سو فیصد شفاف الیکشن کا طریقہ کار

ای میل ایڈریس پر آئے ہوئی میلز کو چیک کرنا بھی ایک نہایت صبر آزما کام ہے ، جیسا کہ لوگوں کے مزاج ومزاح میں فرق ہے ایسے ہی ان کے تبصروں ، خیالات ، ان کے رہن سہن اور معاملات وغیرہ بھی دوسروں سے مختلف ہوتے ہیں ۔چو نکہ لوگوں کے طبائع مختلف ہیں اسی وجہ سے بعض کی نظر میں ایک موضوع اہم ہوتا ہے اور دوسروں کی نظر میں وہی موضوع غیر اہم ہوتا ہے ۔تو میل باکس میں ایسے میلوں کی بھرمار ہوتی ہے جو بندہ کی نظر میں بے مقصد اور غیر اہم ہوتی ہیں لیکن کبھی کبھار بہت اہم معلومات بھی میل ہی کے ذریعے فراہم ہو جاتی ہیں ۔ تو ایسے ہی ایک اہم میل جو محترم جناب محمد افتخار صاحب نے ہمیں ارسال کی جن سے بندہ کی کوئی شناسائی نہیں لیکن بندہ ان کا مشکور ہے اور من وعن وہ قارئین کی عدالت میں پیشِ خدمت ہے۔

امید ہے کہ مزاج گرامی خیریت سے ہونگے ۔

الیکشن 2012-13کی تیاری کے حوالے سے الیکشن کمیشن پاکستان نے نادرا کے ساتھ مل کر قابل قدر خدمات سر انجام دی ہیں جوکہ قابل ستائش ہےں ۔ الیکشن کمیشن نے نا گزیر وجوہات کی بنا ءپر الیکٹرونک ووٹنگ کروانے سے معذرت کی ہے اور اس بات کا اظہار بھی کر رہی ہے کہ اس دفعہ ملک میں 99.9فی صد شفاف الیکشن کروائینگے اور ووٹنگ ریشو 80فیصد تک کرنے کی کو شش کریں گے۔ مگر یہ تمام باتیں اس وقت تک درست ثابت نہیں ہوگی جب تک الیکشن کمیشن کوئی نیا سسٹم پیش نہےں کردےتا۔اس وقت ہم شفاف الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے چند تجاویز کا خلاصہ اور تفصیلی تجاویز آ پ کی خدمت مں پیش کر نے کی جسارت کر رہے ہیں۔ کیونکہ آپ زیادہ مﺅثر انداز سے ان باتوں کو عام و خواص تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ووٹر لسٹ عارضی ایڈریس پر: الیکشن کمیشن پاکستان نادرا کی مدد سے عارضی ایڈریس کی بنیاد پر ووٹر لسٹ تیار کرے۔ کیونکہ عام طور پر لوگوں کی رہائش عارضی ایڈریس پر ہوتی ہے۔اور یہ افراد شناختی کارڈ پر مستقل ایڈریس اپنے گاﺅں یا والدین کے گھر کا لکھواتے ہےں۔اس لسٹ پر ووٹ نمبر ، گھرانہ نمبر ، ولدیت ، شناختی کارڈ نمبر اور عارضی گھر کا پتہ لکھا ہو۔ےہ لسٹ تمام پارٹیوں کو فراہم کی جائے۔

بوگس ووٹ کی شناخت: بیلٹ پیپر کرنسی نوٹ سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے ۔اس لئے بیلٹ پیپر کی چھپائی کرنسی نوٹ کی طرز پر کی جائے۔ بیلٹ پیپرز کی کاﺅنٹر کاپی اور ووٹ کی پرچی پر ترتیب وار ایک جیسے کو ڈ نمبر ہوں ، ان دونوں حصوں کے درمیان میں الیکشن کمیشن کی مہر لگائی جائے اور ووٹ کی پرچی علیحدہ کر نے سے پہلے پریزائڈنگ آفیسر کاﺅنٹر پرچی اور ووٹ کی پرچی کے درمیان دستخط کرے۔ اگر ووٹنگ بکس سے ووٹوں کی تعداد ماسٹر ووٹر لسٹ پر لگے انگوٹھو ں کے نشان سے زیادہ ہو تو ووٹ کی پرچی کے کوڈ نمبر اسٹمپ اور دستخط کو کاﺅنٹر کاپی سے ملا کر چیک کیا جائے۔ اس طرح تمام اضافی بوگس ووٹو ں کو شناخت کرنا آسان ہو جائے گا۔

