ہمارے ہاں ایک دوکے سوا ہرادارے
میں سیاست،بدعنوانی اوربدانتظامی زوروں پرہے ۔میرے نزدیک ہروہ کام جوحضرت
انسان کواپنے معبوداللہ تعالیٰ اوراس کے دین فطرت سے دورکردے وہ حلال اورحق
نہیں بلکہ حرام اورباطل ہے ۔کسی جائزیاناجائز کام کیلئے نقد رقم کی صورت
میں رشوت دینایا وصول کرنا ہی حرا م نہیں بلکہ اپنے گھروں،کارخانوں
اورکھیتوں کیلئے بجلی ،گیس اور پانی چوری کرنا بھی سوفیصد حرام ہے ،ڈیوٹی
اوقات کے دوران فرض کی بجاآوری میں غفلت یاخیانت حرام ہے۔کسی کے ساتھ تعصب
سے پیش آنا، پسند ناپسند کا مظاہرہ کرنااورحقائق چھپانا جائز نہیں ۔سرکاری
سہولیات یامراعات کااپنی ذات اوراپنے خاندان کیلئے غلط استعمال بھی حرام ہے
۔بدقسمتی سے ہم نے حلال اورحرام کامعیار بدل لیا ،اب لوگ غلطی یاگناہ کرکے
شرمندہ تک نہیں ہوتے بلکہ دوسروں کے ساتھ شیئراورانجوائے کرتے ہیں ۔رشوت کے
سدباب کیلئے بنایا گیا ادارہ اینٹی کرپشن بذات خود کرپشن کاگڑھ یعنی'' آنٹی
کرپشن'' بن گیا۔ہم بحیثیت قوم گوڈے گوڈے بدعنوانی کے جوہڑمیں دھنسے ہوئے
ہیں ۔پاکستان میں معمولی چوروں کو کال کوٹھڑی میں سڑنے کیلئے چھوڑدیا جاتا
ہے جبکہ بڑے بڑے ٹیکس چوراورکروڑوں اربوں کاقرض ڈکارنے والے سرمایہ
داراقتدار کے ایوانوں میں دندناتے پھرتے ہیں۔عوام ان بڑے چوروں کو بار
بارمنتخب کرتے ہیں اورنتیجتاً کرپشن مافیا کی اقتداراورقومی وسائل پرگرفت
مزید مضبوط ہوجاتی ہے ۔جس وقت تک امیدواروں کومنتخب کرنے کے حوالے سے عوام
کامائنڈسیٹ تبدیل نہیں ہو گااس وقت تک معاشرے سے کرپشن ختم نہیں ہوگی ۔اگرحکمران
ایمانداراورفرض شناس ہوگاتویقینا معاشرے میں ایمانداری فروغ پائے گی۔
ہم ایک دوسرے کواستعمال کرتے کرتے اورایک دوسرے کاراستہ روکتے روکتے معاشرے
اورمعاشرتی اقدارکابیڑا غرق کرتے چلے جارہے ہیں۔ہمارے گردوپیش میں ہرکوئی
کچھ نہ کچھ بیچ رہا ہے ،کسی نے علم اورمادرعلمی کاتقدس نیلام کردیا ،کوئی
جسم فروشی میں بہت دورنکل گیا توکوئی اپنے قلم کی قیمت وصول کررہا ہے۔سیاست
اورتجارت سے تعلق رکھنے والی نا م نہاداشرافیہ نے بھی اپنے اپنے ضمیر نیلام
گھرمیں سجائے ہوئے ہیں صرف درست قیمت لگانے کی دیر ہے۔ہرطرف رشوت کابازار
گرم ہے ،جس کسی کابس چلتا ہے وہ کوئی کسر نہیں چھوڑتا لیکن کاش دوسروں
پرانگلی اٹھا نے والے اپنے گریبان میںبھی جھانک لیا کریں۔ہمارے معاشرے میں
ہرکوئی اپنے حقوق کی بات توکرتاہے مگرکسی کواپنے فرض کی بجاآوری کاادراک
اوراحساس تک نہیں ہے ۔ہمارے ہاں کبھی کبھی انتقام دوسروں کوبدنام کرکے بھی
لیا جاتا ہے اور بدنامی کے معاملے میں پولیس والے سے سب سے زیادہ معتوب
اورمظلوم ہیں کیونکہ ہمارے ملک میں ہرشعبہ میں طبقاتی نظام رائج ہے ۔اس ملک
میںجوقانون کمزورپربجلی بن کرگرتا ہے وہ طاقتور کی دہلیزپرسجدہ ریزرہتاہے ۔پولیس
