اسی لمحے مجھے اپنے بازو میں زور
کی چٹکی محسوس ہوئی ۔ یہ افغان گائیڈ نے کاٹی تھی۔ وہ اپنے ہاتھوں کو نفی
میں ہلا ہلا کر اپنے منہ کی طرف لے جا رہا تھا۔ میں اس کا پیغام فوراً سمجھ
گئی ۔وہ مجھے یہ یاددہانی کرارہاتھا کہ میں’’گونگی‘‘ہوں ،لہٰزامیں نے کسی
بھی صورت میں زبان نہیں کھولنی۔ اورپھریہ تو میں نے اس پرسفرکے آغازہی میں
واضح کر دیا تھا کہ گرفتار ہوجانے کی صورت میں ’’ہمیں آپس میں ضرورت پڑنے
کی حد تک‘‘ واقفیت رکھنی چاہئے اور ایک دوسرے کے نام جاننے کی ضرورت نہیں
پڑنی چاہئے۔ میں نے انہیں پاشا کی وساطت سے بتایا تھا کہ ’’میں تمہارے بارے
میں جتنی کم جانتی ہوں گی گرفتار کی صورت میں اتنا ہی بہتر ہوگا۔‘‘
اسی دوران ایک اور گن فائر ہوا، مشتعل ہجوم نے نوجوانوں میں مقبول ترین
نعرہ جو ہم نے پشاور کے مظاہروں کے دوران سنا تھا، الاپنا شروع کر دیا:
’’اُسامہ زندہ باد‘‘. ’’اُسامہ زندہ باد‘‘ .’’اُسامہ زندہ باد‘‘
کار رُکی اور جان کو اتار لیا گیا، میں نے سوچا اسے دوبارہ کبھی نہیں دیکھ
پائوں گی۔ ایک اور آدمی کار میں، میرے ساتھ آبیٹھا۔ میرے خیال میں وہ
طالبان سپاہی نہیں تھا، کیونکہ اس نے بھاری پگڑی نہیں پہن رکھی تھی۔
اب میری ایک طرف افغان رہبر تھا اور دوسری طرف یہ آدمی آ بیٹھا تھا۔رہبر
میری مسلسل چٹکیاں لے رہاتھا اور اپنی بات ذہن نشین کرانے کی کوشش کر رہا
تھا ۔کار ایک بار پھر رُکی اور جان ہماری گاڑی میں واپس آگیا۔ بظاہر وہ
ٹھیک ٹھاک لگ رہا تھا۔مجھے اسے اپنی معیت میں واپس پا کر خوشی
ہوئی۔پھراچانک ڈرائیور کو رُکنے کا حکم دے دیا گیا ۔
طالب نے مجھے کار سے باہر نکالا اور ایک اونچی جگہ پر مجھے کھڑی کر کے غائب
ہوگیا۔ چند منٹوں کے بعد میں ایک اور ہجوم کے نرغے میں تھی۔جہاں سب کے سب
شدید غصے کے عالم میں دکھائی دے رہے تھے۔ مجھے ان کے چہروں سے خوف آنے لگا
۔ وہ چیخ چلا رہے تھے اور کوئی ایسے نعرے لگا رہے تھے جو میری سمجھ سے باہر
تھے۔ میں خوف سے کانپنے لگی۔ میر منہ ایسے خشک ہو گیا، جیسے چٹائی ہوتی ہے۔
میں نے نیچے دیکھا تو پیروں کے ناخنوں پرلگی خون کی طرح سرخ نیل پالش میری
طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی۔ میرے بوٹ اور جرابیں غائب ہو چکی تھیں اور
مجھے یاد نہیں کہ ایسا کب اور کیوں ہوا؟.یہاں زمین ساخت پتھریلی تھی۔میں
ہرطرف کنکربکھرے دیکھے.اوراُسی لمحے میں نے مجمعے پر نگاہ ڈالی تو اپنے آپ
سے کہنے لگی:
’’ میرا آخری وقت آپہنچا ہے، اب مجھے پتھر مار مار کر موت کی نیند سلا دیا
جائے گا۔‘‘
میں نے دُعا کی:
’’ اے خدا! میں پہلے پتھر سے ہی بے ہوش ہو جائوں اور مجھے اتنی طاقت دے دے
کہ میں ان سے رحم کی بھیک نہ مانگوں۔‘‘
میں سوچ رہی تھی کہ پتہ نہیں میں کتنا درد برداشت کرسکوں گی۔ میں نے دعا کی
کہ خواہ کچھ بھی ہوجائے میری موت جلد واقع ہو ۔
پھر اس پر بھی غور کیا کہ میرے جسم کا کیا بنے گا؟
کیا اسے میرے گھر تک پہنچا دیا جائے گا؟
کیا میرے والدین کو اسے شناخت کرنے کیلئے کہا جائیگا؟
کیا ڈیزی کو بتایا جائے گاکہ میں کیسے مری؟
