لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے کالا
باغ ڈیم پر مشترکہ مفادات کونسل کی سفارشات کی روشنی میں کالاباغ ڈیم تعمیر
کرنے کا حکم دینے کے فیصلے کے بعد ملکی تاریخ کا یہ اہم ترین پروجیکٹ ایک
بار پھر ہر طرف موضوع بحث ہے کہ یہ ڈیم بننا چاہئے یا نہیں ۔ہائیکورٹ نے
آئین کی دفعہ 154کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کہا کہ وفاقی حکومت مشترکہ مفادات
کونسل کے فیصلوں پر عملدرآمد کی پابند ہے اور مشترکہ مفادات کونسل 1991ءاور
1998ءمیں اس منصوبے کو ملکی مفاد کیلئے نہ صرف سود مند اور قابل عمل قراردے
چکی ہے بلکہ حکومت اس کی تعمیر کیلئے فزیبلٹی رپورٹ کی تیاری پر قوم کی
6ارب روپے کی خطیررقم بھی خرچ کرچکی ہے لیکن انتہائی افسوس کی بات ہے کہ اس
اہم ترین منصوبے کو بھی سیاست کی نذر کیا جارہا ہے حالاںکہ اس منصوبے کو
موجودہ حالات کے تناظر میں پاکستان کی بقا وسلامتی کا منصوبہ کہا جائے تو
غلط نہ ہوگا ۔کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر ابتدائی پیپرورک بھٹومرحوم کے دور
میں شروع ہوا لیکن بات اس سے آگے نہ بڑھ سکی اس کے بعد ضیاالحق نے اگرچہ اس
ڈیم کو تعمیر کرنے کی ٹھانی لیکن خان عبدالولی خاں نے کہا کہ اگر یہ ڈیم
تعمیر کیا گیا تو ہم اسے ڈائنا مائٹ سے اڑا دیں گے یوں یہ دور بھی کالا باغ
ڈیم کی تعمیر کے بغیر ہی گزر گیا حالاں کہ ضیاالحق اس وقت پاور میں تھا اور
وہ ہرایک کی مخالفت لے کر بھی اس کو تعمیر کرسکتا تھا اور یہ اس کے آمرانہ
دور کا ایک روشن کارنامہ ہوتا لیکن ایسا نہ ہوسکا اس کے بعد نوازشریف اور
بینظیر بھٹو بھی اپنی سیاسی مصلحتوں اور اپنے ووٹ بنک کے متاثر ہونے کے
خدشے کے پیش نظر اس منصوبے کو مسلسل نظرانداز کرتے رہے اور یہی حال
پرویزمشرف دور میں بھی رہا حالاں کہ ایک وقت میں پرویزمشرف نے کالا باغ ڈیم
کی تعمیر کا بہت پرجوش اعلان کیا لیکن بعد میں اس کی تعمیر کیلئے چاروں
صوبوں کے اتفاق رائے کو ضروری قراردے کر اس سے جان چھڑا لی اوررہی سہی کسر
موجودہ حکومت نے آتے ہی نکال دی اور اس عظیم الشان منصوبے کے خاتمے کا
اعلان کردیا یوں اس طرح پاکستان کی خوشحالی کے ضامن اس منصوبے کی راہ میں
کئی مشکلات پیش آتی رہیںجن میں ایک بہت بڑا کرداربھارت کا بھی ہے جواس ڈیم
کی تعمیر کو رکوانے کیلئے اربوں روپے خرچ کرچکا ہے جب کہ دوسری جانب وہ خود
ہمارے ہی دریاو ¿ں ستلج،بیاس،جہلم ،چناب،راوی اور دریائے سندھ پر 170ڈیم
تعمیر کرچکا ہے جس کی وجہ سے ہمیں ایک زرعی ملک ہونے کے باوجودخشک سالی کا
سامنا ہے یہاں ایک اوراہم بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ بھارت پاکستان سے کئی
گنا بڑا ملک ہے جس کے ہم سے صوبے بھی زیادہ ہیں جو مرکزی حکومت کی بیشمار
پالیسیوں سے اختلاف بھی کرتے ہیں لیکن انہوں نے ملکی مفاد کے کسی منصوبے کو
سیاست کی نذر نہیں ہونے دیا اور بھارت اسی قومی یکجہتی کی بنا پر اپنی
توانائی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے دھڑادھڑ ڈیم بنا رہا ہے لیکن ایک ہم
ہیں کہ ایک ایسے منصوبے پر اتفاق رائے پیدا نہیں کرپارہے جو ہماری ملک کی
خوشحالی کیلئے بہت اہمیت رکھتا ہے جس سے نہ صرف لاکھوں ایکڑ بیکاراراضی
قابل کاشت ہوجائیگی اور ملک میں پیداوار میں بے پناہ اضافہ ہوجائے گا بلکہ
اس سے عوام کو انتہائی سستی بجلی بھی میسر ہوسکے گی اور کون نہیں جانتا کہ
اس وقت توانائی بحران ملک میں ایک ایسا مسئلہ ہے جس نے آج ہر پاکستانی کو
شدید ذہنی اذیت میں مبتلا کررکھا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس ڈیم کی
تعمیر کے بعد ہم سیلاب سے ہونیوالے بڑے جانی و مالی نقصان سے بھی باآسانی
بچ سکتے ہیں ۔کالا باغ ڈیم کو روکنے کیلئے کئی جواز سننے میں آتے رہتے ہیں
جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس ڈیم کی تعمیر کے بعد صوابی،نوشہرہ اور مردان
کے علاقے ڈوب جائیں گے جب کہ حقائق سامنے آنے کے بعد یہ بات ثابت ہوچکی ہے
کہ یہ بات جھوٹے پروپیگنڈے کے سوا کچھ بھی نہیں کیوں کہ کالا باغ ڈیم کی
اونچائی 915فٹ رکھی گئی ہے جب کہ اس کے قریب ترین شہرنوشہرہ ایک ہزارفٹ کی
بلندی پر واقع ہے جس سے صاف واضح ہے کہ اس کے ڈوبنے کا کوئی سوال ہی پیدا
نہیں ہوتا اور اسی جانب اشارہ سابق چیئرمین واپڈا انجینئر شمس الملک بھی
کرچکے ہیں جو نوشہرہ کے باسی ہونے کے باوجود اس منصوبے کے سب سے بڑے حامی
ہیں گزشتہ دنوں ایک انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا کہ کالاباغ ڈیم پاکستان
کیلئے ناگزیر ہے اس کی مخالفت کرنیوالے پاکستان کے مخالف ہیں ان کے مطابق
کالاباغ ڈیم تعمیر نہ ہونے سے پنجاب کو سالانہ 70ارب،سندھ کو 28ارب ،خیبرپختونخواہ
کو 22ارب اور بلوچستان کو 6ارب روپے کانقصان ہورہا ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے
کہ تمام سیاسی جماعتیں ہر طرح کی مصلحتوں اور سیاسی مفادات کو بالائے طاق
رکھتے ہوئے پاکستان کی بقا کے اس منصوبے کی تکمیل کو اپنا مشن بنا لیں اور
یہ یقین کریں کہ اس ڈیم کی تعمیر لوڈ شیڈنگ،غربت ،مہنگائی ،بیروزگاری اور
پانی و خوراک کی قلت کی شکار قوم کیلئے سیاستدانوں کی طرف سے ایک ایسا تحفہ
ثابت ہوگی جو عوام کی طرف سے سیاستدانوں پر اٹھتے ہوئے اعتماد کے رشتے کو
ایک بار پھر مضبوط کردے گی۔ |