حضرت حسن بصری اور جہاد فی سبیل اللہ

تحریر : مولانا محمد زاہد
استاذ الحدیث جامعۃ الصابر،بہالپور

حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کا نام علمی حلقوں میں محتاج تعارف نہیں، آپ جلیل القدر تابعی، بلند پایہ محدث، دقیقہ رس فقیہ اور عظیم الشان صوفی وزاہد تھے۔ فصاحت و بلاغت میں ان کا شمار چوٹی کے چند علمائ میں ہوتا تھا۔ آپ کی باتیں حکمت سے بھری ہوتی تھیں اللہ تعالیٰ نے آپ کی عظمت وہیبت و جلالت اور محبت کو دلوں میں بٹھادیا تھا۔ ان تمام علمی و عملی کمالات کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے مثل شجاعت و بہادری سے نوازا تھا، آپ حق بات کہنے میں مداہنت و مصلحت کا شکار نہیں ہوئے۔

ایک منفرد اعزاز
اللہ تعالیٰ نے حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کو وہ شرف عطا فرمایا جو کسی صحابی کو بھی حاصل نہیں ہوا اور وہ یہ کہ آپ نے ام المؤمنین حضرت سلمہ رضی اللہ عنہا کا دودھ پیا ہے، وذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشآئ۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

تفصیل اس کی کچھ یوں ہے کہ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کی والدہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی آزاد کردہ باندی تھیں بعض دفعہ وہ کام کے سلسلے میں کہیں چلی جاتیں تو حضرت حسن رحمہ اللہ روتے۔ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا آپ کو اپنے سینے سے لگاتیں۔ اسے قسمت کی یاوری کہئے یا حضرت حسن کی کرامت کہ بعض دفعہ ام المؤمنین کے سینے میں دودھ اُتر آتا اور حضرت حسن بصری رحمہ اللہ اسے پی لیتے، چنانچہ لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت حسن بصری(رح) کو فصاحت وبلاغت اور حکمت، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے دودھ کی برکت کی وجہ سے ملی ہے۔﴿طبقات ابن سعد، البدایہ والنہایۃ،یراعلام النبلائ﴾

حضرت حسن بصری کا علم
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میںکھیلے کودے ہیں ، بیسیوں صحابہ نے پیار سے انہیں چوما ہے اور دعائیں دی ہیں۔ جب بچے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر کئے گئے حضرت نے دعا دی ’’اللہھم فقھہ فی الدین‘‘ اے اللہ اسے دین میں سمجھ عطا فرما۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر کبارصحابہ سے علم حاصل کیا بلکہ یوں کہئے پی لیا۔ اس زمانے کے تمام بڑے علمائ آپ کے علمی تبحر کے معترف، آپ کی جلالت شان پر متفق اور آپ کے علمی و عملی کمالات کی مدح سرائی میں رطب اللسان نظر آتے ہیںبعض نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ صحابہ آپ سے صرف ’’شرف صحابیت‘‘ میں آگے بڑھے ہیں اور بس ۔﴿سیر اعلام النبلائ﴾

آپ کی علمی مجلسیں
آپ کی علمی مجلسیںبڑی پر بہار اور پر رونق ہوتی تھیں طلبۂ حدیث، حدیث لینے کیلئے آتے تھے تو فقہائ شریعت کی گھتیاں سلجھا نے کے لئے آپ کے درپر حاضری دیتے تھے۔ ادب و شعر والے اپنی مطلب براری کے لئے اور تفسیر والے کتاب اللہ کے سمندر سے موتی حاصل کرنے کے لئے آپ کے درکا رُخ کیا کرتے تھے ۔﴿سیر اعلام النبلائ﴾

آپ کا تبحرعلمی
یوں تو جیسا کہ عرض کیا گیا تمام علمائ آپ کے تبحر علمی میں رطب اللسان نظر آتے ہیں۔ لیکن یہاں پر صرف ایک قول نقل کیا جاتا ہے جس سے آپ کے تبحرعلمی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

حضرت ربیع بن انس رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں لگ بھگ دس سال تک حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کے پاس آتا رہا ہر روز میں آپ سے جدید علم سنتا تھا جو اس سے قبل میں نے نہیں سنا ہوتا تھا۔﴿سیر اعلام النبلائ﴾