بظاہر ایک بڑا طاقتوراورمنظم ادارہ ہے مگراس کی ڈوریں حکمرانوں کے ہاتھوں
میں ہیں جواپنے ووٹرز کے ساتھ بھی ''سیاست''کرنے اورسیاست کھیلنے سے
بازنہیں آتے ۔یہ خود پولیس سے شہریوں پرتشدد ،ان کیخلاف مقدمات درج کراتے
ہیں اورپھراپنے ہاتھوں سے ان کے زخموں پرمرہم بھی رکھتے اوران کی رہائی
کاانتظام کرتے ہیں۔ فوجی یاجمہوری دورحکومت میں پولیس حکام کبھی
خودمختاراوربااختیار نہیں رہے بلکہ ا ن کی ٹرانسفرپوسٹنگ طاقتورسیاستدانوں
کے رحم وکرم پرہوتی ہے لہٰذا انہیں اپنے بااثر آقاﺅں کے جائزناجائز احکامات
ماننا پڑتے ہیںاوراس آڑ میں بسااوقات وہ اپنے بھی کچھ ناجائز کام کرگزرتے
ہیں۔آئے روزجعلی پولیس مقابلے بھی ہماری پولیس فورس کی منفی شہرت اوردہشت
کاسبب بنتے ہیں لیکن یہ بھی ''اوپر''سے آنیوالے احکامات اورایک پالیسی کے
تحت ہوتے ہیں ۔میری اطلاع کے مطابق گلبرگ لاہورمیں ہونیوالاحالیہ پولیس
مقابلہ جعلی نہیں تھا تاہم اس کی بلکہ ہرپولیس مقابلے کی جوڈیشل انکوائری
ضرورکی جائے ۔ کوئی مہذب معاشرہ ماورائے عدالت کشت وخون کامتحمل نہیں
ہوسکتا۔شہریوں کی پولیس پر بداعتمادی اور بدگمانی کے اسباب ومحرکات غورطلب
ہیں تاہم نفرت سے کسی انسان کی فطرت نہیں بدلی جاسکتی۔جہاں پولیس میں
خامیاں ہیں وہاں شہریوں میں بھی کئی کوتاہیاں ہیں دونوں طرف سے رویہ بدلنا
ہوگا۔پولیس آفیسراوراہلکارکسی اورسیارے سے نہیں آئے بلکہ ہم سے اورہمارے
اپنے ہیں ۔کیا میں اورآپ یوں سماج دشمن عناصرکی گولیوں کاسامنا اورمقابلہ
کرسکتے ہیں جس طرح پولیس اہلکار شہریوں کی حفاظت کیلئے سردھڑ کی بازی لگاتے
ہیں۔ماہانہ بیس تیس ہزارتنخواہ یاشہادت کی صورت میں تیس لاکھ کیلئے کوئی
موت کے منہ میں نہیں جاتا بلکہ یہ ایک جذبہ ہے جوہرکسی میں نہیں ہوتااس
جذبہ کوسراہاجائے۔
پولیس پربداعتماد ی کاایک بڑاسبب کمزوراورناقص تفتیشی نظام کے نتیجہ میں
عدالت سے ملزمان کاچھوٹ جانا بھی ہے ۔ہمارے ہاں زیادہ ترواقعات کی ایف آئی
آردرج کرواتے وقت نوے فیصد جھوٹ کاسہارا لیا جاتا ہے اورظاہرہے اس جھوٹ
کافائدہ ملزمان اٹھاتے ہیں ۔عدالت میں گواہان اورشواہد کی بنیاد پرفیصلہ
ہوتا ہے ،بیشتر مقدمات میں گواہان منحرف ہوجاتے ہیں جبکہ شواہدکمزوریاجعلی
ہوتے ہیں لہٰذا اگرفرضی گواہان کی بجائے سوفیصد سچائی اورٹھوس
شواہدپرانحصارکیا جائے توملزمان کی رہائی کے امکانات نہ ہونے کے برابررہ
جاتے ہیں۔گواہان منحرف ہوسکتے ہیں مگرشواہد کوتبدیل کیایاجھٹلایا نہیں
جاسکتا۔پولیس بھی مدعی اورگواہان پرغیرضروری انحصار اوراعتماد کرنے کی
بجائے واردات اورواقعات کے ٹھوس شواہد پرفوکس کرے ۔ایک بھی ایف آئی
آرواردات کی ایماندارانہ ابتدائی تفتیش اورتصدیق کے بغیردرج نہ کی جائے
توبوگس مقدمات درج کرانے کے رجحان کوکافی حدتک روکاجاسکتا ہے کیونکہ جھوٹی
