۳۰ نومبر پی پی پی کا یومِ تاسیس
تھا اور اس دن کی نسبت سے پی پی پی کے جیالوں نے ذولفقار علی بھٹو کی بنائی
گئی پارٹی سے اپنی محبتوں کا بھر پور اظہار کیا تھا۔پوری دنیا میں اس دن کے
حو الے سے تقریبات ہوئیں جس میں پی پی پی کے بانی چیرمین کو بھر پور خراجِ
تحسین پیش کیا گیا۔ ۴۵ سال پہلے قائم کی گئی جماعت آج بھی عوام میں بہت
مقبول ہے جس کا بھر پور مظاہر اس نے ۲۰۰۸ کے انتخابات میں کیا تھا۔محترمہ
بے نظیر بھٹو کی شہادت اگر چہ پی پی پی کیلئے بہت بڑا صدمہ تھا لیکن یہ
جماعت اس صدمے سے بھی جانبر ہو کر ۲۰۰۸ کے انتخابات جیتنے میں کامیاب ہو
گئی تھی۔ کچھ مبصر تو اس جیت کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کا تحفہ بھی
قرار دیتے ہیں۔وجو ہات کچھ بھی ہوں حقیقت یہی ہے کہ پی پی پی نے اپنی عوامی
مقبولیت کا بھرم قائم رکھا تھا ۔محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی شہادت کے دن ۲۷
دسمبر ۲۰۰۷ کے بعد سے مسلسل پاکستانی سیاست پر چھائی ہوئی ہیں اور زندگی
بھر اس کی مخا لفت کرنے والے اس کے کٹر دشمن بھی اس کی سیاسی بلوغت،فہم و
فراست اور جراتوں پر رطب ا ا للسان ہیں لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ محترمہ
بے نظیر بھٹو کی اپنی جماعت پچھلے چار سالوں میں اس کے قاتلوں کا سراغ نہیں
لگا سکی جو باعثِ تشویش ہے ۔اس کے پیچھے کون سے محرکات و عوامل کارفرما ہیں
ایک الگ بحث ہے جس کا یہ مقام نہیں ہے ۔پی پی پی کے یومِ تاسیس کے بالکل
ساتھ ساتھ ۴ د سمبر کو ضمنی انتخا بات کا انعقاد ہو رہا تھا لہذا ضروری تھا
کہ یومِ تاسیس کے حوالے سے اس کے جیالے یومِ تاسیس کے جو ش و جذبہ سے ان
انتخابات میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرکے اپنی جماعت کی جیت کو یقینی بنا
تے لیکن ایسا ہو نہیں سکا بلکہ پی پی پی ان انتخابات میں ذلت آمیز شکست سے
دوچار ہوئی ہے ۔پی پی پی پنجاب کی تمام سیٹوں سے ضمنی انتخابات ہار گئی ہے
جو اس کیلئے لمحہِ فکریہ ہونا چائیے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ پی پی پی اصل میں
پنجاب کی پارٹی ہے کیونکہ ۱۹۷۰ کے نتخابات میں اس جماعت نے پنجاب میں سب
سے زیادہ نشستیں جیت کر پہلی بار اپنی حکومت تشکیل دی تھی ۔سندھ میں اس نے
مخلوط حکومت تشکیل دی تھی کیونکہ وہاں اس کی اکثریت نہیں تھی۔خیبر
پختونخواہ اور بلوچستان میں نیپ نے حکومتیں تشکیل دی تھیں ۔ ۱۰ اپریل ۱۹۸۶
کو محترمہ بے نظیر بھٹو کا روئے ارضی کا سب سے بڑا استقبال بھی پنجاب کی
دھرتی پر وقوع پذیر ہوا تھا جو اس بات کا غماز ہے کہ پی پی پی پنجاب کی
مقبول ترین جماعت ہے لہذا پنجاب سے پی پی پی کا ضمنی ا نتخابات میں پٹ
جاناقومی المیے سے کم نہیں۔پی پی پی پاکستان کی وا حدوفاقی جماعت ہی نہیں
بلکہ زنجیرِ پاکستان بھی ہے جو ملک کے ا تحاد اور ایکتا کی علامت ہے لہذا
