مولانا کے اندر جن

پاکستان میں جہاں علماءکرام ایک دوسرے کو سمجھنا شروع ہو گئے ہیں وہیں پر اچھی خبر یہ بھی ہے کہ بلوچستان میں حکومت اور ڈاکٹروں کے درمیان جو تناﺅ چل رہا تھا وہ ختم ہو گیا ہے اور دونوں کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں ان دونوں فریقین کی کامیابی اپنی جگہ مگر جو اس دوران ڈاکٹروں اور حکومتی ظلم کا شکار ہو کر اس جہان فانی سے چلے گئے انکا حساب کون دیگا اس پر میں اپنا نقطہ نظرواضح کرتا ہوں مگر سب سے پہلے ایک اہم خبر جس میں جماعت الدعو کے سربراہ حافظ محمد سعید نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان اور دیگر مولوی ارکان پارلیمنٹ میں امریکی جِن بولتا ہے ان کے اندر سے یہ جن ایک دن ضرور نکلے گا انھوں نے کہا کہ امریکی ڈرون حملے کم ہوئے ہیں یہ جلد بند بھی ہو جائیں گے امریکا افغانستان سے واپسی کا محفوظ راستہ ڈھونڈ رہا ہے افغانستان میں قیام امن کی باتیں اسی سلسلے کی کڑی ہیں ،ان کا کہنا تھا کہ بھارت سے یکطرفہ تجارت پاکستان کیلئے نقصان دہ ہے ، بلوچستان اور کراچی کے حالات کا ذمہ دار بھارت ہے جبکہ پاکستان کا ایٹم بم ملکی سلامتی کی علامت بن چکا ہے۔

میں جناب حافظ سعید صاحب سے انتہائی عقیدت سے کہتا ہوں کہ جناب پاکستان میں کچھ مولوی حضرات کے اندر جن نہیں بولتا بلکہ وہ پورے کے پورے جن ہیں جن میں مولانا فضل الرحمن سرفہرست ہیں انہیں ہم الہ دین کا جن نہیں کہیں گے بلکہ یہ کبھی مشرف کے جن رہے کبھی زرداری کے جن رہے جنہوں نے اپنے مفاد کی خاطر ہر اس حکمران کا جن بننا قبول کرلیا جن کی وجہ سے انہیں کچھ مفاد ملنے کی امید ہوتی تھی اور اسی وجہ شہرت سے انہیں کبھی مولانا ڈیزل بھی کہا جاتا رہا کیا ہی اچھا ہوتا کہ مولانا فضل الرحمن بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے اور مفادات کی سیاست کو ٹھوکر مار دیتے پھر دیکھتے کہ عوام انکا کیسے عقیدت سے نام لیتی مگر ان کے کارناموں کی وجہ شہرت سے جناب حافظ سعیدصاحب نے بھی انکشاف کردیا کہ انکے اندر جن ہے حالانکہ مولانا صاحب کسی بھی جن سے کم نہیں ہیں جو اپنے اصولی موقف کی خاطر کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔

دوسری جانب بلوچستان حکومت اور ڈاکٹروں کے درمیان کامیا ب مذکرات کے بعد حکومت نے ڈاکٹروں کے خلا ف تمام مقدما ت ختم سیکو رٹی اور ڈاکٹروں کی معطلی کے با ر ے میں مطا لبا ت تسلیم کرلیے جس کے بعدپی ایم اے نے ہڑتال ختم کر نے کا اعلا ن کر دیا ڈاکٹروں نے ڈاکٹرسعید کے اغواءخلاف ہڑتال کا اعلا ن کیا تھا اور تقریبا 55دن یہ ہڑتال جا ری رہی جس سے ڈاکٹروں اورمحکمہ صحت کے درمیان دوریاں پیداہوئی اورعوام مشکلا ت سے دو چا ر رہے حکو مت نے ڈاکٹروں کے مسا ئل اور مطا لبا ت حل کر نے کےلئے سیکرٹری صحت اور کمشنر کو ئٹہ کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے ڈاکٹروں کے ساتھ مذاکرات کیے اور حکومت نے ڈاکٹروں کے تمام مطالبات مان لیے جبکہ پی ایم اے کے صد ر سلطان ترین نے کہا ہے کہ ہم ہڑتال پر نہیں بلکہ حکومت نے ڈاکٹروں پر پا بند ی لگا دی تھی جسکے بعد ہم ہسپتال نہیں جا سکے اسی طرح کی ہڑتال ینگ ڈاکٹروں کی طرف سے پنجاب میں بھی ہو چکی ہے ایسی ہڑتالوں سے اکثریتی پارٹی والے فائدہ اٹھاہی لیتے ہیں مگر انکے اپنے مفادت کے بعد جو حال غریب عوام کا ہوتا ہے اس کا کون ذمہ دار ہے امیر اور سرکاری افسران تو ان سرکاری ہسپتالوں کا رخ نہیں کرتے اس لیے انہیں نہ تو ڈاکٹروں سے کوئی سروکار ہے اور نہ ہی عوام سے کوئی کسی کی لاپرواہی اور غفلت سے مرتا ہے تو بے شک مر جائے مگر کیا مجال ہے کہ ہم ٹس سے مس بھی ہوجائیں مریض جو سرکاری ہسپتالوں میں علاج کی غرض سے آتے ہیں انکے ساتھ ڈاکٹروں کا رویہ ایسے ہوتا ہے جیسے یہ انکو چیک کرکے بہت بڑا احسان کررہے ہیں جبکہ اکثر پروفیسر لیول کے ڈاکٹر تو اپنے آپ کو الگ ہی کوئی مخلوق سمجھتے ہیں جن کے دفتر کے باہر بیٹھا ہوا ملازم نہ تو کسی کو اندر جانے دیتا ہے اور نہ ہی کسی سے ملنے اور اگر کبھی خوش قسمتی سے پروفیسر صاحب اپنی وارڈ کا راﺅنڈ کریں تومریضوں کے سوا کسی سے نہیں ملتے بلکہ مریضوں کے ساتھ موجود انکے لواحقین کو وارڈ سے باہر نکال دیا جاتا ہے کیا یہ سب ڈاکٹر اپنے پرائیویٹ کلینک میں بھی ایسا ہی رویہ رکھتے ہیں جیسا سرکاری ہسپتالوں میں ؟
rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 830 Articles with 612653 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.