سیاستدانوں کی ملک سے وفاداری؟

ہمارے ملک کے کسی طبقے کی وفاداری پر اگر شبہ کیا جاسکتا ہے تو وہ بلاشبہ ملک کے سیاستدانوں کا طبقہ ہے جو اپنے اور اپنی جماعت کے مفادات کے تحفظ کی خاطر کسی بھی حدتک جاسکتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال ایف ڈی آئی کے مسئلہ پر حکومت کی کامیابی اور پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کا رویہ اور حکمت ِ عملی ہے۔ ایوان کے باہر جن جماعتوں نے ایف ڈی آئی کے نفاذ کو ممکن بنانے کے لیے حکومت کی مدد کی اس سلسلے میں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کا رویہ اور حکمت عملی کا کوئی اخلاقی جواز تلاش کرنے پر بھی شائد ہی مل سکے بلکہ حتمی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ان دونوں جماعتوں کی حکمت عملی کی بنیاد مفادپرستی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ گلے گلے تک تک کرپشن کے معاملات میں پھنسی ہوئی بہوجن سماج پارٹی کی قائد مایاوتی کو سی بی آئی سے نجات پانے حکومت کی تائید کی رشوت دینا ضروری تھا۔ ملائم سنگھ کی سماج وادی کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ اگر لوک سبھا کے انتخاب جلد ہوں تو ان کی پارٹی کو وہ شاندار کامیابی نصیب نہ ہوگی جو ان کو چند ماہ قبل اسمبلی کے انتخابات میں ہوئی تھی اس لیے بہانہ حکومت کو بچانے کا یہ بنایا گیا(دونوں جماعتوں کی طرف سے) کہ ہم حکومت کو نہ گراکر فرقہ پرست بی جے پی کی حکومت سے ملک کو بچانا چاہتے ہیں حالانکہ مایاوتی نے ایک بار نہیں تین بار بی جے پی کی مدد سے یو پی میں حکومت کی ہے این ڈی اے میں بھی رہی ہیں۔ ملائم سنگھ یادو1998ء میں اگر بی جے پی کو روکنے کے لیے کانگریس کی حمایت کرتے تو بی جے پی کی حکومت سے ملک کو بچاسکتے تھے! لیکن مفاد پرستی کی شکار یہی دو جماعتیں نہیں ہیں بلکہ ساری سیاسی جماعتیں ہیں۔

پہلے ہم انڈین یونین مسلم لیگ کا ذکر کریں گے مولوی اسمٰعیل صاحب نے 1947ء کے پر آشوب حالات میں مسلم لیگ مسلمانوں کی خدمت اور ان کے مفادات کی حفاظت اور جدوجہد کے لیے قائم کی تھی لیکن بعد میں اور آج تک مسلم لیگ نے خود کو کیرالا اور چندوزاتوں کو محدود کرلیا ۔بنات والا کی وفات کے بعد پتہ نہیں چلتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے مسلم لیگ کا وجود ہے کیرالا کی چند وزارتیں اور مرکز میں ای احمد بہ حیثیت وزیر مسلمان قائد سے زیادہ ’’وفادار سرکاری ملازم ‘‘(دوسرے مسلمان کانگریسی وزیروں کی طرح) نظر آتے ہیں قائد ملت مولوی اسمٰعیل کی جماعت اپنے مفاد کی خاطر ملت سے بے گانہ ہوسکتی ہے! یہ کسی نے شائد سوچا بھی نہ ہوگا!