اس جماعت کی ملکی سطح پر مقبولیت پاکستان کی بقا،استحکام اور حفاطت کا
دوسرا نام ہے ۔۔
اس میں شک و شبہ کی مطلق کوئی گنجائش نہیں ہے کہ کارکن کسی بھی جماعت کا سب
سے قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔پاکستان میں جمہوریت کا وجود،تسلسل اور استحکام
بھی کافی حد تک انہی کارکنوں کی قربانیوں کا مرہونِ منت ہے ۔ ذولفقار علی
بھٹو نے جیا لو ں کو جس طرح ملکی معاملات میں شریک کیا تھا وہ بیان سے باہر
ہے۔ یہ ملکی معاملات میں اسی شراکت داری کا اثر تھا کہ جیالوں نے اپنے قائد
کیلئے قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور اپنے قائد کی خا طر سرِ دار جھول
گئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو بھی اس حقیقت سے بخو بی آگاہ تھیں لہذا وہ
کارکنوں کو بڑی اہمیت دیتی تھیں ۔ کارکنوں کی آرا کو وقعت دینا اور ان کو
احترام سے نوازنا ان کی سیاست کا بنیادی وصف تھا جس پر وہ تادم ِآخر قائم
رہیں۔ میرا ذاتی طور پر محترمہ بے نظیر بھٹوسے رابطہ رہتا تھا اور وہ اکثرو
بیشتر ہمیں اعتماد میں لیا کرتی تھیں۔فر وری ۲۰۰۸ کے بعد سیاست نے پلٹا
کھایا اور آصف علی زرداری نے پی پی پی کے شریک چیرمین کی حیثیت سے اپنی نئی
ذمہ داریاں سنبھالیں۔انھوں نے ملکی حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مفاہمتی
سیاست کاعلم بلند کیا جس کی وجہ سے ملک پر لہراتے ہوئے غیر یقینی کے منحوس
بادل چھٹ گئے۔انھیں مفاہمتی سیاست پر چلتے ہوئے بہت سی چیزوں کی قربانی بھی
دینی پڑی لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو کے مفاہتی علم کو ا نھوں نے کبھی بھی سر
نگوں نہیں ہو نے دیا۔بڑی گہری سازشیں ہو ئیں لیکن وہ ان تمام سازشوں کے
سامنے کوہِ گراں بن کر ڈٹ ے رہے ۔دشمن ایک ایک کر کے پسپا ہوتے چلے گئے اور
آصف علی زرداری بساطِ سیاست کے ایک کامیاب، منجھے ہوئے اور ماہر شاطر کی
حیثیت سے جانے پہچانے لگے۔موجودہ اسمبلیوں کا اپنی مدت پوری کرنا بھی ان کی
مشاکی کا برملا ثبوت ہے جس پر پاکستان کا ہر جمہوریت پسند شخص آصف علی
زرداری کی اس خوبی پر ان کا احسان مند ہے ۔بہت سی ریا ستی ذمہ داریوں اور
عوامل نے آصف علی زرداری کو اتنا وقت نہیں دیا کہ وہ عوامی سیاست کی جانب
عملی پیش قدمی کر سکتے۔ انھیں ہر روز کسی نہ کسی سازش میں پھنسا لیا جاتا
وہ ابھی ایک سازش سے نکل نہیں پاتے تھے کہ اگلی سازش بالکل تیار کھڑی ہوتی
تھی۔اگر ہم پچھلے پانچ سالوں کا غیر جانبدارانہ جائزہ لینے کی کوشش کریں تو
اتنی سازشیں منظرِ عام پر آ ئیں کہ انسان اپنا سر پکڑ کر بیٹھ جائے اور بے
ساختہ آصف علی زرداری کی معاملہ فہمی کا قائل ہو جائے۔ سازشوں کے انبار
،دہشت گردی کی جنگ، عدلیہ کی یلغار ، این آر او کا شور و غو غا اور انرجی
کرائسس نے پی پی پی کو سکھ کا سانس نہیں لینے دیا لیکن اس کے باوجود بھی
