صوبہ اتر پردیش میں کئی وارثین
انبیاء جلوہ فرما ہوئے جنھوں نے چمن اسلام کی آبیاری کیلئے بے پناہ جدو
جہد کیں۔ تاریخ کے اوراق جن کی حیات وخدمات سے روشن ہے۔ دیدئہ انسانی کو
خیرہ کردینا والا ایک نام سیاح یورپ وامریکہ،ایشیاء وافریقہ،حضور مفکر
اسلام حضرت علامہ قمرالزماں خاں اعظمی صاحب قبلہ دامت بر کاتہم القدسیہ کا
بھی آتا ہے۔ جو ضلع اعظم گڑھ کے قصبہ’’خالص پور ‘‘میں ۲۳؍ مارچ ۱۹۴۶ء کو
’عبدالحمید خاں ناتواں‘ کے دولت کدہ میں تشریف لائے۔ حضور مفکر اسلام کی
شان میں زبان وقلم سے کچھ اظہار کرناسورج کو چراغ دکھانے کے مماثل ہے۔
علامہ موصوف اپنے علم ،تدبر، تفکر، تقویٰ وطہارت، سادگی ومتانت، تواضع
وانکساری، اور اپنے صاف وشفاف کردار وعمل کے ذریعہ پورے عالم اسلام میں
یکساں مقبولیت کے حامل ہیں۔بلکہ یہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ حسب ذیل
شعر حضرت علامہ صاحب قبلہ کی شخصیت پر حرف بہ حرف صادق آرہا ہے۔
اٹھائے کچھ ورق لالہ نے کچھ نرگس نے کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری
د ین وملت کی خدمات کے باب میں آپ بڑے متحرک وفعال ہیں ۔یوں محسوس ہوتا ہے
کہ دین وملت کی خدمت کا جذبہ آپ کی شریانوں میں لہو کے ساتھ گردش کر رہا
ہو۔ آپ نے ۱۹۶۴ء میں ’’الجامعۃ الاسلامیہ‘‘ رونا ہی فیض آباد ،یوپی میں
اہل سنت کا ایک مثالی ادارہ قائم فرمایا۔ ۱۹۷۴ء ہی سے ورلڈ اسلامک مشن کے
پہلے جوائنٹ سکریٹری پھر جنرل سکریٹری کے منصب پر فائز ہو کر مشن کے سارے
دینی اموربہ حسن وخوبی انجام دے رہے ہیں۔ مانچسٹر (برطانیہ) کی مرکزی مسجد
کے آپ بانی اور خطیب وامام بھی ہیں۔ اس کے علاوہ آپ جامعہ مدینۃ الاسلام
(ہالینڈ) کے نائب صدر، النور سوسائٹی، ہوسٹن (امریکہ) کے ٹرسٹی، ورلڈ
اسلامک مشن کینیڈا اور ڈیلاس (امریکہ) کے ٹرسٹی، الفلاح یوتھ موئومنٹ، بریڈ
فورڈ(امریکہ) کے بانی اور عالمی تحریک سنی دعوت اسلامی ممبئی (انڈیا) کے سر
پرست ہیں۔ اخلاق واخلاص آپ کا علامتی نشان ہے اسی لئے بیرون ممالک میں آپ
کو ’’ابو الاخلاص‘ ‘کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ ہر وقت آپ اس مرد مجاہد کی
ہر تحریک وتقریر، جلوت وخلوت کو اسلام کے ارتقاء اور مسلمانوں کی زبوں حالی
کے سد باب کی فکر میں ہمہ وقت مصروف عمل پائیں گے۔ مذہبی اعتبار سے مولوی ،مولانا
، حافظ،وقاری،ہوجانا آسان ہے مگر قائد مذہب وملت ہوجانا ،قائد فکر ونظر
ہوجانا یہ ہر انسان کے بس کی بات نہیں۔ جب انسان ان مراحل سے گزرتا ہے تب
دنیا اسے’’ مفکر اسلام‘‘ کہتی ہے۔ مفکر اسلام محض آپ کا لقب ہی نہیں بلکہ
سحیح معنوں میںیہ اسلام کے عظیم مفکر اور قوم مسلم کے عظیم مدبر ہیں۔ حضور
حافظ ملت کے یہ شاگرد عظیم جب ممبر خطابت پر جلوہ فرما ہوتے تب وقت کے حضور
مفتی اعظم ہند اور برہان ملت علیہما الرحمہ والرضوان بھی آپ کے خطبات کو
سراہتے ۔اپنے خطابات میں الفاظ کی جاذبیت، کلام کی عظمت اور زبان کی فصاحت
وبلاغت کی وجہ سے کئی سالوں سے برطانیہ میں رہائش کے باوجود ہندوستانیوں کے
دلوں پر حکومت کر رہے ہیں۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں آپ کے خطاب کو سننے
کے بعد طلبہ کہتے ہیں۔ کہ حضرت آپ کو تو علی گڑھ مسلم نیورسٹی میں اردو کا
ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ ہونا چاہئے۔ گلبرگہ شریف میں پروفیسر آپ کے خطاب کے
اختتام پر کہتے ہیں کہ علامہ موصوف صرف زبان داں نہیں بلکہ زبان گو اور
اردو ساز بھی ہیں۔ اور رشاق کہتے ہے کہ مقررین دوران تقریر عمدہ الفاظ
بولنے کو ترستے ہیں اور عمدہ الفاظ علامہ موصوف کی زبان پر آنے کو ترستے
ہیں۔ علامہ موصوف کو ۲۰۱۰ء حج کے دوران اندرونی خانۂ کعبہ کی زیارت کا بھی
شرف حاصل ہوا ہے اورحالیہ دنوں میں علامہ موصوف کو ان کی دینی خدمات کو
سراہاتے ہوئے مفتی اعظم گولڈ میڈل سے بھی نوازاگیا ۔
حافظ ملت کے فیض خاص کا یہ اثر
ہے تصدق باغ فردوس آپ پرقمرالزماں |