دستاویزی ووٹنگ : الیکشن کمیشن نادرا کی مدد سے ماسٹر ووٹر لسٹ تیا ر کرے ، جس مں ووٹر کا ووٹ نمبر ، گھرانہ نمبر، نام ، ولدیت ، شناختی کارڈ نمبر ، عارضی گھر کا پتہ ، تصویر ، ووٹر کے دستخط اور انگوٹھے کا نشان موجود ہو اور ان دونوں کے آگے خالی بکس بنا ہوا ہو جس میں ہر ووٹر کے لئے لازمی ہو کہ وہ دستخط کے سامنے دستخط کرے اور انگوٹھے کے نشان کے سامنے انگوٹھے کا نشان لگائے۔ الیکشن کے اختتام پر ماسٹر ووٹر لسٹ پر ووٹر کے دستخط اور انگوٹھے کے نشان کوگن لیا جائے۔اسی تعداد میں ووٹنگ بکس سے ووٹ کی پرچیاں نکلنی چاہئے۔ اگرپرچیاں زیادہ ہونگی تو وہ بو گس ووٹ میں شمار کی جائے گی۔ اگر بڑی تعدا د میں کئی پولنگ اسٹیشن پر ایک ہی امیدوار کے حق میں بوگس ووٹنگ ثابت ہو جائے تو ایسے امیدوار کو نااہل قرار دیا جائے۔

سینٹر الائزڈ الیکٹر انک ووٹنگ :اگر ووٹر کسی وجہ سے اپنا حلقہ انتخاب درست نہیں کرواسکے یا الیکشن کے دن اپنے شہر یا صوبے سے دور ہیں تو ان کے لئے ملک بھر کے تمام پولیس اسٹیشن پر سینٹر الائزڈ ووٹنگ کا انتظام کیاجائے۔ان لوگوں سے فارم بھی بھروا لیا جائے کہ آئندہ کس مقام پر ووٹ کاسٹ کرنا چاہتے ہیں۔

متناسب نمائندگی: قومی الیکشن متناسب نمائندگی کی بنیاد پر کروائے جائیں تاکہ عوام میں قومی سوچ پیدا ہو اور اقتدار میں آنے والی پارٹی کو آزادی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملے۔اگر ان کی حکومت اچھی ہوگی تو دوبارہ حکومت مل جائے گی ورنہ دوسری پارٹی حکومت میں آجائے گی۔ اس طریقہ انتخاب میں لوگوں کے ووٹ ضائع نہیں ہونگے۔نیز وزیر اعظم کو ووٹ دینے کا اختیار صرف قومی اسمبلی کے ارکان کو ہو نا چاہئے۔

صوبائی الیکشن حلقہ جاتی بنیاد پر : صوبائی الیکشن حلقہ جاتی بنیاد پر کروائے جائےں۔کیونکہ ہمارے ملک کا رجحان ہے کہ وہ اپنے علاقہ کے فرد کو اپنے نمائدے کے طور پر اسمبلی میں بھیجنا چاہتے ہیں تاکہ با آسانی اپنے مسائل کو حل کرواسکیں۔ اور یہ حقیقت ہے کہ وہ نمائندہ زیادہ بہتر انداز سے علاقے کے مسائل سمجھ سکتا اور پیش کر سکتا ہے اور اس کو حل بھی کرواسکتا ہے۔ نیز وزیر اعلیٰ کو ووٹ دینے کا اختیار صرف صوبائی اسمبلی کے ارکان کو ہو نا چاہئے۔

اوور سیز پاکستانیوں کی قومی اسمبلی میں نمائندگی: حق رائے دہی ہر پاکستانی کا حق ہے ۔Wikipedia کے مطابق 2010تک دنیا بھر میں ا وور سیز پاکستانیوں کی تعداد 6,803,226 لاکھ ہے۔ ان اوورسیز پاکستانیوں کی وجہ سے ملک کی معیشت کو بڑا سہارا ملا ہوا ہے۔ ان اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا اختیار ملنے کے ساتھ خود اپنا نمائندہ چننے کا اختیار بھی ملنا چاہئے۔ ا س وقت پاکستان میں قومی اسمبلی کی ٹوٹل 400نشستیں ہیں تو کیالاکھوں کی تعداد میں اوور سیز پاکستانیوں کے لئے قومی اسمبلی میں چند سیٹیں مختص نہیں کی جاسکتی جبکہ اقلیت ، خواتین اور ٹیکنو کریٹس کے لئے 128سیٹیں مختص کی ہوئی ہیں۔ ہماری رائے ہے کہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے پاکستانیوں کے چھ حلقے بنا دیئے جائیں۔