مجلس اتحادالمسلمین کے نوجوان قائد اسد الدین اویسی ایک ایسے قائد ہیں جو آزادی کے بعد قومی سطح پر ابھرنے والے پہلے مسلمان قائد ضرور ہیں لیکن ان کی موافق حکومت یا کانگریس پالیسی ضرورت سے زیادہ طویل عرصہ تک جاری رہی تھی۔ تلنگانہ تحریک کی مخالفت کا بھی ایم آئی ایم کوئی معقول جواز پیش نہ کرسکی بلکہ وہ تحریک جس کی حمایت کرکے ایم آئی ایم بی جے پی اور فرقہ پرست قیادت کو پس منظر میں ڈال سکتی تھی وہی بی جے پی سارے منظر نامہ پر نمایاں ہوگئی۔ اس کے ساتھ حیدرآباد میں ایم آئی ایم کی بعض مفادپرست مسلم حلقوں (بہ شمول اردو صحافت) جس طرح مخالفت کی جارہی ہے وہ سیاسی گندگی کی بدترین مثال ہے۔

ملک کی سب سے بڑی اور سب سے قدیم سیاسی جماعت کانگریس سب سے زیادہ برائیوں کا شکار ہے۔ اعلیٰ سطح پر بدعنوانی رشوت اور کرپشن کی برائیاں کانگریس سے شروع ہوئیں اس کا سب سے زیادہ فروغ کانگریس میں ہی ہوا اور کانگریس کی جگہ لینے والی جماعتوں نے اسے سیاسی وارثت کی طرح اپنالیا۔

سیاسی انتقام کے لیے ہی نہیں بلکہ خود کو قانونی شکنجہ سے بچانے کے لیے کانگریسی اور غیر کانگریسی حکومتوں (دونوں نے ہی) سی بی آئی کا استعمال بری طرح کیا ہے۔ مایاوتی، ملائم سنگھ، لالو پرساد یادو، شہاب الدین، جیۂ للیتا، تسلیم الدین، کروناندھی اور کئی بڑے چھوٹے لیڈر لیکن سب سے اہم اڈوانی سی بی آئی کے غلط استعمال کی بدترین مثالیں ہیں۔ بابری مسجد کی شہادت میں اڈوانی کے جرائم روز روشن کی طرح واضح ہیں لیکن سی بی آئی پر جب این ڈی اے یا بی جے پی کا اثر تھا اڈوانی کو بری کردیا گیا! یو پی اے حکومت میں اڈوانی کو سی بی آئی نے ہی ماخوذ کرایا! سی بی آئی نہ ہوئی تماشہ ہوگیا۔

ایف ڈی آئی FDIکا سارامعاملہ ہی ملک کے مفاد سے زیادہ سیاسی جماعتوں کے مفادات کے تحت طئے ہوئے برسراقتدار پارٹی کو امریکہ کی خوشنودی کے لیے چھوٹے یا چلر کاروبار میں بیرونی سرمایہ کاری کی اجازت دینی ضروری تھی تاکہ صدر اوبامہ کو اپنے ملک میں روزگار کے مواقع پیدا کرسکیں اگر کانگریس کی جگہ بی جے پی اقتدار میں ہوتی تو وہی کرتی جو کانگریس نے کیا ہے۔ بائیں بازو کی جماعتوں نے بے شک ایف ڈی آئی کی مخالفت مفادات کی جگہ اصولوں پر کی ہے۔ باقی علاقائی جماعتیں مفادات کی تابع رہی ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ مرکزی حکومت مایاوتی کو سی بی آئی کے ذریعہ کیا راحت فراہم کرتی ہے؟

