صدر زرداری بے نظیر بٹھو کے وعدے کو ایفا نہ کر سکے

بے نظیر بٹھو کی پانچویں برسی اور ذرداری حکومت کا بے نظیر کے وعدے کو فراموش کرنا ؟

دسمبر میں بے نظیر بٹھو کے بیہمانہ قتل کے پانچ سال پورے ہوگئیے تو دوسری طرف بے نظیر بٹھو کے نام پر ووٹ حاصل کرنے والی پی پی پی حکومت و ذرداری کے بھی پانچ سال مدت اقتدار پوری ہونے کو ہے۔ پانچ سال گزرنے کے باوجود اگر ایک طرف بے نظیر بٹھو کے بیہمانہ قتل کے ماسٹر مائنڈ اور ملوث نیٹ ورک کو اب تک سزا نہ دی جاسکی تو دوسری طرف بے نظیر بٹھو کے وعدوں کو بھی پس پشت ڈال کر ان کے شروع اور اور اعلان کردہ بعض منصوبوں پر اب تک عمل درآمد نہ ہو سکا، یہاں اس کی ایک جھلک برسر اقتدار حکمران ذرداری حکومت اور عوام کے لئے دیا جا رہا ہے۔

پاک افغان بارڈر پر واقع وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات یا فاٹا جو سن اسی کے عشرے میں افغانستان پر روسی قبضے اور پھر نائن الیون اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے بعد عالمی توجہ کا مرکز بنے ہیں،یوں تو مختلف حکمرانوں باالخصوص فوجی ڈکٹیٹروں نے فاٹا کو اپنے مقاصد اورذیادہ سے زیادہ ڈالرز کمانے کے لئے فاٹا کے عوام کو دنیا بھر کی نگاہ میں جنگلی و دہشت گرد کے روپ میں پیش کردیا تو دوسری طرف فاٹا اور یہاں کے قبائل کے نام پر حاصل کردہ مراعات اور پیکج کو فاٹا کے عوام پر خرچ کرنے کی بجائے حکمرانوں نے اپنے اپنے مفادات حاصل کرلئے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر فاٹا میڈیکل کالج کے حوالے سے بعض اوقات بحث جاری رہتی ہے،اس حوالے سے قارئین اور حکمرانوں بالخصوص پی پی پی کی اعلی قیادت بشمول صدر ذرداری وزیراعظم اور گورنر مسعود کوثر کی آنکھیں کھولنے کے لئے یہاں زمینی حقائق دئیے جارہے ہیں۔

فاٹا میڈیکل کالج کا منصوبہ سب سے پہلے سابق وزیراعطم اور شہید جمہوریت بے نظیر بٹھو نے اپنے دورہ کرم ایجنسی کے موقع پر کرم ایجنسی کے صدر مقام پاراچنار میں قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ بے نظیر بٹھو اور اس کے والد زوالفقار علی بٹھو نے فاٹا کے عوام کو ہرممکن وسائل فراہم کرنے کی کوششیں کی،اور تمام تر قبائلی علاقوں حتی کہ پاراچنار جیسے دوردراز علاقوں کے دورے کرکے ترقیاتی کام و نئے منصوبے شروع کرنے کے اعلان کئیے،لیکن بدقسمتی سے سول و ملٹری اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ نے فاٹا کے عوام کے لئے نئے منصوبوں پر عمل درآمد تو کیا بلکہ پہلے سے جاری منصوبے بھی بغیر کسی معقول وجہ سے ظلم و جبر پر مبنی پالیسیوں کے تحت ختم کروائے، جس کی ایک مثال بے نظیر بٹھو کی طرف سے پاراچنار کے لئے منظور شدہ پی آئی اے پروازوں کو کئی سال کامیابی سے چلنے کے باوجودبند کر دیا گیا ،حاالانکہ پی آئی اے کی یہی پروازیں چترال و گلگت جیسے دوردراز علاقوں کے لئے تاحال جاری و ساری ہیں۔ بے نظیر بٹھو اور زوالفقار علی بٹھو پاک افغان بارڈر پر واقع سٹرٹیجک و جغرافیائی اہمیت کے حامل جنت نظیر وادی کرم پاراچنار کی اہمیت سے اگاہ تھے، اور بارہا اپنے دورے کرکے اس علاقے کو سوئیڈذلینڈ سے تشبیہ دیتے تھے، چونکہ پورے فاٹا میں پاراچنار ہی واحد علاقہ ہے جو بیک وقت افغانستان کے چار صوبوں پکتیا،ننگرہار، خوست اور پکتیکا سے ملنے کے علاوہ افغانستان کے دارالحکومت کابل سے نذدیک ترین فاصلے پر واقع ہیں،(اس کا اندازہ دئیے ہوئے تصویر نقشے سے ہو سکتا ہے کہ فاٹا میڈیکل کالج کی پاراچنار میں قیام کیوں ضروری ہے) ۔

