نیٹو اورروس کے درمیان معاہدہ
کرنے کی کوششوں کاایک ملا جلا نتیجہ دیکھنے میں آیا۔پوٹین کے دور میں نیٹو
کے مقاصد کو روسی شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔پرتگال میں نومبر2010کو ہونے
والے سربراہی اجلاس میں بھی اس خیال کا اظہار کیا گیاکہ نیٹو اور روس کے
تعلقا ت سیکیورٹی چیلنجز کے خلاف بنائے گئے تھے۔ان میں بہتری کی گنجائش اور
ضرورت ہے۔مبصرین کے مطابق ا س میں کافی پیش رفت ہے۔مگر روسی حکومت خاص طور
پر ان کے صدر نیٹو پالیسی پر سخت تنقیدی رویہ رکھتے ہیں۔مثال کے طور پر
2012میں شکاگو میں منعقد ہونے والے ایک سربراہی اجلاس میں روسی صدر نے شرکت
نہ کی۔نیٹو کے کئی ممبران بھی روسی تجزیات کی حمایت سے عاری نظر آتے
ہیں۔نیٹو اور روس کے درمیان ایک اہم ادارہ نیٹو رشین کونسل(NRC) ہے جوکہ
2012 میں تعلقات کی بہتری اور مشترکہ مفادات کی نشاندہی کے لیے قائم کیا
گیا۔جس کی اصل بنیاد یہ تھی کی دونوں اتحادی اس بات سے متفق تھے کی روس اور
نیٹو کو ایک جیسے عالمی چیلنجز کا سامنا ہے۔اور اسی پر اتفاق رائے سے حکمت
عملی تیار کرنے کے لیے اس فورم کی بنیاد رکھی گئی۔اس کے اہم مقاصد سیاسی
مذاکرات اور باہمی نقطہ نظر کی بنیاد پر مشترکہ آپریشن کرنا تھے۔کئی ماہرین
کے نزدیکNRCاپنے کئی مقاصد میں پیش رفت کے باوجود بھی خاطر خواہ کامیابی سے
محروم رہی ہے۔روس کے شکوک و شبہات کی فہرست میں نیٹو کے طویل مدتی منصوبے
بھی تھے۔روس میں بہت سے لوگ1999سے 2004تک سابق سوویت یونین کی 10ریاستوں
میں نیٹو کی توسیع کو ایک منفی سرگرمی کے طور دیکھتے ہیں۔روس کے اختلافات
میں ایک اہم وجہ امریکہ اور نیٹو کے فضائی اڈوں کا قیام تھا۔جوکہ وسطی
ایشیا ءمیں 2001ستمبر کے بعد افغانستان پر حملے کی غرض سے بنائے گئے۔روس کے
ارد گرد کے ممالک میں امریکہ اور نیٹو کی بڑھتی فوجی طاقت پر نہ صرف تشویش
کا اظہار کیا جارہا ہے بلکہ روسی رائے عامہ اس کی شدید مخالفت بھی کر رہی
ہے۔دونو ں فریقین میں کشیدگی اس وقت کھل کر سامنے آئی ۔جب 2004میں جارجیا
پر حملہ ہوا۔جس کے بعد دونوں اتحادیوں کے پاس NRCکے معاہدے سے انحراف کا
ایک جواز پیدا ہو گیاتھا۔پورپی تھینک ٹینک اس بات پر سوچنے میںلگے ہوئے
ہیںکہ روس کی ایک مضبوط اور جارحانہ خارجہ پالیسی کے خلاف یورپ میں کیسا رد
عمل ظاہر کرنا چاہیے؟جبکہ روس مکمل طور پر اپنی طاقت کو بڑھانے اور اس کو
سکا جمانے میں مصروف نطر آتا ہے۔
کچھ لوگوں کے نزدیک نیٹو نے روس کو اپنی مختلف ریاستوں میں مضبوط فوجی طاقت
کو مستقل کرنے کی کوشش سے روکنے کی ناکامی کے طور پر معاہدہ ختم کیا۔یہ
رجحان بھی دیکھنے میں آیا کہ نیٹوقیادت روس کی جانب سے اپنے اتحادیو ں پر
ہونے والے ممکنہ حملے کے خلاف کوئی بھی حکمت عملی بنانے میں ناکام رہی۔روسی
سربراہوں کے نزدیک زمینی میزائیل ڈیفنس سسٹم پر اختلافات روس کی خارجہ
پالیسی کو متاثر کرسکتے ہیں۔روس نے اس لیے بھی نیٹو پر تنقید جاری رکھی کہ
روس کی جانب سے ابخازیا کی آزادی کی حوصلہ افزائی کو نیٹو نے تسلیم کرنے سے
انکار کردیا۔اور نیٹو کی جانب سے ظاہر کردہ ہچکچاہٹ جو انہوں نے روس کی زیر
نگرانی بننے والی ایک مشرکہ سلامتی کونسل کے قیام پر دکھائی۔جس میں شامل
ممالک میں امریکہ ،کازکستان،کرگستان،تاجکستان اور ازبکستان وغیرہ شامل
ہیں۔روس نے اس بات سے خبر دار کیاتھا کہ اس کے مطالبات پورے نہ ہونے پر وہ
ایٹمی قوت میں جارہانہ طور پر اضافہ کرے گا۔مگر یورپ نے روس کی جانب سے
مغرب میں متبادل سلامتی کونسل کی تشکیل کی پیشکش کو نیٹو کو کمزور کرنے کی
سازش اور یورپی سیاست میں اپنا اثر رسوخ بنانے کی ایک کوشش قرار دیا۔نیٹو