آصف علی زرداری نے جمہوریت کے نوزائید ہ پو دے کو جس طرح بے رحم طوفانوں سے
محفوظ رکھا وہ ان کی جمہوری قدروں سے محبت کا برملا اظہار ہے ۔چوہے بلی کے
اس کھیل نے پی پی پی کی ساکھ کو کافی نقصان پہنچایا جس کا کا ازالہ بہت ضر
وری تھا لیکن پی پی پی اسمبلیوں میں اپنی عددی کمی کے باعث اس جانب مناسب
پیش قدمی نہیں کر سکی جس کی وجہ سے اسے دفاعی انداز اناپنانا پڑا۔۔
آصف علی زرداری ملکی اور بین الاقوامی معاملات میں مصروفیت کی وجہ سے عوام
کے ساتھ اس طرح کے رابطوں کو قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے جس طرح کے
رابطے ذولفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کیا کرتی تھیں۔ آصف علی
زرداری نے رابطوں کی یہ ذمہ داری ا پنی ٹیم کے کندھوں پر رکھی تھی اور اس
ٹیم نے آصف علی زرداری کے اعتماد کا جس بری طرح سے خون کیا ہے دل اس پر خون
کے آنسو روتا ہے ۔پی پی پی ایک ایسی جماعت ہے جس کا کلچر دوسری جماعتوں سے
بالکل مختلف ہے ۔ اس جماعت کے جیالوں نے پی پی پی کے لئے اپنا لہو دیا ہوا
ہے لہذا وہ لیڈر شب سے اپنے رابطوں کے فقد ان کو برداشت نہیں کرسکتے ۔یہ سچ
ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اقتدار میں ہے لیکن کیا یہ سچ نہیں کہ پی پی
پی کے وفاقی وزرا اور اس کے عہدید ار بھی جیالوں سے سوتیلی ماں جیسا سلوک
کرتے ہیں۔پی پی پی کی پنجاب کی قیادت نے جیالوں کی جس طرح سے تضحیک کی ہے
اور انھیں جس طرح سے نظر انداز کیا ہے اس سے ان کی اپنی جماعت سے دور ی اور
قومی ذمہ داری سے گریز کو با آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔یہ سچ ہے کہ پی پی پی
کا جیالا پی پی پی کیلئے اپنا لہو دے سکتا ہے لیکن ان لوگوں کے لئے نہیں جو
انھیں اپنے اقتدار کے لئے سیڑھی کے طور پر ا ستعمال کرنا چاہتے ہیں۔
ذولفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی محبت آج بھی ان کے لہو میں
پور ی قوت اور تونائی کے ساتھ موجزن ہے لیکن کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ محبت
کی اس سرشاری پر ان کا استحصال شروع کر دیا جائے۔پی پی پی کے جیالے پارٹی
کے لئے جان دینے سے آج بھی گریز نہیں کر تے لیکن پارٹی کے موسمی مینڈکوں
کیلئے ان کے دل میں کوئی نرم گوشہ نہیں ہے ۔جیالے کسی کے زر خرید نہیں،غلام
نہیں اور نہ ہی کسی کی میراث ہیں بلکہ حریت و جانبازی کی علامت ہیں اور پی
پی پی کا فخر اور مان ہیں لہذا کوئی بھی انھیں ذاتی مالِ غنیمت سمجھ کر ان
کا استحصال نہیں کر سکتا ۔پی پی پی کا تو نعرہ ہی یہی تھا کہ طاقت کا
سرچشمہ عوام ہیں لیکن پی پی پی کے وزرا عوام کے ساتھ ساتھ جیالوں سے بھی
دامن بچانے کی کوششیں کرتے رہے ہیں جسے جیالے کسی صورت میں بھی بر داشت
نہیں کر سکتے ۔وزرا کا کام تو جیالوں کی جانبازی پر فخر کر کے انھیں عزت وو
توقیر سے نوازنا تھا لیکن وائے ناکامی کے وہ ایسا کر نے کی بجائے انھیں