۱۔ سعودی عرب (اوورسیز پاکستانی۔1,500,000) ۲۔ بقایا عرب ممالک (اوورسیز پاکستانی۔1,482,000)
۳۔ بقایا بر اعظم ایشیا ء (اوورسیز پاکستانی۔1,010,862) ۴۔ برطانیہ ، آئرلینڈ (اوورسیز پاکستانی۔1,200,000)
۵۔ بقایا بر اعظم یورپ(اوورسیز پاکستانی۔1,000,000) ۶۔ بر اعظم شمالی و جنوبی امریکہ ، افریقہ ، آسٹریلیا (610,364)

ان چھ حلقہ جا ت میں الیکشن غیر جماعتی بنیاد پر ہوں کیونکہ پاکستان سے باہر رہنے والا ہر فرد صرف اور صرف پاکستان کا نمائندہ ہوتا ہے۔ ووٹ دینے کا اختیار تمام پاکستانیوں کو ملنا چاہئے ، مگر الیکشن لڑنے کا اختیار صرف اس کا ہوگا۔ جو صرف اور صرف پاکستان کی شہریت رکھتا ہوگا۔

ووٹنگ بذریعہ پوسٹ: اوور سیز پاکستانی انڑنیٹ ،پوسٹ کے ذریعے یا الیکشن کمیشن پاکستان کی طرف سے بیرون ملک میں مخصوص کردہ بینکوں کی برانچوں سے بیلٹ پیپر حاصل کر سکتے ہیں۔ان بیلٹ پیپرز کے دو پارٹ ہو ں۔ دونوں پر ایک جیسا مخصوص کوڈ نمبر تحریر ہو ۔ پہلا حصہ ووٹ کی پرچی پر مشتمل ہو اور دوسرا کوائف پر مشتمل ہو ۔ ووٹرز کوائف پرانٹرنیٹ یا موبائل کے ذریعے حاصل کردہ اپنا ووٹ نمبر، بک کا کوڈ نمبر اور دونوں حصوں پر اپنے انگوٹھے کا نشان لگا کر اور دستخط کر کے مخصوص مقام پر طے شدہ تاریخ سے پہلے پوسٹ کے ذریعے اپنا ووٹ کاسٹ کر دے۔

رزلٹ کی تیاری: الیکشن کے اختتام پر Carbonize Paper پر ہر بوتھ کا علیحدہ علیحدہ رزلٹ تیار کیا جائے پھر ان تمام رزلٹ کو جمع کر کے پولنگ اسٹیشن کا رزلٹ تیار کیا جائے ، اس کی چاروں کاپیوں پر الیکشن کمیشن کی مہر لگا کر اور دستخط کر کے اووریجنل کاپی بمع ماسٹر ووٹر لسٹ، بوتھ کے رزلٹ اور ووٹ کی پرچیوں کے ساتھ الیکشن کمیشن کے آفس میں جمع کرائی جائے اور بقایا تین کاپیاں Top-3امیدواروں کے پولنگ ایجنٹ کے حوالے کر دی جائیں ۔اس طرح رزلٹ میں تبدیلی نہیں کی جا سکے گی۔ اگر پھر بھی رزلٹ تبدیل کر دیا گیا تو چیلنج کر نا آسان ہو گا۔ اس چیز کو بھی مد نظر رکھا جائے کہ پولنگ بوتھ پر ڈالے گئے کل ووٹ کی تعداد صوبائی اور قومی الیکشن میں برابر ہو۔Top-3امیدواروں میں سے کوئی ایک اور دیگر تین امیدواروں کے پولنگ ایجنٹ Carbonize Paper پر مشترکہ دستخط کر کے پولنگ رکوانے کا اختیار رکھتے ہوں۔

پاکستان میں شفاف الیکشن کے لئے ناگزیر ہے کہ پولیس اور رینجرز کے ساتھ پاک فوج کی بھی خدمات حاصل کی جائیں، ہم یقین سے کہتے ہیں کہ یہ شفاف الیکشن کرانے کا سستا ، آسان اور قابل عمل طریقہ کار ہے ۔ جو کہ ووٹر ز کے اعتماد میں اور قدر میں مزید اضافے کا باعث بنے گا۔ نیز درج ذیل لیٹر میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ انگوٹھے کا نشان اور دستخط نادرا کے انگوٹھے کے نشان اور دستخط سے میچ کر رہے ہیں یا فرق ہے۔

اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے ہماری ان کوششوں کو قبول فرمائے اور ہمارا حامی و ناصر ہو۔
Saleem Ahmed Usmani
About the Author: Saleem Ahmed Usmani Read More Articles by Saleem Ahmed Usmani: 24 Articles with 22365 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.