چندروز قبل دنیا بھر میں انسانی
حقوق کا دن منایا گیا، حکومتی سربراہان نے خصوصی پیغامات جاری کیے، ریلیاں
نکلیں، جلسے ہوئے، مظاہرے کیے گئے، ہم بھی حقوق کے حوالے سے کچھ لکھنا چاہ
رہے تھے مگر غور کیا تو پتا چلا دنیا تو ابھی تک ’’انسان‘‘ کی تعریف پر بھی
متفق نہیں ہوئی ہے، حقوق کا کیا رونا۔ ہر شخص، گروہ اور ملک ’’انسان‘‘ کا
اپنا الگ تصور رکھتا ہے، مثلاً کلاس میں استاذ بعض بچوں کو ’’انسان‘‘
سمجھتا ہے اور بہت سوں کو گدھے کا بچہ یا الو کا پٹھا۔ حکمران طبقے کی
ذہنیت کا پوسٹ مارٹم کریں تو راز کھلے گا اس کے نزدیک تو عوام بھینس ہیں،
اسی لیے انہیں ادھر اُدھر ہانکتا رہتا ہے، یہ الگ بات ہے جب ان کے مطلب کا
وقت آتا ہے تو گدھے کو باپ اور باپ کو گدھا بنانے میں دیر نہیں لگاتے۔
ایک بادشاہ نے وزیر کو کہا یہ بتاؤ دنیا میں سب سے میٹھی چیز کیا ہے؟ درست
جواب دیا تو آدھی بادشاہت دے دوں گا، ورنہ زندگی جیل میں گزارنا پڑے گی۔ بے
چارے وزیر کو تو جان کے لالے پڑگئے، اِدھر بھاگ، اُدھر بھاگ، مگر کوئی تسلی
بخش جواب نہ بن پڑا۔ ایک روز چلتے چلتے ایک کسان سے پوچھ بیٹھا ’’بابا!
دنیا میں سب سے میٹھی چیز کیا ہے؟‘‘ ’’مگر مجھے کیا ملے گا؟‘‘ وزیر نے کچھ
پیسوں کی آفر کی، اس کی ڈیمانڈ بڑھتی رہی، تنگ آکر وزیر جانے لگا تو کسان
نے پیچھے سے آواز لگائی ’’جا تو رہے ہو مگر آدھی بادشاہت کا کیا بنے گا؟‘‘
وزیر پھر لوٹا، اتنے میں کیا دیکھتا ہے کہ ایک کتا آیا اور کسان کے قریب
رکھے پیالے میں سے کچھ دودھ پی کر چلتا بنا۔ بوڑھے کسان نے کہا اگر تم یہ
دودوھ پی لو تو تمہارے سوال کا جواب دے دوں گا۔ وزیر کو گھن آرہی تھی مگر
آدھے بادشاہت کے لالچ میں آنکھیں بند کرکے ایک ہی سانس میں غٹا غٹ سارا
دودھ پی گیا۔ کسان نے کہا ’’غرض‘‘ دنیا کی سب سے میٹھی چیز ہے، انسان اس کے
لیے ذلیل سے ذلیل کام بھی کرگزرتا ہے۔ چند ہفتوں بعد انتخابی گہماگہمی شرو
ع ہوگی تو آپ دیکھیں گے یہ ’’غرض‘‘ کے بندے ووٹ لینے کے لیے کس حد تک گر
جائیں گے۔ پیپلزپارٹی کے مرحوم رکن اسمبلی بشیر ہالیپوٹہ کے بارے میں مشہور
ہے انہوں نے ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’مجھے ووٹ دو، جیت کر
مردوں اور عورتوں کے الگ الگ میٹرنٹی ہوم بنوادوں گا۔‘‘
بات کسی اور طرف نکل رہی ہے، عرض یہ کررہا تھا ’’انسان‘‘ کون ہے اور کون
نہیں ہے؟ اس بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ ہم ہر آدمی کو ’’انسان‘‘
سمجھتے ہیں مگر غالب کہتے ہیں ’’آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا‘‘ یہ کیا
چکر ہے، کسی استاد شاعر سے پوچھنا پڑے گا۔ پاکستان میں بم دھماکوں اور
ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں بیسیوں لوگ مارے جاتے ہیں، حکومت بعض اوقات
متاثرین کے ورثاء کو معاوضہ بھی ادا کرتی ہے، مگر یہ پیسے صرف ’’انسانوں‘‘
کے بدلے میں دیے جاتے ہیں اور یہ ’’انسان‘‘ صرف سیکورٹی اہلکار یا حکمران
اتحاد میں شامل جماعتوں کے کارکن ہی ہوتے ہیں۔ باقی مرنے والے تو ’’کیڑے
مکوڑے‘‘ تھے، جو رزقِ خاک ہوگئے۔
لاپتا افراد کے لیے بھی ہمارا میڈیا اور سول سوسائٹی بہت بے چین رہتی ہے،