رسوا کرنے میں لذت محسوس کرتے ہیں اور انھیں نظر انداز کرنے میں کوئی کسر
نہیں چھوڑ رہے جس کا نتیجہ وہی نکلنا تھا جو ضمنی انتخابات میں نکلا ہے ۔۔۔
پی پی پی کی ضمنی الیکشن میں موجود ہ ہار کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرو
رت ہے۔جمہوریت میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے لیکن اس طرح نہیں ہوتی جس طرح کی
ہار ان انتخابات میں دیکھنے کو ملی ہے۔ پی پی پی آج بھی پنجاب کی سب سے
مقبول جماعت ہے۔اس صوبے کے محنت کش،مزدور ،کسان اور کمزور طبقات اب بھی پی
پی پی سے محبت کرتے ہیں لہذا پی پی پی کی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس
روش کو بدلنے کی کوشش کرے جسے پنجاب کی قیادت اور وزرا نے اختیار کر رکھا
ہے۔ان افراد کا توکچھ نہیں جائیگا ان میں سے بہت سے پارٹی بدل کر نئی حکومت
کے دست و بازو بن جائیں گئے جیسا ماضی میں ہو تا رہا ہے لیکن جیالوں کا تو
پی پی پی کے ساتھ ہی جینا مرنا ہے لہذ ان کی دل جوئی کرنا اور انھیں اہمیت
دینا ضر وری ہے۔میاں منظور احمد وٹو کی سیاسی فہم و فراست سے کسی کو بھی
انکار کی مجال نہیں ہے۔ وہ انتخابی سیاست کے شناور تصور ہو تے ہیں لیکن ان
کی زیرِ قیادت پی پی پی ضمنی ا نتخابات ہار گئی ہے تو معاملہ انتہائی سنگین
ہے جس پر ٹھڈے ل و دماغ سے سوچنے کی ضرورت ہے تا کہ عام انتخابات میں یہی
کہانی پھر نہ دہرائی جائے۔ ۲۰۱۳ کے انتخابات سر پر ہیں اور مسلم لیگ (ن)
ایک احساسِ برتری سے ان انتخا بات میں جائیگی ۔اگر پی پی پی نے اب بھی اپنی
پرانی روش میں تبدیلی نہ کی تو پی پی پی کو پنجاب میں سخت نقصان کا سامنا
کرنا پڑ سکتا ہے ۔ پی پی پی عوامی اندازِ سیاست کی سب سے بڑی علمبردار ہے
لیکن اس کے اپنے جیا لوں کا جو حشر پنجاب میں ہوا ہے اور انھیں جس بری طرح
سے نظر انداز کیا گیا ہے وہی ان انتخابات میں پی پی پی کی شکست کا باعث بنا
ہے۔میری آصف علی زرداری سے در خوا ست ہے کہ جیالوں کو متحرک کریں اور وہ
لوگ جو جیالوں کی دل آزاری کا باعث بنے ہیں انھیں قصور وار ٹھہرا کر ان کے
خلاف مناسب کاروائی کر کے انھیں ان کے عہدوں سے سبکدوش کریں ۔ جیالے تو
اتنے وسیع القلب ہیں کہ وہ پی پی پی سے سوائے عزتِ نفس کے کچھ نہیں مانگتے
لیکن پارٹی کے کچھ کرتا دھرتا انھیں عزتِ نفس بھی دینے کیلئے تیار نہیں۔یہ
عزتِ نفس ان کے عظیم قائد ذ ولفقار علی بھٹو کی عطا کردہ ہے لہذا جیالے ہر
بات پر سمجھو تہ کر سکتے ہیں لیکن عزتِ نفس پر سمجھوتہ کرنا ان کے خمیر میں
نہیں ہے کیونکہ ان کی اسی خوبی نے ہی تو انھیں جیالا بنایا ہوا ہے۔جنرل
ضیاا لحق کے خلاف ان کی عظیم جنگ بھی اسی عزتِ نفس کا شاہسانہ تھی لہذا اسے
ان سے کوئی بھی چھین نہیں سکتا۔ لوٹادیجئے انھیں ان کی یہ عزتِ نفس اور پھر
ہر الیکشن جیتتے چلے جائے وگرنہ بصورتِ دیگر؟ |