سیاسی ا تحاد، کشمیری کمیونٹی کے عتیق خان سے چند سوالات

کیا پیپلز پارٹی کی آزاد کشمیر میں قائم حکومت کو 'ٹف ٹائم 'دینے کیلئے ن لیگ اور مسلم کانفرنس میں اتحاد ہونا چاہیے ۔۔؟؟؟

تقریباً 20فیصد لوگوں نے اس اتحاد کی ،70فیصد نے مخالفت میں کمنٹس دیئے جبکہ باقی 10فیصد نے اس اتحاد کے ہونے یا ہونے میں عدم دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کے ہونے یانہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ یہ سوال اور اس کا جواب جو آپ نے پڑھا ہے میں نے دسمبر کے شروع سے اب تک مسلم کانفرنس کی ن لیگ سے زبردستی اتحاد کرنے کی کوششوں کو دیکھتے ہوئے سوشل میڈیا پر کشمیر کمیونٹی جو آزاد کشمیر ،پاکستان یا غیر ممالک میں مقیم ہیں، سے پوچھا تھا ۔کشمیر کمیونٹی نے عتیق خان سے چند سوالات پوچھے ہیں جو مضمون کے آخر میں تحریر ہیں۔ یہاں اس اتحاد والے سوال کے پس منظر کو دیکھتے ہیں ۔

یکم دسمبر کوسابق مسلم لیگ ن کے رہنماءسکندر حیات خان سے مسلم کانفرنس کے رہنماءعتیق خان ملنے ان کے گھر گئے وہیں بیٹھے بیٹھے سپریم ہیڈ مسلم کانفرنس قیوم خان سے سکندر حیات خان کی فون پر بات کروائی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق آکر عتیق خان نے ملاقات کو سیاسی کامیابی قرار دیتے ہوئے سکندر حیات خان کوبڑا سیاستدان اور اپنا سیاسی پیرو و مرشد تسلیم کرتے ہوئے اعلان کیا کہ مسلم لیگ ن سے اتحاد کا فارمولہ طے پا گیا ہے عوام کو جلد خوشخبری دینے کا اعلان بھی کیا گیا جبکہ یہی عتیق خا ن اسی سال اپریل میں ن لیگ اور سکندر حیات کے بارے میں یہ کہہ چکے ہیں کہ '' سکندر حیات بھی نواز شریف پر عدم اعتماد کر چکے،نواز شریف مسئلہ کشمیر سے ناواقف ہیں جو انتہائی افسوس ناک ہے، ن لیگ سے اتحاد نہیں ہو گا '' ۔ موجودہ وقت میں عتیق خان کے ن لیگ سے اتحاد کیلئے کی جانے والی کوششوں اور ان سے ملاقات کے حوالے سے سکندر حیات خان کا موقف یہ سامنے ہے کہ'' اتحادی فارمولہ طے نہیں لیکن اتحاد کو ناممکن بھی قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ اس کو میاں نواز شریف کی رضا مندی سے مشروط قرار دیا''۔اس سب عمل کے بعد عتیق خان کے بارے میں سکندر حیات خان نے ریمارکس دیئے کہ عتیق خان جھوٹا،دھوکے باز ، نا لائق اور نا قابل اصلاح شخص قرار دیاہے جبکہ اچھا اداکار اورناکام سیاستدان ہے۔اس تمام صورت حال پر صدر ن لیگ فاروق حیدر کا موقف سامنے آیا کہ'' نواز شریف کا عتیق خان کو اب قبول کرنا ممکن نہیں۔نواز شریف سے قربت حاصل کرنا، مسلم لیگ میں انتشار اور مسلم کانفرنس چھوڑنے والوں کو روکنے کیلئے عتیق اتحاد کا پروپیگنڈہ اور اکیلے اتحاد کی کوششیں کر رہے ہیں انہوں نے فوجی جمہوریت اور اسرائیل کے دوست کے ساتھ اتحاد کو تقریباً ناممکن قرار دیا'' ۔ن لیگ آزاد کشمیر قیادت کے اس واضح موقف کے باوجود عتیق خان نے ن لیگ سے اتحاد ہی نہیں مسلم کانفرنسی وﺅٹرز کی بہترین حقدار ن لیگ کو قرار دیتے ہوئے نواز شریف کو محب قومی لیڈر قرار دیتے ہوئے ان کی پالیسیوں کی حمایت میں بیانات دیئے ہیں جبکہ یہی عتیق خان کچھ سال پہلے جب پاکستان میں مشرف کا راج تھا تب فوجی آمرکی جھولی میں بیٹھ کہ آزاد کشمیر میں اقتدار پر قبضہ کیے بیٹھا رہے اور میاں نواز شریف کو قوم کا غدار ،پاکستانیوں اور کشمیریوں کا مجرم اور دیگر القابات دینے میںذرا عار محسوس نہیں کی کیونکہ اس وقت مشرف کا دور تھا تو ملٹری ڈیموکریسی کا نعرہ بھی عتیق خان نے اپنے مفاد کے لیے لگایا تھا تا کہ اپنی سیاسی و حکومتی دکان چمکائی جا سکے اور آج کشمیری قوم کے مجرم یہی عتیق خان جو ٹھیکیداروں کی جماعت ہونے کا داغ لیے بیٹھے ہیں۔ریاستی جماعت ہونے کا دعویٰ کرنے والے اور ''کشمیر بنے گا پاکستان ''کا نعرہ لگانے والے یہی عتیق خان اپنے دور اقتدار میں تمام شعبوںمیں عملی طور پر کام کرنے میں ناکام رہے۔ یہ سیاست میں ناکام ،حکومت میں ناکام اور لیڈر شپ میں بھی ناکام ہو نے کے بعد جب خالی ہاتھ ہو چکے تو پھر سے پانسہ پلٹنے کی کوشش کر رہے ہیں تا کہ سیاسی طور پر پھر سے کچھ عرصہ کیلئے آکسیجن حاصل کی جا سکے ۔مسلم کانفرنس کے جو چند لوگ ابھی باقی رہ چکے ہیں وہ بھی ن لیگ کی طرف رخ کر رہے تھے اس لیے عتیق خان نے خود کو زندہ رکھنے کیلئے آخری چال بھی چل دی ہے اب یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ وہ اپنی اس کوشش میں کس حد تک کامیاب ہو پاتے ہیں کیونکہ موجودہ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر فاروق حیدر کی جماعت ن لیگ کے پاس اتنی تعداد موجود نہیں کہ وہ اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کیلئے درخواست تک جمع کروا سکیں جبکہ اگر دونوں جماعتوں کا اتحاد ہو جاتا ہے جو فلوقت کچھ حد تک ممکن بھی نظر آ رہا ہے تو اپوزیشن کو ایوان میں کسی حد تک مضبوطی ضرور حاصل ہو جائے گی جس سے پیپلز پارٹی کو ایوان کے اندر ٹف ٹائم کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔دوسری جانب اتحاد کی ان خبروں کو دیکھتے ہوئے مسلم کانفرنس کے' ٹھیکیدار' کارکن تو خوشی میںنظر آتے ہیں کہ ان کے ٹینڈر پھر سے لگیں گے ۔ جبکہ ن لیگ کے کارکنان کی اکثریت عتیق خان سے نفرت کااظہار کرتے ہوئے انہیں قبول کرنے سے انکاری ہے ۔ عتیق خان کیلئے بہتر ہے کہ اب اس حد تک ن لیگ کے آگے گر ہی چکے ہیں تو پارٹی ختم کرتے ہوئے ن لیگ میں ہی ضم ہو جائیں اس عمل سے شائد ان کی سیاست پھر سے زندہ ہو سکے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ن لیگ آزاد کشمیر کی قیادت مستقبل کی دور رس سیاست کونظر رکھتے ہوئے کن بنیادوں پر اس اتحاد کو کامیاب یا ناکام بناتی ہے ۔

