ریاست جموں کشمیر کے تینوں حصوں
میں پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی حالت تقریباً سب جانتے ہیں وہ ایسا کیوں
ہے اسکی وجہ بلکل واضع ہے کہ ریاست کے کسی بھی حصے میں وہاں کی مقامی
انتظامیہ کے پاس یہ اختیارات نہیں ہیں کہ وہ کسی بھی چینل یا اخبار کواپنی
مرضی سے لائسنس جاری کر سکے اسلئے اس شعبہ میں کہیں بھی کوئی خاص پیش رفت
نہ ہو سکی جسکا باقی معاملات کیساتھ ساتھ تحریک آزادی پہ بھی انتہائی گہرا
اثر پڑا کیونکہ دنیا کی کوئی بھی تحریک اسوقت تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو
سکتی جب تک اسکی پشت پر میڈیاکی مدد نہ ہو وہ چاہے اپناہو یا کسی خیر خواہ
کا۔دنیا میں جتنی بھی تحاریک آزادی کامیابی سے منتقی انجام کو پہنچیں انکے
زیر زمین اور بعضوں کے برسرعام ٹی وی چینلز اور نیوز پیپرز نے اہم کردار
ادا کئے اسلئے اگر کوئی یہ کہے کہ تحریک آزادی کشمیر بنا ایک آزاد و خود
مختار میڈیا کے اپنی منزل حاصل کر لیگی تو بیشک یہ ایک معجزے سے کم نہ ہوگا
۔ہونہ ہو ریاستی میڈیا میں پہلے کی نسبت کچھ بہتری ضرور آئی ہے ۔جیسے کہ آج
سے چند برس پہلے آزاد کشمیر میں چار پانچ اخبار جاتے تھے جنمیں کشمیر سے
متعلقہ کبھی کبھار کوئی دو کالمی خبر ہوتی تھی اور اگر کسی کو خبر لگوانی
ہوتی تو پہلے اسے کسی نیوز ایجنسی سے اسٹمپ لگوانے کیلئے دو تین دن لگ جاتے
پھر اسے المیر بلڈنگ کے پتہ پر پوسٹ کیا جاتا اور اسکے بعد ہفتوں اخبار کا
بلا ناغہ مطالعہ کیا جاتا کہ وہ خبر چھپی کہ نہیں ۔اور یوں کئی بارانتظار
انتظار میں ہی وہ خبر ہی بھول جاتے اور کہتے کہ دفعہ کریں۔کیونکہ اخبار میں
خبریں صرف ایک خاص طرح کی مخلوق کی چھپا کرتی تھیں اور اخبار بھی چند ایک
تھے جنکی اجارہ داری رہی اور وہ تمام کے تمام پاکستانی تھے جنہیں تحریک
آزادی تو کجا اس علاقے کے مسائل کا زرہ بھی ادراک نہ تھا۔گزشتہ کچھ عرصے سے
ریاست کے دوسرے حصوں کی طرح آزاد کشمیر میں بھی چند لوگوں کی محنت سے کچھ
تبدیلی آئی اور وہ یہ کہ کم از کم مقامی لوگ نہ صرف اس شعبے میں آئے بلکہ
انہوں نے خود لائسنس حاصل کئے ۔اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ تعداد بڑھتی رہی
اور آج آزاد کشمیر بھارتی مقبوضہ کشمیر کے برابر تو نہیں لیکن کم از کم
درجنوں اخبار روزانہ گلی گلی اور ہر کوچے میں شہروں اور دہاتوں میں لوگ شوق
سے پڑھتے ہیں اور لوگوں کو اپنی خبر کے انتظار میں مہینوں انتظار نہیں کرنا
پڑھتا ادھراپنی خبر میل کی اور دوسرے دن اپنے من پسند اخبار میں پڑھ
لی۔اسلئے یہ تبدیلی لانیوالے یقینا تعریف کے مستحق ہیں ۔
میرا کئی ایک ریاستی اخبارات سے تعلق رہا جنمیں سے ایک کشمیر ایکسپریس بھی
ہے ۔ایک زمانہ تھا جب روائتی سیاستدانوں کے علاوہ کسی اور کی خبر کا اخبار
کی زینت بننا معجزے سے کم نہ تھا لیکن آج صورتحال میں اتنی تبدیلی ضرور آئی
کہ ہم جیسوں کے بیانات بڑی بڑی شہ سرخیوں کیساتھ اخبارات میں چھپتے ہیں
بھلا ہماری کیا اوقات ؟؟؟؟ہاں اگر بات اپنی زات تک کی ہو تو ہم کہہ سکتے
ہیں کہ جناب اب سب کچھ اچھا ہے لیکن جب اپنے دیس کی زبو حالی دیکھتے ہیں تو
میڈیا کی افادیت مذید بڑھ جاتی ہے اور اسکی زمہ داریاں واضع طور پہ دکھائی