کیا سب کومیری موت کے بارے میں مطلع کر دیا جائے گا؟
ایسے کئی سوالات ایک ساتھ ہی میرے ذہن میںجنم لے رہے تھے۔
مجمع میرے مزید قریب آگیا۔ میں اپنی آنکھیں بند کر لینا چاہتی تھی۔ لیکن
فوراً خیال آیا کہ اگر آنکھیں کھلی رہیں تو ہو سکتا ہے کہ کوئی ان کے اندر
جھانک کر مجھ پر ترس کھالے اور پتھر مارنے والوں کو روکنے کی کوشش کرے۔ میں
نے زمین پر دیکھا تو وہاں اتنا گولہ بارود پڑا تھا جو ’’تحریکِ انتفاضہ‘‘ ﴿
اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی جدوجہد﴾ کے لئے دس سال تک کی ضرورت کے لئے
کافی ہوسکتاتھا۔
میں زمین کی جانب جھکنے لگی،کیونکہ ﴿عیسائی عقیدے کے مطابق﴾میں نے سُن
رکھاتھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی پھانسی لگنے سے پہلے خداکے سامنے
سجدہ کیاتھا۔
اسی لمحے مجھے گوشۂ چشم سے دکھائی دیا کہ وہی طالبان سپاہی ایک گزرتی ہوئی
کارکو جھنڈی دکھا کر روک رہا ہے۔ اس کار میں سوار برقع پوش عورت کو باہر
نکلنے کے لئے کہنے کے بعد اس نے میری طرف اشارہ کیا. اورپھروہ دونوں میری
جانب بڑھنے لگے۔
وہ عورت اچانک میری طرف مُڑی اور اس نے نہایت بھونڈے انداز میں میری تلاشی
لینا شروع کر دی۔ مجھے یہ صورتحال دیکھ کر اتنا سکون ملا کہ زندگی بھر ایسا
سکون نہ ملا تھا۔ سکون اس لئے ملا کہ انہوں نے مجھ پر جو شبہ کیا تھا، اس
کا انہیں کوئی ثبوت نہیں ملنا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ میرے پاس کوئی ہتھیار
ہیں یا کوئی خفیہ معلومات ہیں ۔ چند منٹ کے بعد میرا یہ سکون غصے میں تبدیل
ہو گیا۔
میں ایک دم ہجوم کی طرف مڑی اور سرکشی کے انداز میں اپنے کپڑے اوپر اُٹھا
دئیے۔ میری یہ حرکت اتنی اشتعال انگیز تھی کہ وہ میرے منہ پر طمانچہ جَڑ
دیتے تو بجا تھا۔لوگوں کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا، کچھ ایک طرف مڑ کر کھڑے
ہوگئے اور کچھ دوسری سمتوں میں دوڑنے لگے۔ یہ ایک حیائ سوز نظارہ تھا،
نتیجتاً برقعہ پوش عورت نے اپنے بازو اٹھائے اور مجھے دو تھپڑمار دئیے۔
معلوم نہیں اسے زیادہ غصہ آیا تھا یا میں زیادہ غصے میں تھی. یا وہ سرخ
بالوں والا سپاہی زیادہ غصے میں تھا؟
کچھ دیربعدسفر دوبارہ شروع ہوا۔ جب ہم جلال آباد پہنچے ۔یہاں پہنچ کرلوگوں
کے ہجوم میں، میں نے اپنی کھڑکی کا شیشہ نیچے کیااور پوچھا کہ کیا تم میں
سے کوئی ایک انگلش بول سکتا ہے؟
ان کا جواب نفی میں تھا.اورایک چھوٹا سا لڑکا جو میری ڈیزی کی عمر کا تھا،
وہ کھڑکی میں سے میری طرف دیکھتے دیکھتے اپنا منہ بگاڑنے لگا۔اس کے سر پر
گھونگھریالے بالوں کا گچھا تھا۔ آنکھیں بھوری اور جلد سبزی مائل تھی۔
دیکھنے میں واقعی خوبصورت تھا۔ میں اسے دیکھ کر مسکرائی۔ اس نے اپنا سر ایک
طرف کو کر کے، اپنی انگلی اپنی گردن پر پھیری اور مجھے ذبح کیے جانے کا
تاثر دیا۔
ایک چیک پوائنٹ سے گذرکرجب ہم اگلے چیک پوائنٹ پر رُکے تو ایک شخص نے مجھے
کچھ کاغذات اور قلم پیش کیا۔ میں نے اس پر جلدی جلدی ’’جم مرے‘‘ کے دفتر
کاٹیلیفون نمبر لکھا اور اس شخص سے درخواست کی کہ وہ اس نمبر پر فون کر دے۔