کشمیر کمیونٹی سے میں نے جو سوال کیا تھا اس کے جواب میں حامی یا انکار کے ساتھ ساتھ کمیونٹی کی طرف سے عتیق خان کیلئے جو سوالات اٹھائے گئے وہ یہ تھے کہ عتیق خان اپنی پارٹی کا کوئی ایک منشوربتا دیںجس پر وہ قائم رہ سکیں ؟عتیق خان اپنے حلقہ کے لوگوں کو آج تک ان کے بنیادی حقوق نہیں دلا سکے تو ان پر پورے کشمیر کی ذمہ داری ایک بار پھر سے کیسے ڈالی جا سکتی ہے ؟ مسئلہ کشمیر کو اس اتحاد سے کوئی فائدہ ہوگا؟ عام عوام اس اتحاد میں دلچسپی لے کر اپنا وقت کیوں ضائع کیوں کریں ؟ وقتی طور پر اتحاد ہو بھی گیا تولمبے وقت تک کامیاب کیسے ہو گا ؟آج عتیق خان کا ریاستی تشخص کہاں گیا ؟ملٹری ڈیموکریسی کا نعرہ لگانے والے آج کس منہ سے جمہوری اتحاد کی باتیں کر رہے ہیں؟کیا اس اسمبلی کے اندر اس اتحاد کے کامیاب ہو جانے کے بعد عوام پر کوئی مثبت اثر پڑنے کی گارنٹی ہے ۔

میرا مانناہے کہ اتحاد ہو یا نہ ہو عام عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے عوام کو بنیادی حقوق ملنے چاہیے جن کو مہیا کرنے کیلئے آزاد کشمیر کی کوئی بھی سیاست جماعت مخلص نظر نہیں آتی بلکہ یہ سیاستدان اپنی کرسی کو بچانے کیلئے کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں ان کا اول و آخر کرسی و اقتدار ہے اس کے سوا کچھ نہیں ۔سیاسی عمل میں تبدیلی لانے کیلئے نوجوانوں کو سامنے آ کر سیاسی عمل میں حصہ لینا ہو گا اور ان جاگیرداروںو سرمایہ داروں سے نجات دلواکر مسئلہ کشمیر کاحل نکالنا ہو گا کیونکہ سابقہ سیاستدان و حکمران کشمیر کے مسئلہ پر غیر ملکی دورے و اپنے اکاﺅنٹس بھرتے رہے ہیں اس کے سوا کسی نے عملی کام مخلصی سے نہیں کیا اگر کسی مخلص شخص نے کوشش بھی کی تو اس کو سائیڈ لائن کر دیا گیا ۔

اس سب کے باوجود کشمیر کمیونٹی کے یہ چندسوالات جو عتیق خان سے کیے گئے ہیں عوام ان کے جواب کی منتظر ہے ۔
Kh Kashif Mir
About the Author: Kh Kashif Mir Read More Articles by Kh Kashif Mir: 74 Articles with 59736 views Columnist/Writer.. View More