افلاطون

427ق م میں یونان کے مشہور شہر ایمتنز میں ایک ایسا عظیم فلسفی پیدا ہوا جس نے یونان کے استحکام کے لیے ایک ایسے سیاسی نظام کا خاکہ پیش کیا کہ جسے نہ صرف یونان نے اپنایا بلکہ انقلاب فرانس کے بعد مغرب کے تمام ممالک اُس سے مستفید ہوئے۔ آج بھی پوری دینا میں اس کے فلسفہ سیاست کے بہت سے اصول کارفرما ہیں افلاطون نے دنیا کو پہلی بار ایک ایسا نظام فکر دیا جو سیاسیات ، علمیات اور اخلاقیات کا مکمل احاطہ کرتا ہے۔

347ق م میں اسی (80)سال کی عمر میں جب افلاطون فوت ہوا تو اس کی قبر پر موجود لوگوں نے اقرار کیا کہ اس عظیم فلسفی کی تعلیمات اور یادیں رہتی دنیا تک قائم رہیں گی اور یہ بات اسقدر سچ ہے کہ آج تقریباً 2500سال گزر نے کے باوجود بھی دنیا کا سیاسی ، اخلاقی اور تعلیمی نظام اپنی تکمیل کے لیے افلاطون کے افکار کا محتاج ہے۔

افلاطون وہ شخص ہے کہ جس نے مغرب میں دنیا کی پہلی باقاعدہ درسگاہ کی بنیاد رکھی۔ ایمتنز میں ایک شخص اکیڈمس نامی تھا۔ افلاطون نے اکیڈمس کے باغ میں ایک درخت کے نیچے پہلی دفعہ بچوں کو پڑھانے کا اہتمام کیا۔ اکیڈمس کے حوالے سے وہ درسگاہ اکیڈمیا کہلائی اور آج اُسی وجہ سے پڑھنے لکھنے اور علم حاصل کرنے کی جگہ کو اکیڈمی کا نام دیا جاتا ہے۔ افلاطون کی اس درسگاہ نے بہت سے نامور دانشوروں اور سیاست دانوں کو جنم دیا۔ بہت سے لوگ اس سے مستفید ہوئے۔ نامور فلسفی ، علم الحیوانات کا بانی اور سکندر اعظم کا استاد ارسطو بھی افلاطون کا شاگرد تھا۔ افلاطون کی یہ اکیڈمی 529ءتک قائم رہی۔ جب شہنشاہ جسٹی ینن نے اُسے زبردستی بند کردیا۔

افلاطون کی تعلیمات اور اُس کے تروتازہ افکار آج بھی اچھے حکمرانوں کے لیے ہوا کے تازہ جھونکے کی طرح ہیں ۔ افلاطون کہتا ہے۔
٭ وہ علم جو ہم مجبوری کے تحت حاصل کرتے ہیں دیرپا نہیں ہوتا۔
٭ وہ شخص جو علم حاصل نہیں کرتا وہ ادھوری زندگی گزارتا ہے۔
٭ خوبصورتی سے محبت کا جذبہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے۔
٭ دوسروں کی نقالی میں نیکی کرنے والے معمولی درجے کے ایماندار ہوتے ہیں۔
٭ دلائل پر مبنی علم حقیقی مستند اور پائیدار ہوتا ہے۔
٭ ایک مثالی زندگی ایک مثالی معاشرے میں ہی ممکن ہے۔
٭ مثالی مملکت کا حقیقی مقصد عدل یا انصاف ہے۔
٭ نیکی ، بھلائی ، خوبصورتی اور سچائی کی حیثیت غیر ابدی اور ابدی ہوتی ہے۔
٭ تعلیم ہی ایک ذریعہ ہے جس سے کسی ناقص کو نئے انداز میں نئے سرے سے استوار کیا جا سکتا ہے۔
٭ تعلیم روح کی نشوونما کا نام ہے۔
٭ جس طرح انسانی جسم کے لیے خوراک ضروری ہے ، ویسے ہی روح کی بالیدگی کے لیے تعلیم بہت اہم ہے۔ زندگی کا مقصد عدل کی تکمیل ہے اور اس کا بہترین ذریعہ تعلیم ہے۔ جب تک تعلیم یافتہ لوگ نہیں ہوتے۔ عدل کی تکمیل ممکن نہیں ہے۔
٭ تعلیم ہی وہ بہترین ذریعہ ہے جس سے نیک اور بہترین انسان پیدا ہو سکتے ہیں۔
٭ اچھی مملکت کے حکمران تعلیم کے ذریعے ہی انصاف کو سمجھ سکتے ہیں اور جب یہ طبقات انصاف کی روح کو سمجھیں گے تب ہی مثالی مملکت کا قیام عملاً ممکن ہو گا۔