یہ شخص انگلش کا ایک لفظ تک نہ بول سکتا تھا۔ میر ا خیال ہے کہ وہ میرے
دستخط حاصل کرنا چاہتا تھا۔ یہ غالباً آخری بار تھی کہ میں نے کاغذ پر کچھ
لکھا تھا۔ابصدمے کا اثر تو کم ہونا شروع ہو چکا تھا مگر جو خوفناک واقعات
آئندہ پیش آنے والے تھے ان کا تصور کرکے پریشان ہو نے لگی۔ میری آنکھوں میں
اکثر آنسو تیرنے لگتے ۔
بالآخرکار رُک گئی اوراب ہم طالبان انٹیلی جنس ہیڈکوارٹر کے صدر دروازے سے
گزر کر اندر جا رہے تھے۔اندرپہنچ کر ہم تینوں اور اس چھوٹی لڑکی کو ایک
سادہ مگر صاف ائیر کنڈیشنڈ کمرے میں پہنچا دیا گیا، جس میں غسل خانے کی
سہولت موجود تھی اور دروازہ باہر سے مقفل کر دیا گیا ۔ میں نے جان کو اشارے
سے بتایا کہ اگر کمرے میں خفیہ آلات لگے ہوئے ہوں تو وہ بالکل نہ بولے ۔ یہ
افغان بھی آخر کار میرے اس پیغام کو سمجھ گیا۔ میں کوئی ایسی بات یا حرکت
کرنے والی نہیں تھی، جس سے انہیں نقصان پہنچ سکتا ہو۔
تقریباً آدھے گھنٹے کے بعدہمیں اس کمرے سے نکال کر ایک اور سنگل کمرے میں
پہنچا دیا گیا۔ جس میں اسپتال کی طرح کا بستر لگا ہوا تھا۔ میں نے جیلر کو
اشاروں کے ذریعے بتایاکہ مجھے کسی کمرے میں ایسے دو مردوں کے ساتھ بند نہیں
کیا جا سکتا، جنہیں میں پہلے سے نہ جانتی ہوں۔ ایسی صورتحال کی طالبان
حکومت میںویسے بھی اجازت نہیں ہے ۔ میں اُن کے اِس قانون سے فائدہ اُٹھانا
چاہتی تھی ۔چنانچہ میری استدعا منظور کر لی گئی اور مجھے دوبارہ پہلے والے
کمرے میں پہنچادیا گیا۔
یہاں کا جیلر انگریزی کا ایک لفظ تک ادا نہ کر سکتا تھا۔ اس نے مجھے اشاروں
سے بتایا کہ وہ دروازے کو بارہ سے تالالگادے گا اور اگر مجھے کسی چیز کی
ضرورت ہو تو مجھے دستک دینا ہوگی۔ بہت سے طالبان سپاہیوں کی طرح وہ بھی بہت
وجیہ شخص تھا۔ اس کے گھنے گھونگھریالے سیاہ بال، قبائلی طرز کی ٹوپی اور
کانسی رنگ کی بھاری پگڑی سے ڈھانپے ہوئے تھے۔
کمرے میں بندہوجانے کے بعدمیں ایک سرخ چٹائی پر بیٹھ کر ساری صورتحال اور
اپنے بچ جانے کے امکانات پر غور کرنے لگی۔ پھرمیں اس نتیجے پربہت جلدہی
پہنچ گئی کہ حالات کچھ اچھے نہیں ہونگے۔ اب میں یہ بھی سوچنے لگی تھی کہ اس
وقت لندن میںکتنے بجے ہوں گے؟ میرے دفتر میں کام زور و شور سے ہو رہا ہوگا
اور نیوز ڈیسک پر ’’جم‘‘ میری کال کا انتظار کر رہا ہوگا۔
مجھے کچھ بخار محسوس ہورہاتھا اور دل میں خوف پیدا ہو رہا تھا ۔ میں سوچ
رہی تھی کہ کیا دنیا کو کبھی پتہ چل سکے گا کہ مجھے طالبان نے قید کر لیا
ہے؟ میرے کیمرے کا کیا بنا ہوگا؟ اس میں ’’کاما‘‘ نامی گائوں میں کھینچی
ہوئی جو تصاویر تھیں، کیا ان کے ذریعہ گائوں کی شناخت ہو سکی ہوجائیگی
اوراگرایساہواتو پہچان لیے جانے والے افراد کا کیا حشر ہورہا گا؟ یہ سارے
اُلٹے سیدھے خیالات میرے لئے باعث تشویش تھے۔ مجھے یہ احسا س بھی ہوا کہ
میرے ہاتھ اب تک برقعے میں لپٹے ہوئے ہیں۔ عین اسی لمحے مجھے ایک آواز
سنائی دی اور میں بہت جلدہی ایسی آوازوں سے مانوس ہونے والی تھی:
یہ تالا کھڑکنے اور اس میں چابی پھرنے کی آواز تھی.! |