میرے گھر کے کچھ ہی فاصلے پر
عمران سلیم نامی ایک آدمی رہتا ہے۔ وہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا دیوانہ یا اس
سے بھی اگلے درجے کی کوئی چیز ہے۔ ڈاکٹر قادری کی تحریکی فکر کو پھیلانا
شائد اسکا اولین مشن ہے اور اس حوالے سے علاقے بھر میں متحرک رہتا ہے ۔
گذشتہ ہفتے اس نے مجھے بھی ڈاکٹر قادری کی پاکستان آمد کے اغراض و مقاصد
اور اہمیت سے متعارف کروانے کے لئے اک کارنر میٹنگ میں شرکت کی دعوت دی تو
میں نے اس میں شمولیت کا وعدہ کر لیا ۔ میٹنگ میں کوئی پچاس ساٹھ کے قریب
لوگ تھے جنہیں ڈاکٹر قادری کی ویڈیو ڈاکومنٹری دکھائی گئی جسکا موضوع تھا”
سیاست بچائیے یا ریاست بچایئے “ اسکے بعد ڈاکٹر صاحب کے ایک شاگرد رشید نے
خطاب کرتے ہوئے لوگوں سے اپیل کی کہ تیئس دسمبر کو زیادہ سے زیادہ افراد کو
مینار جانے اور پہنچانے کی ضرورت پر زور دیا اور لوگوں سے مالی امداد کی
اپیل کی ۔ یہاں سے ہی دراصل میری حیرانی کی ابتدا ہوئی کہ وہاں حاضرین کی
تعداد پچاس ساٹھ کے لگ بھگ تھی مگر چند منٹوں میں ہی کوئی ستر کے قریب بسیں
بک کروانے کے لیے رقم اکٹھی ہو گئی ۔ معلوم نہیں کہ یہ تحریک منہاج القران
کے کارکنان تھے یا محلے کے عام افراد ۔ مگر اب کی بار ان کا جذبہ اور رنگ
ڈھنگ ذرا نرالہ سا تھا۔ اور میں سوچ رہا تھا کہ اگر یہی حال دیگر علاقوں
میں ہے اور یہ لوگ ان سب بسوں کو افراد سے بھر کر مینار پاکستان لے گئے تو
وہاں واقعتا ہی انسانوں کا ایک سمندر ہوگا۔ اور اگر اس سمندر میں مدو جذر
بھی پیدا ہو گیا تو پھر سونامی سے بھی کوئی بڑی چیز نہ آجائے ۔اور اگر ایسا
ہو گیا تو ڈاکٹر قادری کو چاہیے کہ اپنے نعرے کو تھوڑا سا تبدیل کر لیں ۔کہ
”پہلے ریاست بچائیں پھر سیاست بچائیں “ اور یوں مجموعی طور پر ریاست بھی
بچائیں اور سیاست بھی بچائیں ۔ کیونکہ ریاست اور سیاست تو لازم و ملزوم ہیں
۔یہ الگ بات ہے کہ وطن عزیز کے نظامِ انتخاب نے سیاست کو ایک گالی بنا دیا
ہے ورنہ سیاست تو دین کا ایک مقدس اور ناگزیر جز ہے ۔قلندر لاہور علامہ
اقبال نے فرمایا تھا۔
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
قران کے عمومی مطالعہ سے معلوم ہوتا کہ باطل قوتوں اور معاشرے پہ مسلط باطل
نظام سے ٹکرانے کے عمل کو سیاست کہتے ہیں ۔اور معاشرے کے نظام کو اللہ کے
بنائے ہوئے قوانین کے تابع کرنے کے لئے جدو جہد کرنے کے عمل کو سیاست کہتے
ہیں ۔معاشرے میں رائج فرعونیت کو موسویت میں بدلنے کو تو سیاست کہتے ہیں ۔
مکہ کی وادیوں میں رائج ظلم کے نظام کو چیلنج کرنے اور اللہ کے نظام کو
نافذ کرکے امن اور خوشحالی کا جھنڈا لہرانے کے عمل کو ہی سیاست کہتے ہیں
اور پھر یذیدیت کے نظام کے سامنے حسینیت کا پرچم بلند کرنے کو ہی تو سیاست
کہتے ہیں ۔ لہذا سیاست تو بڑی مقدس چیز ہے مگر یہاں بے حمیت لوگوں نے اپنے
سیاہ کرتوتوں کا نام سیاسست رکھ دیا ہے اور عوم کو گمراہ کیا ھے ۔عوام
سمجھنے لگے ہیں کہ شریف آدمی کا سیاست سے کیا تعلق؟ اسکا سیدھا سادا مطلب
یہ ہے ہمارے حکمران غنڈے اور بدمعاش ہونے چاہئے ۔
دیکھا جائے تو ڈاکٹر قادری کا موجودہ سیاسی نظام کے متعلق تجزیہ سو فیصد
درست ہے کہ اس نظام انتخاب کے ذریعے سو سال بعد بھی عوام حکومت میں نہیں
آسکتے کیونکہ یہ نظام عوام کا ہے ہی نہیں بلکہ یہ خواص کا اور اشرافیہ نظام