لیکن وہ بھی صرف لاپتا بلوچوں کے بارے میں بات کرتے ہیں، دیگر غائب ہونے
والے سینکڑوں لوگ ان کے نزدیک ’’انسان‘‘ کی تعریف پر پورا نہیں اترتے۔ کیا
یہ المیہ نہیں سرکاری اہلکاروں اور دیگر ’’انسانوں‘‘ کے بم دھماکوں میں
مارے جانے پر تو خوب رویاپیٹا جاتا ہے مگر ڈرون حملوں، جیٹ طیاروں کی
بمباری، مارٹرگولوں اور آپریشن کلین اپ میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے
بچوں، خواتین اور بوڑھوں کو انسانیت کے دائرے سے خارج سمجھا جاتا ہے۔
ملالہ ’’انسان‘‘ ہے مگر لال مسجد کی طالبات ’’بھیڑبکریاں‘‘ تھیں۔ روز لوگ
اغواء ہوتے ہیں مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، جب چند ہندو
’’انسان‘‘ اغواء ہوئے تو پوری حکومتی مشینری حرکت میں آگئی۔ سچ پوچھیے تو
بعض اوقات ایسا لگتا ہے ملک میں صرف اقلیتیں ہی ’’انسان‘‘ ہیں۔ ابھی چند
روز قبل قادیانیوں کی یورپی پارلیمنٹ میں اعلیٰ حکام سے اہم ملاقات ہوئی،
اس سے ایک روز قبل لاہور کے قادیانی قبرستان میں پراسرار طو رپر 150 قبروں
کی توڑپھوڑ کی گئی، معاملہ حسب معمول مولویوں کے کھاتے میں ڈال دیا گیا،
کسی اﷲ کے بندے نے واقعے کی اس ملاقات کے حوالے سے تجزیہ کرنے کی ضرورت
محسوس نہیں کی۔ اس سے بڑا دہرا معیار کیا ہوسکتا ہے کہ ایک ایسا شخص جس کے
باپ کا بھی پتا نہ ہو، اٹھ کر شان رسالت پر بھونک پڑتا ہے، چوں کہ وہ
شرپسند ’’انسان‘‘ ہے، اس لیے پورا مغرب اس کی پشت پر کھڑا ہوجاتا ہے، جبکہ
ڈیڑھ ارب سے زائد لوگ انسان نہیں، اسی لیے ان کے احتجاج کو یکسر مسترد
کردیا جاتا ہے۔
یورپ اور امریکا میں ’’انسان‘‘ صرف اس کو سمجھا جاتا ہے، جو ان کے ڈربے میں
ہو۔ برما میں ہزاروں افراد کو زندہ جلادیا گیا، مگر کوئی نہیں بولا۔ کشمیر
اور فلسطین میں ’’انسان‘‘ نہیں بستے، اس لیے ان کے کیسے حقوق۔ ہاں! انسان
تو جنوبی سوڈان اور مشرقی تیمور کے عیسائی تھے۔ پورا مغرب ان کے ساتھ کھڑا
تھا، ڈالروں اور یورو سے ان کے صندوق بھر دیے گئے، جدید ترین اسلحہ سے
انہیں لیس کردیا گیا اور بالآخر مسلم ممالک سے 2عیسائی ریاستوں نے جنم لے
لیا۔
بچوں اور خواتین کے حقوق کا بھی بڑا شور مچاہوا ہے۔ یہاں بھی منافقت
دیکھیے، امریکی فوج نے 200 افغان بچوں کو قید میں رکھنے کا اعتراف کیا ہے،
کیوں؟ ترجمان کے مطابق یہ بچے دہشت گرد بن سکتے ہیں۔ گویا مسلمان اور افغان
ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ بچے ’’انسان‘‘ نہیں ہیں۔ انسانی حقوق کے
علمبردار کہتے ہیں ہر شخص کو اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی ہے،
یورپ کے کتنے ہی ایسے ملک ہیں جہاں عورتوں کو کپڑے اتارنے کی تو آزادی ہے
مگر نقاب لینا جرم ہے۔ یعنی عریاں عورت ’’انسان‘‘ اور باپردہ خاتون
’’حیوان‘‘ ٹھہری۔
مغرب کی منافقت کی کہانی بہت طویل ہے، کیا لکھا کیا چھوڑا جائے، مغرب میں
جو حقوق کتوں کو حاصل ہیں اگر اس کا نصف بھی دوسری اقوام کو دے دیا جائے تو
یقینا کل کی دنیا آج کی دنیا سے صرف بہتر نہیں بہت بہتر ہوگی۔ کیا مغرب
مسلمانوں کو بھی انسان کی تعریف میں شامل کرنے پر آمادہ ہے؟ شاید صدیوں
پرانا بغض اسے ایسا نہ کرنے دے۔ |