دیتی ہیں یہی وجہ ہے کہ اکثر اوقات اخبارات کی تعریف میں کالم لکھے جاتے
ہیں بالخصوص جب جب کسی اخبار کی سالگرا ہولیکن میں نے ہمیشہ تعریف تو کی
لیکن ساتھ میں یہ ضرور کہا کہ ابھی اصلاحات کی بہت گنجائش باقی ہے اور مجھے
یہ بھی یقین ہے کہ کہ میرے اس رویے کی بدولت کئی صحافی و ایڈیٹر دوست مجھ
سے خفا بھی ہوتے ہونگے لیکن میں نے ہمیشہ کہا کہ ہم جیسوں کی اخبار تک
رسائی ہوئی ،،،،،اچھی پیشرفت ضرور ہے مگر ہمارے دیس اور قوم کو اس میڈیا سے
مذید بہت ہی امیدیں ہیں ۔
بہرحال کچھ عرصہ سے اخبارات میں ایک انتہائی نئی چیزہمیں دکھائی دی شائد
ہماری اس عظیم خواہش کی ایک ہلکی سی جھلک ،،،،اور وہ یہ کہ قومی دولت کی
لوٹ کھسوٹ کو عوام کے سامنے لانے کی ایک کوشش ہوئی ہے ۔جس میں ٹمبر مافیا
کیخلاف ایک آپریشن کا ہونا اسکے بعد قیمتی پتھروں کی سمگلنگ اور پھر کشمیر
پراپرٹی کی بنا روک ٹوک لاوارث جائیداد کی طرح اونے پونے فرخت جیسے سکنڈلز
کو سامنے لانا بیشک آج ہم کھلے دل سے روزنامہ کشمیر ایکسپریس کی تعریف بھی
کرتے ہیں اور دوسرے تمام ریاستی اخبارات سے کہتے ہیں کہ اگر وہ سب اسکی
تقلید کرتے ہوئے اس سمت میں صرف دس فیصد تک ہی پیشرفت کر دیں تو آزاد کشمیر
گلگت بلتستان کی سیاسی گندگی اور کرپشن میں بیش بہا کمی آسکتی ہے اور یہاں
کے عوام ان نام نہاد لیڈران وسیاسی شعبدہ بازوں کی منافقت سے آشنا ہو نے کے
ساتھ ساتھ اس سے کافی حد تک نجات بھی حاصل کر سکتے ہیں اور یہ صرف اسی صورت
میں ممکن ہے کہ ریاستی اخبارات کشمیر ایکسپریس کی طرح عوامی نمائندگی کی
جانب زرہ سی توجہ دیدیں ۔اور ان مفاد پرست مداریوں پر بھروسہ کرنے انکی
تعریفیں کرنے انکی شان میں بڑی بڑی شہ سرخیاں لگانے انکی شان میں لمبے لمبے
مضمون اور کالم لکھنے کے بجائے عوام سے رابطہ کریں اور اپنی عوام پہ بھروسہ
کریں اور اپنے عوام کی ہی نمائندگی کریں تو آپ خود دیکھیں گے کہ عوام آپ سے
کتنا پیار کرتے ہیں اور آپکو کتنا مان دیتے ہیں ۔بڑی عجیب بات ہے کہ اتنا
کچھ ہو گیا مگر عوام کو کانوں کان خبر نہیں اور وہ سب کچھ جو عوام کی ملکیت
ہے اسے آقاؤں کی خوشنودی میں بیچا جا رہا ہے اور برسرعام قومی غیرت کا سودہ
لاڑکانہ تو کبھی رائیونڈ میں ہو تا ہے لیکن وہ پھر بھی سب کی نظر میں معتبر
ہیں ہیرو ہیں اور اخبارات کے ایک ہی صفحہ پہ گھڑی خدا بخش کا مجاور رائیونڈ
کے حاشیہ بردار کو کشمیری تشخص کا دشمن اور رائیونڈ کا کوچوان گھڑی خدا بخش
کے مجاور کو ریاستی تشخص کا دشمن کہہ رہا ہوتا ہے اور انکے یہ بیانات بنا
سوچے سمجھے مذید تڑکا لگا کر اخبارات میں چھاپ دئیے جاتے ہیں جسے کبھی بھی
عوامی نمائندگی نہیں کہا جا سکتا ۔اگر عوامی نمائندگی جاننا ہو تو دنیا میں
کئی ایک ممالک ہیں جہاں کے اخبارات کو دیکھا جاسکتا ہے جو عوامی نمائندگی
کا حق ادا کر رہے ہیں جہاں کبھی کسی کی بنا تحقیق کے تعریف نہیں کی جاتی
اور قومی دولت کی لوٹ کھسوٹ اور ملک دشمن رویے کے حامل لوگوں کو کبھی نظر
انداز نہیں کیا جاتااور چند روپئے لیکر کسی کے تعریفی انٹر ویو نہیں کئے
جاتے کشمیری عوام کو ایسے ہی میڈیا کی ضرورت ہے اور اب وہ جھلک ہم نے کشمیر
ایکسپر یس میں ان سکنڈل کو سامنے لاتے دکھائی دی اﷲ کرے اسمیں مذید بہتری
آئے اور سب اسی سمت چل پڑھیں ۔ |