انتخاب ہے ۔ عام آدمی تو الیکشن لڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا الیکشن لڑنا تو
بڑے دور کی بات ہے۔ سامنے کی بات ہے کہ عام آدمی کے پاس فالتو کروڑوں روپے،
غنڈے ، اسلحہ کہا ں سے آئے گا؟ لہذا عام آدمی کا کام بس پرچی ڈالنا ہے اور
یار لوگوں نے اس کا نام جمہوریت رکھ لیا ہے۔ اگر کسی کو ضد ہے کہ اسکا نام
جمہوریت ہی رکھنا ہے تو پھر میرے نزدیک یہ فرعونی جمہوریت ہے ۔ موجودہ
پاکستانی جمہوریت اور فرعونیت ایک ہی چیز کے دو نام ہیں ۔میں تو یہ بات بھی
سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ سپریم کورٹ پچھلے چار سال سے کس نظام کو بچانے کا
ورد کر رہی ہے۔ ایسی جمہوریت جو چالیس فیصد جعلی ووٹوں سے معرض وجود میں
آئی ہے۔جس میں تین سو کے قریب ارکان پارلیمنٹ کی ڈگریاں جعلی ہیں بلکہ”
مالی“ ہیں ۔ اس جعلی پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین کی قانونی حثیت کیا ہے؟
جو لوگ اس الیکشن کمیشن کی موجودگی میں شفاف الیکشن کی امید لگائے بیٹھے
تھے وہ بھی حالیہ ضمنی انتخابات کے حالات اور واقعات دیکھ حیران اور پریشان
ہیں کہ فخرو بھائی کا الیکشن کمیشن ان انتخابات میں اسلحے ، طاقت اور وسائل
کے اندھا دھند استعمال کے باوجود گنگ کیوں ہے؟ اور اس سے پہلے ملتان کے ایک
حلقے میں دھاندلی کی شکایات کا کیا ہوا؟ میرا تو گھمان ہے کہ یہ الیکشن
کمیشن انتخابات میں (اگر ہو گئے) تو کچھ نہیں کر پائے گا ۔جس میں جتنا”
زور“ ہو گا وہ اتنی” ہور“ سیٹیں لے گا ۔ایک ہنگ پارلیمنٹ نبے گی۔ منڈیاں
لگیں گی اور بڑھ چڑھ کر بولیاں لگیں گی اور عوام کی ہڈیاں تک نچوڑ لی جائیں
گی۔
ان حالات کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر قادری کی موجودہ سیاسی نظام کے خلاف آواز ہر
عام پاکستانی کے دل کی آواز ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام عملی طور پر کیا
کرتی ہے۔ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ کر گذشتہ اور پیوستہ حکمرانوں کو برا
بھلا کہتی ہے یا ڈاکٹر قادری کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلتی ہے۔ اگر گھروں
میں بیٹھی رہے گی تو پھر ”ہور چوپتی“ رہے گی۔
عمران خان کا بیان بھی نظر سے گذرا کہ موجودہ سیاسی نظام جعلی ہے اور
ظالمانہ ہے۔ میری نگاہ میں عمران خان اور جماعت اسلامی کو بھی پہلے ڈاکٹر
قادری کے ساتھ ملکر موجودہ بے ہودہ اور فرسودہ نظام انتخاب کو تبدیل کرنے
کے لئے میدان میں آنا چاہیے ۔ اور پھر انتخاب کی طر ف جانا چاہئے ۔ورنہ یہ
دونوں جماعتیں بھی چند چند سیٹیں لے لیں گی اور حکومت میں آنے کی ہر گز
پوزیشن میں نہ ہونگی۔
مقتدر قوتیں بھی ریاست اور سیاست کی فکر کریں ۔ بہتر آپشن تو یہی ہے کہ تین
سالوں کہ لئے شفاف لوگوں پہ مشتمل عبوری حکومت بنائیں ، پہلے گند کو صاف
کریں احتساب کریں اور پھر انتخاب کروائیں ۔ کچھ سیاستدانوں نے تو سبق نہ
سیکھنے کی قسم کھائی ہے ۔ ایک طرف استعفیٰ دیتے ہیں تو دوسری طرف حلف اٹھا
لیتے ہیں ۔ اخلاقیات اور روایات کا جنازہ نکل چکا ۔اور عوام کے تو ”قل“ بھی
پڑھے جا چکے ۔ان حالات میں ڈاکٹر قاردی کا متحرک ہونا امید کی اک کرن سے کم
نہیں ۔اور قدرت کا بھی اک اصول ہے کہ
رات کتنی بھی تاریک ہو سحر تو ہو گی۔
شب کا انجام یہی آج تلک دیکھا ہے
اسکی تقدیر میں ذلت ہے بتا دو اسکو
آج پھر جھوٹ صداقت سے الجھ بیٹھا ہے |