کہاجاتا ہے کہ ایک مرتبہ ایک
مشاعرے میں شرکت کرنے کیلئے امجد اسلام امجد اور عطاءالحق قاسمی واہ کینٹ
جارہے تھے دوران سفر دلچسپ گفتگو کا سلسلہ بھی جاری تھا اچانک عطاءالحق
قاسمی نے امجد اسلام امجد سے کہا ”امجد تم آنے والے دور کے مشاہیر میں سے
ہو“ امجد یہ جملہ سن کر یقینا دل میں ضرو رخوش ہوئے لیکن بغیر کسی تاثر کا
اظہار کیے خاموش رہے عطاءالحق قاسمی نے امجد اسلام امجد کو خاموش پاکر اپنا
جملہ زرا بلند آواز میں دہرایا ”امجد تم آنے والے دور کے مشاہیر میں سے
ہو“دوسری مرتبہ یہ جملہ سننے کے بعد امجد اسلام امجد کسی تاثر کا اظہار
کرنے ہی والے تھے کہ عطاءالحق قاسمی نے گاڑی میں موجود انور مقصود سے مخاطب
ہوکر کہا ”انور صاحب دیکھیے کیسا برا زمانہ آرہاہے کہ جس میں امجد جیسے لوگ
مشاہیر بن جائیں گے “عطاءالحق قاسمی نے ان دو جملوں میں امجد اسلام امجد
کواوج ِثریا تک پہنچا کر تخت الثریٰ میں دے مارا بے تکلفی میں انہوں نے
بندے کی پروا نہ کی اور جملہ ضائع نہ ہونے دیا ۔
قارئین آج کے کالم کا آغاز ہم نے خلاف روایت مذہبی حکایات اور روایات کے
بجائے ہلکے پھلکے انداز میں کیا اس کی ایک خاص وجہ ہے کہ وہ موضوع جس پر ہم
گفتگو کرنے والے ہیں وہ ایک لحاظ سے انتہائی مزاحیہ رنگ بھی رکھتاہے اور
اگر کوئی صاحب دل سنگینی کو سنجیدگی سے سمجھے تو شائد آنکھیں دل کے درد کی
عکاسی کرنے سے قاصر ہوجائیں ۔
قارئین مسلم لیگ وہ جماعت ہے کہ جس نے قائداعظم محمد علی جناح ؒ اور علامہ
اقبال ؒ کی قیادت میں پاکستان نام کی ایک سلطنت قائم کی یہ سلطنت کلمے کی
بنیاد پر بنی اور اس سلطنت کے بنانے کی جدوجہد میں ایسے بڑے بڑے لوگ اورنام
شامل ہیں کہ الفاظ ان کی عظمت اور کردار کو بیان کرنے سے قاصر ہیں ان لوگوں
نے اپنا تن من دھن لٹاکر دنیا کی سب سے بڑی اسلامی نظریاتی سلطنت قائم کی
۔قائد اعظم محمد علی جناح ؒ پاکستان بننے کے بعد بہت جلد جدائی کا صدمہ دے
گئے اور قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد مارشل لاءاو رجمہوریت کی
شکل میں دھوپ چھاﺅں کا سفر جاری رہا دھوپ چھاﺅں کے اس سفر میں مسلم لیگ جو
پاکستان کی بانی خالق جماعت تھی وہ مختلف نئی بوتلوں میں مختلف شکلیں
اختیار کرتی رہی اور اس کو کبھی کسی نام سے موسوم کردیا جاتارہا اور کبھی
کسی اور نام سے ۔انہی مختلف ناموں میں سے ایک نام مسلم لیگ (ن) ہے جس کے
سربراہ سابق وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف ہیں ۔
قارئین آئیے کالم کے اگلے حصے کی طر ف چلتے ہیں جب تحریک پاکستان عروج پر
تھی اس وقت کشمیر کے مسلمان ڈوگرے کی غلامی میں تھے مہاراجہ کشمیریوں پر اس