اس پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ اہل علم بآسانی دیکھ سکتے ہیں کہ یہ کس قدر ٹھاٹیں مارتا ہوا سمندر ہے۔ اس لئے آپ کے تمام سوانح نگار اس بات پر متفق ہیں کہ ’’ کان امام اھل زمانہ‘‘ آپ اپنے زمانے میں تمام لوگوں کے امام تھے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے جب کوئی مسئلہ دریافت کرتا تو آپ کا حوالہ دیتے اور فرماتے ’’ سلوا عنھا مولانا الحسن ‘‘ اس مسئلے کے بارے میں ہمارے حضرت حسن سے پوچھ لیں ۔

آپ کی مجلس میں آپ کے سامنے ان جبال علم نے زانوئے تلمذ تہہ کئے جن کے علم و فضل کا دنیا بھر میں ڈنکا بجتا تھا۔

گویا آپ اپنے زمانے کے شیخ المشایخ، مفتی اعظم، شیخ الاسلام، محقق دوران، برکۃ العصر اور امام العصر سب کچھ تھے ﴿یہ اور بات ہے کہ اس زمانے میں القابات کا خزانہ دریافت نہیں ہوا تھا﴾ مگر بایں ہمہ علم وفضل آپ نے جہاد سے گہری وابستگی رکھی ، اور اپنے زمانے کے سب سے بڑے بہادر تسلیم کئے گئے۔

حسن بصری اور جہاد
آپ کے تمام سوانح نگاروں ﴿علامہ ذہبی، حافظ سیوطی، حافط ابن کثیر اور خیر الدین زرکلی وغیرہ حضرات﴾ نے آپ کے جہاد اور بہادری کا تذکرہ کیا ہے مگر ہمارے ہاں آپ کی زندگی کا یہ پہلوپس پردہ چلا گیاہے۔ چنانچہ علمی لحاظ سے آپ کا نام پڑھنے اور سننے میں آتا ہے، تصوف میں بھی آپ کا مقام بتایا جاتا ہے لیکن آپ کے جہاد کے تذکرے کو نظر انداز کیا جاتا ہے حالانکہ جہاد آپ کا محبوب مشغلہ تھا اور اس میں آپ نے کمال حاصل کیا تھا۔

صافظ ذہبی تذکرۃ الحفاظ میں آپ کے بارے میں قمطراز ہیں۔ ’’ ثم کبر ولازم الجھاد ولازم العلم والعمل وکان أحد الشجعان الموصوفین یذکر مع قطری بن الفجآئۃ‘‘
ترجمہ: ’’ پھر آپ بڑے ہوئے اور جہاد کو لازم پکڑا اور علم وعمل کو لازم پکڑا ،اور آپ ان بہادروں میں سے ایک تھے جن کی تعریف کی جاتی ہے۔ ﴿شجاعت وبہادری میں﴾ آپ کو قطری بن الفجائ ۃ ﴿جس کو بہادری اور چستی کی وجہ سے آسمانی بجلی کہا جاتا تھا﴾ کا ہم پلہ قرار دیا جاتا تھا اس کے ساتھ آپ کا تذکرہ ہوتا تھا۔
علامہ ذہبی رحمہ اللہ کی اس عبارت میں دوچیزوں پر خصوصی غور کریں
۱﴾ آپ نے حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کے جہاد کا تذکرہ، علم سے پہلے کردیا۔
۲﴾ آپ کے جہاد کے لئے ’’جاھد‘‘ کا لفظ نہیں بلکہ ’’لازم الجھاد‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔
اور سیر اعلام النبلائ میں فرماتے ہیں ’’ وکان کثیر الجھاد‘‘ آپ رحمہ اللہ زیادہ جہاد کرنے والے تھے۔

فتوی موقوف کرکے جہاد
سلیمان تیمی فرماتے ہیں: ’’ وکان الحسن یغزو وکان مفتی البصرۃ جابر بن زید أبو الشعثائ، ثم جآئ الحسن فکان یفتی‘‘