ایف آئی آر درج کرانے سے صرف دوافرادنہیں بلکہ دوخاندانوں کے درمیان دشمنی
پرورش پاتی ہے اورکئی بیگناہ لوگ مارے جاتے ہیں۔پولیس کواپناوقاراوراعتماد
بحال جبکہ مورال بلندکرنے کیلئے تفتیشی نظام میںعہدحاضر کے مطابق
جدیدتبدیلیاں کرناہوں گی ۔ہم پاکستان کی پولیس کاامریکہ یابرطانیہ کی پولیس
کے ساتھ موازنہ نہیں کرسکتے کیونکہ امریکہ اوربرطانیہ دونوں ترقی یافتہ
اورفلاحی ریاست ہیں جہاں بیروزگاروں ،معذوروں اورناداروں کی ضروریات
کابھرپورخیال رکھا جاتا ہے جبکہ ہمارے ہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ بیروزگاراپنی
ضروریات کیلئے ڈاکے مارنے اورمجرمانہ سرگرمیوں کاحصہ بننے پرمجبور ہیں۔ان
ملکوں میں کوئی حکمران یاسیاستدا ن پولیس سسٹم میںمداخلت کاتصوربھی نہیں
کرسکتا جبکہ ہمارے ہاں پولیس کواپنا وفادارغلام سمجھا اوراپنے مفادات کیلئے
استعمال کیا جاتاہے۔
حاجی حبیب الرحمن نے ایک ایماندار،فرض شناس اورمنجھے ہوئے پولیس آفیسر کی
حیثیت سے کئی اہم عہدوں پرکام کیا ہے۔آئی جی پنجاب حاجی حبیب الرحمن نے
اپنے مختصردورمیں تھانہ کلچر کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ اپنے
آفیسرزاوراہلکاروں کامورال اورپیشہ ورانہ تربیت کامعیار بلند کیلئے کافی
سنجیدہ اوردوررس اقدامات اٹھائے امیدہے آنیوالے آئی جی اپنے پیشروحاجی حبیب
الرحمن کے اقدامات کی تقلیدکرے گا ۔حاجی حبیب الرحمن نے کبھی جعلی پولیس
مقابلوں کی حوصلہ افزائی یاخاموش حمایت نہیں کی کیونکہ ہم انسان ایک دوسرے
کی آنکھوں میں تودھول جھونک سکتے ہیں مگراللہ تعالیٰ سے اپنے گناہ یاجرائم
نہیں چھپاسکتے تاہم پولیس مقابلوں کے سلسلہ میں جوبھی آئی جی ہوگااس
پرانگلی ضروراٹھائی جائے گی ۔جوآفیسریااہلکارناجائزپولیس مقابلوں میں ملوث
ہیں انہیں روزمحشران کاحساب دیناہوگااوراُس وقت کوئی حکمران یاسیاستدان ان
کے کسی کام نہیں آئے گا۔حاجی حبیب الرحمن خودکوپنجاب کے سیاسی معاملات سے
دوررکھنے کی کوشش میں کافی حدکامیاب رہے ان کی ریٹائرمنٹ کے بعدیقیناانہیں
اچھے الفاظ میںیادکیا جائے گا۔حاجی حبیب الرحمن نے کئی بارمصلحت پسندی سے
کام لیا مگربحیثیت آئی جی پنجاب ان کاعہدمجموعی طورپرایک اچھادوررہا ۔حاجی
حبیب الرحمن آئندہ برس جنوری میں ریٹائرڈ ہورہے ہیں اوران کی رخصتی کے
بعدنیا آئی جی پنجاب کون ہوگا ،ظاہر ہے اس اہم پوسٹ کیلئے دوڑمیں شامل
ایڈیشنل آئی جی حضرات اپنا اپنازورلگارہے ہیںمگرباوثوق ذرائع کے مطابق
ایڈیشنل آئی جی قلب عباس سنیارٹی اورقابلیت کے اعتبار سے فیورٹ ہیں ۔اب
دیکھنا ہے نیا آئی جی پنجاب قابلیت کی بنیاد پرآئے گایا ارباب اقتدار کے
ساتھ قربت اوروفاداری دیکھی جائے گی۔اگر میرٹ کی بنیاد پرفیصلہ کیاگیا
توپھریقینا قلب عباس آئی جی پنجاب ہوں گے ۔قلب عباس ایس پی ہیڈکوارٹرلاہور