حدتک ظلم وستم روارکھتاتھا کہ سواد اعظم ہونے کے باوجود مسلمان کشمیری
اقلیت رکھنے والے ہندوﺅں اور سکھوں کے عملاً غلام تھے غلام عباس ،کے ایچ
خورشید ،شیخ عبداللہ ،سردار عبدالقیوم خان ،سردار ابراہیم خان اور دیگر
درجنوں مشاہیر نے مل جل کر تحریک آزادی کی شمع روشن کی اور 14اگست 1947کو
پاکستان وجو د میں آیا تو اس کے کچھ عرصے بعد یعنی 24اکتوبر 1947کو کشمیر
کا کچھ حصہ آزاد کرایا گیا جس کا نام تحریک آزادی کشمیر کے بیس کیمپ کی
مناسبت سے آزادکشمیر رکھاگیا اس چھوٹے سے خطے کی خالق بانی جماعت مسلم
کانفرنس تھی اس کے سربراہ مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان تھے تدریجی یا
تخریبی عمل کہیے یہ مسلم کانفرنس بھی پاکستان میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں
اور ذاتی مفادات کے چکر میں مختلف دھڑوں میں بٹتی رہی لیکن 2011ءسے پہلے تک
یہ جماعت کسی نہ کسی صورت میں متحد رہی اور آزادکشمیر میں 50سال کے قریب
اسی جماعت کی حکومت رہی اس کے اہم لوگوں میں سردار عبدالقیوم خان ،سردار
سکندر حیات خان ،راجہ فاروق حیدر خان ،شاہ غلام قادر ،سردار عتیق احمد خان
سمیت پرانی اور نئی قیادت کے مختلف نام شامل تھے جب سردار عبدالقیوم خان نے
نئی نسل کو قیادت سونپی تو لامحالہ پدری شفقت کہیے یا اسے کچھ اور نام دے
لیجئے ان کے صاحبزادے سردار عتیق احمد خان نے مسلم کانفرنس کی صدارت اور
الیکشن جیتنے کے بعد وزارت عظمیٰ کی کرسی سنبھالی جب ملک میں جنرل پرویز
مشرف نے میاں محمد نواز شریف کا تختہ الٹا تو سردار عتیق احمد خان نے بہت
بڑی سیاسی غلطی کرتے ہوئے جنرل مشرف کی حمایت کی اور اپنی حکومت بچانے
کیلئے یا نجانے کون سی سیاسی حکمت عملی کے تحت ملٹری ڈیموکریسی کی ٹرم
ایجاد کی اور اس کے خوب راگ الاپے جب جنرل مشرف جمہوریت کی بحالی کے بعد
رخصت ہوئے وہیں سے سردار عتیق احمد خان اورمسلم کانفرنس کا زوال شروع ہوگیا
۔
قارئین آئیے کالم کے آخری حصے کی طرف چلتے ہیں ہم نے چند روز قبل مسلم
لیگ(ن ) آزادکشمیر شعبہ خواتین کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات بلقیس صابر راجہ
کا ریڈیو آزادکشمیر ایف ایم 93کے مقبول ترین پروگرام ”لائیو ٹاک ود جنید
انصاری “میں براہ راست انٹرویو کیا اس انٹرویو میں وزیر اعظم چوہدری
عبدالمجید کے صاحبزادے چوہدری قاسم مجید اور سابق وفاقی وزیر امور کشمیر
جنرل عبدالمجید ملک نے بھی حصہ لیا ایکسپرٹ کے فرائض استاد محترم سینئر
صحافی راجہ حبیب اللہ خان نے انجام دیئے بلقیس صابر راجہ نے آن ایئر اور آف
ایئر جو باتیں کیں ان کا لب ِلباب یہ ہے کہ مسلم کانفرنس کے ٹوٹنے کی
