بدامنی کی وجہ سے عوام ذہنی مریض
بن گئے ہیں ۔غیرجانبدارانہ ،منصفانہ انتخابات ہی تمام مسائل کاحل ہیں۔کارکن
عام انتخابات کی تیاریاں کریں ۔آپ کو کیا لگا یہ ساری باتیں میں کررہاہوں
ارے نہیں بھائی یہ کہنا ہے جے یوآئی کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمٰن
کا۔انہوں نے گزشتہ روز اپنی پارٹی کے رہنماؤں سے خطاب کرتے ہوئے مزیدکہا کہ
سیاست دان گزشتہ نعروں پر عمل نہیں کرسکے جس کی وجہ سے عوام نعروں کی سیاست
سے بیزار ہوچکے ہیں ۔حکومت نے سب اچھا کی رٹ لگارکھی ہے لیکن مسائل کم ہونے
کی بجائے بڑھتے ہی جارہے ہیں ۔مولاناصاحب نے مزید کہا کہ مہنگائی نے عوام
کا جینا محال کردیاہے اور بدامنی کی وجہ سے عوام ذہنی مریض بن گئے ہیں‘‘میں
مولانا کی بات کے ساتھ 100فیصد اتفاق کرتاہوں کہ مسلسل بدامنی نے عوام کو
ذہنی مریض بنا دیا ،اور مہنگائی کی وجہ سے غریب عوام کا جیناہی نہیں مرنا
بھی مشکل کردیاہے ۔وہ اس لیے کہ کفن دفن پربھی لواحقین کاخرچہ ہوتا ہے اور
پھر افسوس کرنے کیلئے آنے والوں کو چائے پانی پلانے کے لیے پیسوں کی ضرورت
ہوتی ہے ۔جہاں تک بات ہے صاف شفاف اور منصفانہ انتخابات کی وہ بھی مولانا
صاحب نے درست کہا کہ غیرجانبدارانہ انتخابات کے ذریعے ہی ایسے لوگ منتخب
کئے جاسکتے ہیں جو تمام مسائل کو حل کرنے کی مہارت رکھنے کے ساتھ ساتھ عوام
کے ساتھ مخلص بھی رہیں ۔مولانا کی تمام باتوں سے میرااتفاق ہے لیکن پھر بھی
ذہن میں کچھ سوالات اُٹھتے ہیں جن کے جوابات تلاش کرنا بہت ضروری ہیں ۔اگرملک
میں پھیلی بدامنی نے صرف عوام کو ذہنی مریض بنایا اور حکمرانوں سمیت تمام
سیاست دان جن میں مولانابھی شامل ہیں کوکچھ فرق نہیں پڑا تو کیا عوام یہ
سوچنے پر مجبور نہیں کہ سیاست دان ملک و قوم کے ساتھ مخلص نہیں ؟اگر
پاکستان کے عوام اس قدر غریب ہیں کہ ان کا جینا محال ہے تو پھر پاکستان کے
سیاستدان اس قدر امیر کس طرح بن گئے جبکہ ملک توایک ہی میں رہتے ہیں؟سیاست
دان امیرترین ہیں اور عوام غریب ترپھر بھی سیاست دان کہتے ہیں کہ وہ عوام
کی امنگوں کے ترجمان ہیں ،عوام کے حقوق کی جنگ لڑرہے ہیں ،عوام کے ساتھ
ہمارارشتہ بہت گہرا ہے ،عوام ہمارا ساتھ دے تو عوام کی تقدیر بدل دیں
گے،اقتدار میں آکرعوام کوایک نیا پاکستان دیں گے،قائداعظم نے پاکستان بنایا
تھاہم پاکستان بچائیں گے اور پتا نہیں کیا کیا کہتے ہیں سیاست دان ۔سوال یہ
کہ عوام کس طرح سچ مان لیں ان باتوں کو؟ایک بات تو بالکل ہی سمجھ میں8 نہیں
آتی جب سے ہوش سنبھالا ہے سیاست دانوں کو یہی کہتے سنا ہے کہ ہم پاکستان کو
بچائیں گے ۔کیا پاکستان کسی کبوتر کانام ہے جسے یہ لوگ بلی سے بچائیں گے ؟کیا
پاکستان کسی مرغی کے بچے کانام ہے جس کوا یا چیل یاپھر بلی شکار کرلے گی ؟
اگر ان تمام سوالات کے جوابات منفی ہیں تو پھرعوام کا یہ سوچناکہ جمہوریت
سے تو آمریت ہی اچھی زیادہ غلط تو نہیں ہے۔جیسا کے لوگ اب ضیاء الحق اور
پرویزمشرف کو یاد کرتے ہیں۔کچھ اسی طرح کے خیالات کا اظہار عبدالستارایدھی
نے بھی کیا ہے ۔جس اخبار میں مولانا کا بیان شائع ہوا اسی میں عبدالستار
ایدھی کا بیان بھی شائع ہواجس میں ایدھی صاحب نے کہا کہ ’’جمہوریت اچھی چیز
ہے لیکن ملک کو مارشل لاء کی ضرورت ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ وڈیروں ،جاگیرداروں
اور سرمایہ داروں نے ملک کا بیڑا غرق کردیاہے،دولت کی منصفانہ تقسیم کے
بغیر غربت ختم نہیں ہوسکتی۔قارئین محترم ذاتی طور پر میں تو جمہوریت کا ہی
حامی ہوں مجھے لگتا ہے کہ بری سے بری جمہوریت بھی آمریت سے سو درجہ بہتر ہے
لیکن ہوجمہوریت اجارہ داری نہیں ۔میں مایوس تو نہیں لیکن مجھے نہیں لگتا کہ
موجودہ سیاست دانوں میں کوئی اس قابل ہے کہ ملک و قوم کے مسائل کا بہتر حل
نکال سکے ۔کیونکہ یہ سارے کے سارے وہ وڈیرے ہیں جو اپنے جانوروں کو جان
بوجھ کر غریب کے کھیت میں چھوڑ دیتے ہیں اور اوپر غریب کسان کو ڈانٹتے بھی
ہیں ۔ان کے لیے پاکستان بھی غریب کا کھیت ہی توہے۔جب چاہیں غریب کی کھیتی
کاٹ لیں ،جب چائیں جلا دیں اور جب چاہیں سیلاب کے پانی میں بہا دیں ۔آج
غریب عوام کوجتنی بھی مشکلات درپیش ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی حکمران طبقے
کے لیے پریشانی کی وجہ نہیں ہے ۔اسی لیے ملک میں پھیلی مسلسل بد ترین
بدامنی نے صرف غریب عوام کو ہی ذہنی مریض بنایا ہے حکمرانوں کو نہیں- |