ملک کی ترقی کے نام پر ٹیکس عائد کرنا، گرانی و مہنگائی میں اضافہ ہونے دینا حکومتوں نے اپنے لیے ضروری مان لیا ہے۔ مرکزی و ریاستی حکومتیں عام آدمی کو راحت پہنچانے ان کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ تمام حکومتیں (بلالحاظ پارٹی) بڑی بے شری سے سرکاری خزانے کو اپنے وزرأ ، ارکان پارلیمان و ریاستی اسمبلی و کونسل کے ارکان کو مراعات دینے ان کی عیاشیوں کو ممکن بنانے، تیل کی کمپنیوں اور سرمایہ داروں کو رعایات دینے میں لٹارہی ہیں۔ سرکاری اور دیگر ذرائع سے لیے ہوئے قرض کو ادا کرنے سے مجبور ہوکر کسان خودکشی کررہے ہیں۔ دیہاتی عوام پینے کے صاف پانی سے محروم ہوکر بیماریوں کے شکار ہورہے ہیں۔ شہروں میں پانی و بجلی کی قلت اور اس کی گرانی سے لوگ پریشان ہیں، ایک طرف فاقہ کشی سے اموات ہورہی ہے تو دوسری طرف گوداموں میں جگہ نہ ہونے سے ہزاروں ٹن اناج خراب ہورہا ہے۔ اس اناج کو خراب ہونے سے قبل غریبوں میں مفت تقسیم کرنے سپریم کورٹ کے حکم کو نظر انداز کردیا گیا۔ آر ٹی آئی قانون کے تحت حاصل شدہ معلومات کے مطابق ’’فوڈ کارپوریشن آف انڈیا FCI کے گوداموں میں 1997ء تا 2007ء (دس سال میں) نو لاکھ 27ہزار ٹن (چاول گیہوں و مکئی) اناج برباد ہوگیا! حکومتوں کو اناج کی بربادی منظور ہے لیکن غریبوں کو مفت دینا تو دورکی بات ہے رعایتی قیمت پر دینا منظور نہیں ہے اسی پر ممتاز برطانوی وزیر اعظم و قائد سرونسٹن چرچل نے قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ایٹلی سے کہا تھا ’’آپ ہندوستان کو آزاد کرنے کا فیصلہ کرنے سے قبل یہ سوچ لیں کہ اقتدار کے لالچ میں ہندوستانی سیاستدان حکمران بن کر ہوا اور پانی پر بھی ٹیکس لگاکر عوام کا جینا محال کردیں گے‘‘ گوکہ ہندوستان کو آزاد کرنے کی مخالفت قابل لعنت و مذمت سہی لیکن حکمرانوں کے تعلق سے چرچل کا کہنا صحیح ثابت ہوا ہے۔

منموہن سنگھ، چدمبرم اور مونٹک سنگھ اہلوالیہ کا مثلث ترقی کے نام پر ملک و عوام کی ترقی کے کم اور سرمایہ داروں کی منفعت کے سامان کئے ہیں مکیش امبانی کی خاطر جئے پال ریڈی کو پٹرولیم کی وزارت سے ہٹادیا گیا ۔ سرمایہ داروں کا خیال رکھنے میں بی جے پی اور کانگریس میں مقابلہ ہوتا نظر آتا ہے۔

فرقہ پرستی کے فروغ سے انتظامیہ اور خاص طور پر پولیس اور انٹلیجنس میں آج کل کی طرح کھلم کھلا مسلم دشمنی کا مظاہرہ ہورہا ہے اس کی اہم وجہ سیاستدانوں کی قابل گرفت حرکتیں ہیں۔ قانون کے شکنجہ سے پولیس و انتظامیہ ہی ان کو بچاتی ہے ظاہر ہے جب حکمرانوں کے جرائم کی ماتحت عملہ پردہ پوشی کرتا ہے تو وہ خود کو بھی جواب دہی سے بالاتر سمجھ کر دھڑلے سے من مانی کرتا ہے۔ مسلم دشمنی کو بعض نام نہاد سیکولر سیاستداں بھی (نرم ہندوتوا پر یقین کرنے والے ) قبول کرلیتے ہیں۔

مختصر یہ کہ امریکہ کی خوشنودی کی خاطر، اپنے مفادات کی خاطر، دولت کی حرص اور اقتدار کی خاطر ہر جائز و ناجائز کو اپنے لیے روا اورجائز سمجھ لیا ہے اور ملکی و قومی مفادات کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔ کسی بھی جماعت کے سیاستدانوں میں مندرجہ بالا کمزوریاں مشترک ہیں جماعت ہی نہیں مذہب ذات علاقہ سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا ہے ہر سیاستداں صرف سیاستداں ہے۔
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 180125 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.