بچوں کی دینیات میں یہ تعلیم نہیں ہونی چاہیے کہ جو کچھ کرتا ہے وہ خدا ہی کرتا ہے۔ اُن کو بتانا چاہیے کہ خدا صرف اچھی باتیں کرتا ہے۔ شر کو خدا کی طرف منسوب کرنا بڑا ظلم ہے۔ ان کو یہ نہیں کہنا چاہیے کہ خدا جسے جیسا چاہتا ہے بنا دیتا ہے۔ کسی کو جہنم کے لیے بناتا ہے اور کسی کو جنت کے لیے۔ جب وہ کسی کو تباہ کرنا چاہتا ہے تو پہلے اُسے گناہ میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اصول یہ ہے کہ خدا کو خیر مطلق کے طور پر پیش کیا جائے۔ خدا کے بارے میں یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنی فطرت نہیں بدلتا۔ خدا میں سب صفات حسنہ کا کمال ہے اس کو بدلنے کی ضرورت نہیں۔ خدا صداقت مطلقہ ہے اور صداقت مطلقہ میں کوئی تغیر ممکن نہیں۔
٭ سزا سے مجرم کی نیکی میں اضافہ اور بدی میں کمی ہوتی ہے۔
٭ عدل ایک اعلیٰ ترین نیکی ہے۔
٭ انصاف ایک مقصد ہے اور اسی کی تکمیل معاشرے کے لیے ایک فرض کی حیثیت رکھتی ہے۔
٭ حکومت کا کام عوام کا مفاد ملحوظ رکھنا اور اُنہیں بہترین اخلاقی زندگی فراہم کرنا ہے۔
٭ انصاف ایک اندرونی قوت ہے جو انسان کے فطری رجحان سے منسوب ہے۔
٭ انسانی قدروں اور اخلاق کا تعلق ضمیر سے ہے اور انسانی ضمیر کو جبر اور سزا کے ذریعے کام پر مجبور نہیں کیا جا سکتا ۔
٭ مسرتوں سے ہمکنار ہونے کے لیے ہر شخص سے اُس کی اہلیت اور صلاحیت کے مطابق کام لینا ضروری ہے۔
٭ کوئی ریاست اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک حکومت ایسے لوگوں کی نہ ہو جو جانتے ہوں کہ ریاست کی بہتری کے لیے کن چیزوں کی ضرورت ہے۔
٭ حکمرانی ایک مشکل فن ہے اس لیے حکومت کی بھاگ دوڑ اُن لوگوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے جو ذہنی اعتبار سے اعلیٰ ترین ہو اور جن میں معاملہ فہمی کی مکمل استعداد ہو۔
٭ سیاستدان کہلانے کا مستحق وہی ہے جو اخلاقی اقدار سے باخبر ہو اور قوم کی اصلاح چاہے۔
٭ سرکاری غبن ، جنسی جرائم ، غداری، دہریت ، بدعت اور مقدس چیزوں کی بے حرمتی کی سزا موت ہونی چاہیے۔
٭ عادل شخص ظالم سے زیادہ دانشمند ، زیادہ قوی اور زیادہ خوشحال ہوتا ہے۔
٭ قوانین فطری ہوتے ہیں اور فطرت سے لڑنا آسان نہیں ہوتا۔ اس لیے ہر شخص قانون کی بالا دستی تسلیم کر کے ہی اپنی زندگی میں تسلسل برقرار رکھ سکتا ہے۔
٭ جب تک قدرت حکمرانوں کو دانا اور ایماندار نہیں بتاتی یا دانا اور ایماندار لوگوں کو حکمرانی نہیں دیتی۔ ریاست کے سیاسی ، سماجی اور اقتصادی حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔
٭ بنیادی چیز یہ ہے کہ قانون ساز جب قانون سازی کرے تو اس کے ذہن میں مکمل نیکی کا تصور ہو۔
٭ جو ریاستیں جنگ ہی کو اپنا نصب العین بناتی ہیں۔ اور یہ بات اپنے عمل سے ثابت کرتی ہیں وہ اصولی طور پر مکمل ریاست کا درجہ نہیں رکھتیں اور اُن کا نظریاتی وجود نامکمل ہوتا ہے۔
٭ مملکت کا فرض ہے کہ وہ شہریوں کو بہت زیادہ دولت کمانے سے روکے۔
٭ ہمیں قانون کے ساتھ ساتھ اُس قوت کی بھی ضرورت ہے جو اُسے نافذ کر سکے ۔ قانون ہی وہ اصول ہے جس نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا۔
٭ مملکت کا حقیقی مقصد عدل یا انصاف ہے جس کی بدولت ایک نیک اور مثالی زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ عدل اعلیٰ ترین نیکی ہے اور اس کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ مختلف افراد اور طبقوں میں ان کی صلاحیتوں اور ذہنی استعداد کے مطابق فرائض سونپے جائیں اور لوگ ان متعین فرائض کو اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے انجام دیں۔ مثالی مملکت وہی ہو سکتی ہے جس میں اچھائیوں کے فروغ ، انصاف کی تکمیل حقیقت جاننے کی جستجو اور نیکی کے حصول کے لیے عملی جدوجہد ہو۔

آج پھر ہماری سیاست اور ہمارے سیاستدانوں کو افلاطونی افکار کی سخت ضرورت ہے۔ کیونکہ عملی طور پر ہمارے ملک کی صورتحال یونان کی اُس وقت کی زبوں حالی سے بھی بد تر ہے۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 445044 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More