتا رہا یا معذورت کرتا رہا؟ .میں نہ سمجھ سکی۔ البتہ میں نے یہ محسوس کر لیا کہ اگروہ میری ترجمانی کرتا رہاہے، تب بھی وہ بڑی تکلیف دہ حالت میں تھا۔

اسی روز دوپہر کو پھر میرے لیے کھانا لایا گیا، مگر میں نے پھر نہیں کھایا۔تین افراد میری تفتیش کرنے کے لئے آئے۔ ان میں سے ایک کا تعارف انٹیلی جنس کے نگران اعلیٰ کے طورپر کرایا گیا۔ یہ بہت بارُ عب شخصیت کامالک تھا۔ گھنی سیاہ داڑھی اور گلابی رُخسار تھے۔اس کی داڑھی میں ایک عجیب کشش تھی۔ اس کی آنکھوں کی پتلیاں کم و بیش کالی اور شارک مچھلی جیسی تھیں۔ مجھے احساس ہوا کہ اس سے مجھے بے حد محتاط رہنے کی ضرورت ہو گی۔ بہت خطرناک دکھائی دیتا تھا اور واقعتاً بھی ایسا تھا۔

ان نوواردوں نے حامد سے کہا کہ وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ میں اس ملک میں کیسے داخل ہوئی ؟.اور اس میں میری مدد کس نے کی ؟.اور یہ سوال بھی تھا کہ اپنے ہمراہ گرفتار ہونے والے دوسرے دو افراد کو میں کیسے جانتی ہوں۔ پھر پچھلے روز ہونے ولے واقعہ کے حوالے سے بھی سوالوں کا جواب مانگا گیا۔
میں نے اپنے ہمراہ گرفتار ہونے والوں کے بارے میں کہا کہ ان آدمیوں کا مجھ سے کوئی تعلق واسطہ نہیں۔اورپھر اُلٹا میں نے سوال داغ دیا کہ طالبان نے انہیں کیوں گرفتار کیا ہے؟

اس پر وہ بہت برہم ہوئے ،گویا کہ میں نے ان کی انٹیلی جنس کی توہین کر دی ہو۔

ایک جو گھنی داڑھی والا تھا وہ اپنے غصے کو روک نہ سکا، لگتا تھا کہ وہ ابھی کوئی خطرناک ہتھیار نکال کر مجھے دے مارے گا۔

پھر میں نے کہا کہ اچھے صحافی اپنے ضابطۂ اخلاق کی سختی سے پابندی کرتے ہیں۔ وہ اپنے رابطۂ کار یا ذرائع اطلاع کا کبھی نام نہیں بتاتے، خواہ کچھ بھی ہو جائے۔میں نے یہ دلیل بھی دی کہ کوئی اور سمجھے یا نہ سمجھے، آپ کو سمجھ جانا چاہئے کہ اپنے مہمان کی حفاظت کرنا ایک اخلاقی ذمہ داری ہوتی ہے. اور یہ آپ کی روایت بھی ہے۔

میرے اِس جملے سے اُسامہ بن لادن کی طرف اشارہ نکلتا تھا، جن کے بارے میں طالبان نے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ ان کی حیثیت ایک مہمان کی ہے اور مہمان کی حفاظت ان کی عزت و آبرو اور روایت کا مسئلہ ہے،مگر مغرب نے ان کے اس مؤقف کو نظر انداز کر دیا تھا۔

دوران گفتگو وہ میرے چہرے کی طرف نہیں دیکھتے تھے، بلکہ اِدھر اُدھر خالی نظریں ڈالتے رہتے یا چھت پر لگی کسی چیز کو دیکھتے رہتے تھے۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ افغان ثقافت میں یہ چیز عزت کی علامت ہے۔

آٹھ دن کے بعد ایک ڈاکٹر میرے چیک اپ کیلئے آیا۔میراذہن ان دنوں واقعی کچھ ’’زیادہ‘‘ کام کرنے لگا تھا ۔میں نے سمجھا کہ یہ لوگ اذیت دینے سے پہلے مجھے صحت کا تصدیق نامہ دیناچاہتے ہیں۔ بہرحال یہ چھوٹے سے قد اور سوکھے ہوئے چہرے والاشخص میرے کمرے میں آیا اوربہت اہتمام کے ساتھ میرا بلڈ پریشر چیک کیا ۔ اس پر میں نے کہا:

’’ٹھیک ہے. ٹھیک ہے. میں جانتی ہوں کہ مجھے ہائی بلڈ پریشر ہے۔‘‘

حامد نے اس کیلئے میری بات کا ترجمہ کیا۔حالانکہ میں سمجھتی تھی کہ ڈاکٹر خود ہی اچھی طرح سمجھ چکا ہے، مگر وہ ترجمہ کیے جا رہا تھا۔

ڈاکٹر نے چیک اپ مکمل کرتے ہوئے ٹوٹی پھوٹی انگلش میں کہا :

’’آپ کے بلڈ پریشر میں کوئی خرابی نہیں. یہ بالکل نارمل ہے۔‘‘

میں نے دو ٹوک لفظوں میں کہا کہ مجھے تو کئی سالوں سے ہائی بلڈ پریشر چلا آ رہا ہے۔

اس نے ایک بار پھر بلڈ پریشر چیک کیا اور مجھے دکھایا۔ میں حیران ہو گئی:

’’اوہ خدایا! یہ تو واقعی نارمل ہے۔ طالبان کے ساتھ تین ہی دن گزارنے سے میں بالکل ٹھیک ہو گئی ہوں۔‘‘
اس نے جواب دیا:

’’ واہ ! مجھے بہت خوشی ہوئی۔‘‘

پھر اس نے حامد کی طرف سے مداخلت ہونے پر اُسے پشتو میں کچھ کہااوراُس نے ترجمہ کرکے مجھے بتایا:
’’ڈاکٹر کہتا ہے کہ کچھ کھالو .ورنہ تم مر جاؤ گی۔‘‘
Zubair Tayyab
About the Author: Zubair Tayyab Read More Articles by Zubair Tayyab: 115 Articles with 154756 views I am Zubair...i am Student of Islamic Study.... View More