سربراہان مشرکہ مفادات کے فروغ اور اتحادیوں کی جانب سے تعاون میں اضافہ
چاہتے ہیں۔2009میں NRC کے اجلاس دوبارہ شروع کرنے سے روس اور نیٹو نے باہمی
چیلنجز کا سامنا کرنے اور ان کے خلاف اتحاد برقرار رکھنے کے لیے ایک جائزہ
پیش کیا گیا اور اس پر مستقبل میں عمل کرنے لیے ایک پلیٹ فارم کی تشکیل بھی
عمل میں آئی۔اسکو نیٹو کے اتحادیوں اور اس وقت کے صدر نے باضابطہ طور پر
منظور بھی کرلیاتھا۔جس میں مشرکہ چیلنجز جن میں دہشت گردی ،افغانستان میں
عدم استحکام اور قدرت و انسانی آفات شامل ہیں پر غور کیا گیا اور کے خلاف
مشترکہ لائحہ عمل پر دستخط بھی کیے گئے۔نیٹو کے اتحادیوں کی نظر میںNRC نے
مختلف شعبو ں میں خاطر خواہ نتائج بھی دکھائے جیسا کہ روس نے نیٹو مشن کے
لیے جو کہ افغانستان میںجاری ہے اپنی فضائی اور زمینی حدود استعمال کرنے کی
اجازت دے دی۔اور اس کے علاوہ روس کی سرزمین پر افغان او ر دوسرے علاقائی
لوگوں کو انسداد منشیات کے متعلق تربیت بھی دی جاتی ہے۔روسی ہیلی کاپٹر
جوکہ سویلین عملے کے استعمال میں ہیں نیٹو کی نقل و حمل میں ایک اہم کردار
ادا کرتے ہیں۔NRCنے اس کے علاوہ ہیلی کاپٹروں کی بحالی کے لیے ایک فنڈ بھی
قائم کیا جس سے افغان سیکیورٹی فورسس کی خاصی مدد جاری ہے۔اس کے علاوہ
پولینڈ میں ہونے والی مشرکہ فضائی مشقیں جن کا مقصد 9-11جیسے واقعات کے
خلاف عسکری تیاری مکمل کرناتھا۔ان تمام کے بعد بھی امریکہ اور نیٹو کے باقی
اتحادی روس کی بیشتر پالیسیوں کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔ان کے نزدیک روس
معاہدے کی خلاف ورزی کرنے میں مصروف ہے اور ساتھ ہی وہ جارجیا سے متعلق روس
کے خیالات اور اپنی سرحدوں کے اردگر طاقت کا جو دائرہ روس نے قائم کرنے کی
کوشش کی ہے امریکہ اور دیگر اس کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔روس کا نقطہ نظہ
ایسا نظر آتا ہے کہ گویا وہ نیٹو ایک سیکیورٹی کا مسلہ قرار دیتا ہے۔مگر
اتحادی اب بھی اس بات پرزور دے رہے ہیں کہ نیٹو کے مقاصد کے حصول اور
مشترکہ مفادات کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ روس سے اپنے سفارتی تعلقات میں
خاطر خوا ہ بہتری لائے۔ایسے میںپاکستان کی نیٹو سے متعلق پوزیشن ایک اہمیت
رکھتی ہے۔پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس کا فیصلہ کرلے کہ نیٹو کے خلاف
ممکنہ روسی جارحیت کے وقت اسے کس طرف کھڑا ہونا پڑے گا۔امریکہ کی جانب جہاں
سے اس ک ملک کا بیشتر بجٹ آتا ہے۔اور ملک میں جاری مختلف ترقیاتی اور دوسرے
کاموں پر خرچ کیے جانے والے پیسے اور ان کی پالیسی امریکہ کی جانب سے وضع
کی جاتی ہے۔اور ساتھ ہی پاکستان کی خارجہ پالیسی پر امریکہ کا عمل دخل نظر
آتا ہے۔جبکہ پاکستان کے پاس موجود طاقت میں نیٹو کی سپلائی کا راستہ اور
باقی کئی خفیہ طریقوں سے امداد شامل ہے۔مگر دوسری جانب روس سے پاکستان کو
خاطر خواہ فوائد کی امید تھی ۔مختلف لوگوں نے دورے بھی کیے۔مگر روس کا
بھارت کو اس بات کا اعتماد دلانا کہ اس کا اسلحہ بھارت کے خلاف نہ بیچا
جائے گا۔ایک اہم مقام رکھتا ہے۔آنے والے چند ماہ میں روس اور امریکہ کے
تعلقات بہتر نہ ہونے کی صورت میں پاکستان پر بین الاقوامی دباﺅ بڑھنے کا
ایک شدید خطرہ ہے اور عین ممکن ہے کہ اس ڈر سے کہ پاکستان روس کی حمایت میں
نیٹو کے خلاف ورزی نہ کرلے۔امریکہ پاکستان پر حملہ کرنے کی بھی کوشش
کرسکتاہے۔لہٰذا پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی اور مستقبل میں دفاعی پروگرام
کو خاصہ مضبو ط کرنے کے ضرورت ہے۔ |