،ایس ایس پی لاہور ،ڈی آئی جی لاہور ،آئی جی موٹروے پولیس اورآئی جی اسلام
آبادبھی رہے ہیں ۔شہر اقبال ؒسے تعلق رکھنے والے قلب عباس نے ابھی تک شادی
نہیں کی اسلئے اپنے فرض کے معاملے میں کوئی دباﺅیاڈکٹیشن قبول نہیں کرتے ۔
کیپٹن (ر)قلب عباس مصلحت پسندنہیں ،وہ ایک دردمند انسان اور نڈرپولیس
آفیسرہیں ۔پاک فوج سے پنجاب پولیس میں آنیوالے بیشترآفیسرز بڑی جوانمردی
اورکمٹمنٹ سے کام کررہے ہیں اورفوج میں ہوئی تعلیم وتربیت ان کے بہت کام
آئی ہے۔ کیپٹن (ر)امین وینس بھی ان زیرک پولیس آفیسرزمیں سے ہیں جومجرمانہ
سرگرمیوں کے سدباب کیلئے ایک نیا ٹرینڈ لے کرآئے ،وہ نیک نیتی اور جنون کے
ساتھ کام کرتے ہیں۔ کیپٹن (ر)امین وینس کی قیادت میں پچھلے دنوں کامرہ ائیر
بیس پرحملے اوردریائے چناب کے نزدیک فوجی جوانوں کی شہادت میں مطلوب دہشت
گردوں کوجدیداسلحہ اوردھماکے میں استعمال ہونیوالے موادسمیت گرفتار کرکے
ماہ محرم میں پنجاب کوممکنہ تباہی سے بچالیاگیا،اس کامیابی پرکیپٹن (ر)امین
وینس اوران کے ٹیم ممبرز کومختلف طبقات کی طرف سے خوب دادملی ۔
تقریباً ہرشعبہ میں گندی مچھلیاں ضرورہوتی ہیں لیکن ڈسپلن کے علمبردار
ایڈیشنل آئی جی ملک خدابخش اعوان ،نیک نام ایڈیشنل آئی جی
ناصردرانی،دوراندیش ایڈیشنل آئی جی مشتاق سکھیرا،گریس فل سی سی پی
اولاہوراسلم خان ترین،پولیس فورس کے ایڈووکیٹ اورگجرانوالہ کے سمارٹ آرپی
او کیپٹن (ر)امین وینس ، شیخوپورہ کے دانااوردانشور آرپی او ذوالفقارچیمہ ،
ساہیوال کے متحرک اور منجھے ہوئے آرپی او مظہرفاروق خان ،انتھک اورخوش
اخلاق ڈی آئی جی سہیل خان،پولیس کالج چوہنگ کے زیرک اور دبنگ کمانڈنٹ ایس
ایس پی ڈاکٹرسلیمان سلطان رانا،مستعدسی ٹی اولاہورکیپٹن (ر)سہیل چودھری
،نوجوان اورپرجوش ایس پی گلدشت ملتان شعیب خرم جانباز ،تجربہ کارایس پی
گجرانوالہ چودھری ذوالفقاراحمد،عاطف حیات،مہراسلم ،حاجی عباس
،مستنصرعطاءباجوہ ،ذوالفقاربٹ،عاطف معراج کی کمٹمنٹ اورخدمات کودیکھ کراس
ادارے کے بارے میں سوچ بدل جاتی ہے بلاشبہ یہ آفیسرز پولیس فورس اورمعاشرے
کاقیمتی اثاثہ ہیں۔ عنقریب سی سی پی اولاہوراسلم خان ترین کوآئی جی
بلوچستان لگایاجاسکتا ہے اس صورت میں ذوالفقار چیمہ سی سی پی اولاہوربن
سکتے ہیں اورکیپٹن (ر)امین وینس کوگجرانوالہ سے تبدیل کرکے آرپی اوفیصل
آبادلگایا جاسکتا ہے۔ مجھے اورمیرے خاندان کو 2000ءمیں براہ راست پولیس
گردی کانشانہ بنا یاگیا مگراس کے باوجودمیں سمجھتا ہوںجہا ں بعض پولیس
آفیسرزاوراہلکاروں کی زیادتیاں ناقابل برداشت اورناقابل معافی ہیں وہاں
سماج دشمن عناصرکی سرکوبی اورمعاشرے میں قیام امن کیلئے پولیس فورس کی
کمٹمنٹ اورقربانیاں بھی ناقابل فراموش ہیں۔شہریوں کی مدداوران کے
بھرپورتعاون کے بغیرکسی ملک کی پولیس فورس ڈیلیور نہیں کرسکتی ۔ |