حسن ﴿بصری﴾ جہاد میں مصروف تھے اور جابر بن زید بصرہ کے مفتی تھے ﴿حضرت حسن بصری کی غیر موجودگی میں﴾ پھر حسن بصری تشریف لائے اور اس کے بعد وہی فتوی دیتے تھے۔ ﴿سیر اعلام النبلائ﴾
یہ بھی واضح رہے کہ جس زمانے میں حضرت حسن بصرری رحمہ اللہ جہاد کے لئے تشریف لے گئے تھے اس زمانے میں مسلمانوں کا کوئی علاقہ کفار کے قبضے میں نہیں تھا ، قبضے میں کیا ہوتا کفار نے کسی علاقے پر قبضے کیلئے کہیں جنگ بھی نہیں چھیڑی تھی بلکہ کفار اپنے ممالک کو بچانے کے لئے ہاتھ پائوں مار رہے تھے۔ نیز یہ بھی واضح ہو کہ اس زمانے میں مجاہد ین کی بھی کمی نہیں تھی۔

جہاد حج پر مقدم
صحابہ و تابعین وتبع تابعین کے زمانے میں حج کا خاص ذوق تھا۔ اس زمانے میں چار چار، پانچ پانچ بلکہ چالیس چالیس حج کرنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں تھی۔ مگر حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے صرف دو حج کئے اس کی کیا وجہ ہے؟

اس کے جواب کے لئے ابو عبید آجری کی بات سنتے ہیں وہ ابوداود سے روایت کرتے ہیں کہ ’’لم یحج الحسن الا حجتین و کان یکون بخراسان‘‘یعنی حسن بصری نے صرف دوحج کئے ﴿زیادہ اس لئے نہیں کئے کہ﴾ وہ خراسان ﴿افغانستان﴾ میں ﴿مصروف جہاد﴾ ہوتے تھے۔﴿سیر اعلام النبلائ﴾

پھر اسی سے متصل آپ(رض) کی بہادری کا تذکرہ کیا ہے کہ بہادری میں آپ قطری بن فجارۃاور مہلب بن ابی صفرہ کے ہم پلہ تھے۔

ہم پلہ کیا تھے بلکہ ان دونوںبہادروں سے بڑھے ہوئے تھے ہشام بن حسان کا بیان ہے ’’ کان الحسن أشجع أھل زمانہ‘‘ کہ حضرت حسن اپنے زمانے میں سب سے زیادہ بہادر تھے۔

تنبیہ: بہادری کچھ تو فطری ہوتی ہے اور کچھ کسبی ، اور پوری بہادری ان دونوں کے ملانے سے حاصل ہوتی ہے۔ محض فطری بہادری سے کوئی بھی انسان جنگوں میں اپنے دشمن کو زیر نہیں کرسکتا۔

سوال: بہادری کسبی کیسی ہوتی ہے؟
جواب:تدریب جہاد کر کے اور بہادروں کے ساتھ رہنے اور جنگوں میں شرکت کرنے سے حاصل کی جاسکتی ہے۔

جہاد زابل و کابل
حضرت عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں اہل اسلام کا جو لشکر خراسان کی طرف آیا اور جس نے کابل کو فتح کرکے ہی دم لیا اس میں آپ رحمہ اللہ بھی شامل تھے اور تین سال تک اس لشکر کے ساتھ مصروف جہاد رہے اس اثنائ میں آپ نے زابل ، غور، فراہ، غزنی اور کابل وغیرہ کی مہمات میں حصہ لیا۔﴿طبقات ابن سعد﴾

کمانڈر حسن بصری
آپ کی بے پناہ جنگی صلاحیتوں کی وجہ سے مہلب بن ابی صفرجیسے بہادر شہسوار کمانڈر جب مشرکین سے لڑتے تھے تو مقدمۃ الجیش آپ کے سپرد کرتے تھے۔﴿سیر اعلام النبلائ﴾

حق گوئی وبیباکی
آپ رحمہ اللہ اس میدان کے بھی ایک جری عالم تھے، حجاج جیسے انسان کو جس کی تلوار ہر وقت مصروف گردن زدنی رہتی تھی آپ نے ببانگ دہل مردوں کی طرح للکار، وقت اور جگہ کی کمی کی وجہ سے تفصیل پیش کرنے کا موقع نہیں۔
usama hammad
About the Author: usama hammad Read More Articles by usama hammad: 22 Articles with 45530 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.