بنیادی وجہ سردار عتیق احمد خان نہیں ہیں بلکہ ان کے والد محترم مجاہد اول
سردار عبدالقیوم خان نے طویل عرصے تک جو جمہوری ڈکٹیٹر شپ مسلم کانفرنس پر
نافذ رکھی اس کے نتیجے میں جماعت میں بغاوت پیدا ہوئی اور اس پر تیل اس وقت
چھڑکا گیا جب جنرل مشرف کے مارشل لاءکی حمایت اور میاں محمد نوازشریف کی
جائز حکومت کے خاتمے کو کندھا دیا گیا بلقیس راجہ کا یہ کہنا تھا کہ
انہوںنے مسلم کانفرنس میں 21سال گزارے اور اس دوران سردار عبدالقیوم خان کی
شخصیت کو انتہائی قریب سے دیکھا بلقیس راجہ نے کہا کہ سردار عتیق احمد خان
نے اپنے والد بزرگوار کی سیاسی غلطیوںکی سزا بھگتی ہے ان کا یہ بھی کہنا
تھا کہ سالار جمہوریت سردار سکندر حیات خان اور صد رمسلم لیگ (ن) آزادکشمیر
راجہ فاروق حیدر خان جیسی خوددار ،بے باک اور شفاف شخصیات ہر گز مسلم
کانفرنس نہیں توڑنا چاہتی تھیں اور نہ ہی جنرل مشرف کی حمایت کرنا چاہتی
تھیں سیاسی غلطیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم کانفرنس اس وقت شدید مشکلات کا
شکار ہے اس کے وجو د سے مسلم لیگ ن آزادکشمیر جنم لے کر روز بروز مضبوط
ہوتی جارہی ہے ۔
قارئین بقول غالب ہم یہ کہیں گے
تیرے توسن کو صباباندھتے ہیں
ہم بھی مضموں کی ہوا باندھتے ہیں
آہ کا کس نے اثر دیکھاہے
ہم بھی اک اپنی ہوا باندھتے ہیں
اہل تدبیر کی واماندگیاں
آبلوں پر بھی حنا باندھتے ہیں
سادہ پرکار ہیں خوباں غالب
ہم سے پیمانِ وفا باندھتے ہیں
قارئین بلقیس صابر راجہ نے جو بھی مشاہدہ کیا وہ ہم نے آپ کے سامنے اختصار
کے ساتھ رکھ دیا لیکن اس مختصر سی کہانی سے اندازہ لگالیجئے کہ کون ساوقت
آنے والا ہے کہ کیسی کیسی شخصیات مشاہیر کہلائیں گی ہم کسی کابھی نام نہیں
لیتے صرف یہ گزارش کرتے ہیں کہ سیاست دان ”اصولی سیاست “کرتے ہوئے بے اصولی
بھوک ،اندھی غربت ،اندھی محتاجی اور دیگر کئی بے اصولی زلتوں کے ہاتھوں
مجبو ر عوام کے حال پر تھوڑ ا سال رحم کھا لیں کیونکہ آپ کی سیاست ،تاج
وتخت اور حکومت انہی غریب عوام کی مرہون منت ہیں ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
ایک فقیر نے انتہائی عاجزی سے ایک دروازے پر دستک دی
خاتون خانہ نے غصے سے دروازہ کھولا اور جھڑک کر پوچھا ”کیاچاہتے ہو “
فقیر نے ہتھیلی پر ایک بٹن رکھا اور گزارش کی
”خدا کے نام پر اس بٹن پر کوٹ ٹانک دیں “
قارئین اس وقت مسلم کانفرنس بھی مسلم لیگ ن آزادکشمیر سے اتحاد کی جو بات
کررہی ہے وہ بٹن پر کوٹ ٹانکنے کے مترادف ہے بلقیس صابر راجہ نے اسی طرف
لطیف انداز میں واضح اشارے دئیے ہیں اللہ کشمیری عوام کے حال پر رحم فرمائے
۔ |