فا ٹا میڈیکل کالج کا منصوبہ پاراچنار میں شروع کرنے کی وجہ بھی شاید یہی تھا کہ میڈیکل کالج نہ صرف تعلیمی ادارہ بلکہ ماہر پروفیسرز و سپیشلسٹ ڈاکٹرز و سرجن کی آمد سے یہاں کے لاکھوں عوام کے ساتھ ساتھ سرحد پار افغانستان کے کروڑوں عوام بھی مستفید ہو سکتے ہیں۔اور یوں پاکستان افغانستان کے درمیان بردارنہ تعلقات کے قیام کے علاوہ پشاور کے ہسپتالوں پر بڑھتے ہوئے رش کو کم کیا جاسکتا ہے،کیونکہ پاراچنار اور اس سے متصل افغانستان سے روزانہ سینکڑوں مریض ماہر ڈاکٹرز کی خاطر پشاور کے مختلف سرکاری اور پرائیوٹ ڈاکٹروں ڈبگری گارڈن کے پرائیوٹ کلینکس کا رخ کرتے ہیں۔پاراچنار میں میڈیکل کالج کے قیام سے نہ صرف غریب قبائلی عوام بلکہ سرحد پار افغانستان کے غریب عوام کا پشاور پہنچنے تک تکالیف و مصائب کا خاتمہ ہو کر ان کے مشکلات و مصائب کم ہو کر مالی نقصان اور حتی کہ ایمرجنسی کی صورت میں قیمتی جانوں کا ضیاع (پشاور تک طویل ترین و دشوار گزار راستے کی وجہ سے کئی مریض راستے میں دم توڑ جاتے ہیں) روکا جاسکتا ہے۔ اسی وجہ سے بے نظیر بٹھو نے فاٹا میڈیکل کالج کے منصوبے کی جلد از جلد مطلوبہ جگہ پاراچنار میں تعمیر پر زور دیا، جس کے بعد آنے والے گورنروں نے اپنے اپنے دورہ پاراچنار میں اس منصوبے کا کریڈٹ اپنے لئے لینے کے لئے باقاعدہ طورپر منصوبے کی جگہ پاراچنار شہر سے باہر اپنی اپنی نام کی تختی تک لگوائی اور حتی کہ پاراچنار شہر میں واقع سرکاری گیسٹ ہاؤس شلوزان ہاؤس میں ہنگامی کلاسز شروع کرنے کی نوید تک سنائی گئی۔تاہم یہ اہم منصوبہ فاٹا میڈیکل کالج اب تک پاراچنار میں شروع نہ ہو سکا ۔ البتہ کئی سال بعد ایک بار پھر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی خبروں کی زینت ضرور بنا ہے۔

یہ بات پی پی پی کی موجودہ قیادت صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور وفاق کے زیرانتظام فاٹا کے ذمہ دار پی پی پی کے گورنر مسعود کوثر کے لئے ایک لمحئہ فکریہ سے کم نہیں کہ وہ سیاسی پوائینٹ سکورنگ کے لئے سابق وزیراعطم اور شہید جمہوریت بے نظیر بٹھو کو اپنی ہر تحریر وتقریر کا حصہ تو ضرور بناتے ہیں لیکن بے نظیر بٹھو کے اعلان کردہ منصوبے کو اپنی مظلوبہ جگہ پاراچنار میں شروع کرنے سے ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں،ایک وجہ شاید یہ ہو کہ پاراچنار کے باشعور طوری و بنگش قبائل نے طالبان کو پناہ نہ دے کر فاٹا و دیگر بندوبستی علاقوں سے حملہ آور طالبان کے خلاف مزاحمت کی اس لئے طالبان کی سرپرست قوتیں پاراچنار کے عوام کو سزا دینے کی خاطر پی آئی اے پروازوں کی طرح میڈیکل کالج کی سہولت بھی چھینا چاہتے ہیں۔ ایسی صورت میں پی پی پی کی اعلی قیادت صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور وفاق کے زیرانتظام فاٹا کے ذمہ دار پی پی پی کے گورنر مسعود کوثر کے لئے چھلو بھر پانی میں ڈوبنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں کیونکہ چند مہینے کی مہمان پی پی پی اگر اپنی لیڈر سابق وزیراعطم اور شہید جمہوریت بے نظیر بٹھو کے خواب اور قبائل سے کئے جانے والے وعدے و پیمان کو پانچ سال گزرنے کے باوجود پورا نہ کرسکیں تو پھر پی پی پی آنے والے انتخاباتمیں فاٹا کے عوام سے کس منہ پر وؤٹ دینے کا سوال کرے گی۔

سابق وزیراعظم اور شہید جمہوریت بے نظیر بٹھو کے نام پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرنے والے پی پی پی کی قیادت کو کم ازکم بے نظیر بٹھو کے روح سے تو وفا کرنا چاہئے وگرنہ وقت گزرنے کے ساتھ پھر نوبت ۔۔۔اب پچتھائے کیا ہوت جب چڑیاں چک گئی کھیت ۔۔۔۔۔  کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتا۔۔اسلئے پی پی پی کی قیادت فاٹا میڈیکل کالج کے حوالے سے مجرمانہ خاموشی و سردمہری کا خاتمہ کر کے قبائل کو اپنا جائز حق اور سابق وزیراعطم اور شہید جمہوریت بے نظیر بٹھو کے روح کومطمئن کرنے کی کوشش کریں،وگرنہ پھر بے اختیار حکومت کرنے کی بجائے مستعفی ہو کر عوام کی نظروں میں با ا ختیار بن جائیں۔
Sajid Hussain
About the Author: Sajid Hussain Read More Articles by Sajid Hussain: 14 Articles with 13797 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.