بریگیڈیئر (ر) چوہدری مظفر علی
خان زاہد
مشرقی پاکستان میں ”را“ کی سرگرمیوں کے چشم دید گواہ بریگیڈیئر (ر) چوہدری
مظفر علی خان زاہد (ستارہ جرات) نے 53فیلڈ رجمنٹ آرٹلری کی 1968ءسے نومبر
1971ءتک کمانڈ کی۔ بریگیڈیئر (ر) چوہدری مظفر علی خان زاہد نے 1970ءاور
1971ءمیں ہونے والے واقعات جن کے وہ چشم دید گواہ ہیں کو اپنی ڈائری میں
لکھتے رہے جو دستاویزی کتاب کی شکل اختیار کر گئی۔ ڈائری آف ایونٹس کے
حوالے سے بریگیڈیئر (ر) چوہدری مظفر علی خان زاہدکی تفصیلات مختصراً نذر
قارئین کی جاتی ہیں۔
میری یونٹ کو 57بریگیڈ گروپ کا ایک حصہ بنا کر ڈھاکہ میں تعینات کیا گیا
تھا۔ 53فیلڈ رجمنٹ آرٹلری سارے مشرقی پاکستان میں توپ خانے کی واحد رجمنٹ
تھی اس لئے مشرقی پاکستان بھر میں اسی رجمنٹ کی دو دو تین تین توپوں کو
ڈپلائی کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کے تقریباً تمام علاقوں
اور محاذوں پر جانے کا مجھے موقع بھی ملا اور خدمات بھی انجام دیں جن میں
مشرقی پاکستان میں سیلاب اور طوفان کی تباہ کاریوں سے متاثرین کو محفوظ
رکھنے کے لئے بھی کردار ادا کیا اور بحالی کے کاموں میں بھی ریلیف آپریشن
کیا۔ قومی اور صوبائی انتخابات کے دوران ڈھاکہ اور تانگیل کے اضلاع میں
ڈیوٹی بھی انجام دی۔
مشرقی پاکستان میں بھارت اپنا گھناﺅنا کھیل شروع کر چکا تھا۔ ”را“ نے پاک
بھارت سرحد کے ساتھ ”را“ اپنی تنصیبات اور خفیہ مقامات کو چھپا کر رکھنے کا
پورا انتظام کیا تھا۔ پاکستانی سکیورٹی فورسز کے لئے یہ مشکل تھا کہ وہ
مکتی باہنی کا سراغ لگا کر انہیں ڈھونڈ نکالے۔ مکتی فوج کا نام مکتی باہنی
رکھا گیا تھا۔
مکتی باہنی دراصل ایک کمانڈو فوج تھی۔ یہ زیادہ بنگالیوں پر مشتمل تھی۔ ان
باغی بنگالیوں کو بھارت کی سرزمین پر تربیت دی گئی اور اسلحہ و ہتھیار دے
کر مشرقی پاکستان بھیج دیا گیا۔
”را“ ہر ہفتے دو ہزار گوریلوں کو تربیت دے رہی تھی۔ آغاز میں ”را“ کے مکتی
باہنی کمانڈو گروپوں نے سلہٹ، کمیلا، چٹاگانگ، نواکھلی، میمن سنگھ اور
ٹونگیل کا ایک بڑا علاقہ آزاد کرا لیا تھا لیکن یہ کامیابی عارضی تھی
کیونکہ پاک فوج نے ان علاقوں میں سبقت حاصل کرلی تھی۔ مشرقی پاکستان کے
جیسور کے محاذ کے آگے کلکتہ میں مجیب نگر قائم کردیا گیا تھا جہاں سے
بھارتی حکومت کی زیر سرپرستی بنگلہ دیش کی جلاوطن حکومت نے بھی کام کرنا
شروع کردیا تھا۔ ہر طرح کی مشکلات کے باوجود پاکستانی فوج انتہائی جوش و
جذبے اور دلیری سے لڑی۔ جیسور کے محاذ پر پاکستان کے صرف چالیس فوجی جوانوں
نے دفاعی پوزیشن میں پانچ سو چالیس بھارتی فوجیوں کو واصل جہنم کیا تھا۔
مکتی باہنی کے غنڈوں کا کام پاک فوج کےخلاف کارروائیاں کرنا تھا اور مشرقی
پاکستان میں غیر بنگالیوں بالخصوص مغربی پاکستان کے لوگوں کی املاک کو
نقصان پہنانا اور انہیں قتل کرنا ان سرگرمیوں میں سرفہرست تھا۔ مکتی باہنی
کے ان غنڈوں کی سرکوبی کے لئے پاک فوج حرکت میں آئی تھی اور ان کےخلاف
کارروائی بھی کرتی تھی۔ مکتی باہنی کے ان غنڈوں کو بعض بنگالیوں نے اپنی
رہائش گاہوں میں چھپایا ہوا تھا اور انہیں مکمل تحفظ فراہم کرتے تھے۔
نتیجتاً پاک فوج کو سرچ آپریشن کرنا پڑتا تھا جو کہ پاک فوج کا فرض تھا۔پاک
فوج کی دہشت گردوں اور غنڈوں کےخلاف کارروائیوں کو ایک سازش کے تحت بڑھا
چڑھا کرپیش کیا گیا اور پاک فوج پر بے بنیاد الزامات لگائے گئے۔ ان الزامات
کا مقصد پاک فوج کے مورال کو ختم کرنا تھا حالانکہ مشرقی پاکستان میں مکتی
باہنی کے غنڈوں نے امن و امان کی صورتحال کو انتہائی ابتر کیا ہوا تھا۔
بنگالی طلبہ نے تنظیمیں بنا کر مختلف جگہوں پر چوکیاں قائم کرلیں تھی۔ یہ
چوکیاں فارم گیٹ، جناح کالج (شہید تتیومیر کالج) اور ریلوے سٹیشن پر قائم
کی گئیں۔ انہوں نے 14 مارچ 1971ءکو مغربی پاکستان کے میاں بیوی کو بھی
تلاشی نہ دینے پر قتل کردیا تھا۔ مشرقی پاکستان کی غازی پور اسلحہ فیکٹری
میں مغربی پاکستانیوں اور چینیوں کی زندگی کو خطرات لاحق تھے۔ ان کو بچانے
کے لئے فوج بھیجی گئی لیکن اس کو مکتی باہنی کے غنڈوں نے راستے میں روک لیا۔
اس صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لئے فوجی کارروائی کرنا پڑی۔ شیخ مجیب نے اس
معاملے کو غلط رنگ دے کر اچھالا اور فوج کےخلاف ایکشن لینے کا مطالبہ کیا۔
23مارچ 1971ءکو عوامی لیگ نے یوم پاکستان کو یوم مذمت کے طور پر منایا۔
پورے ڈھاکا کو بنگلہ دیش کے پرچموں سے بھر دیا گیا تھا۔ پاکستان کا پرچم
صرف صدارتی ہاﺅس پر لہرا رہا تھا۔ فیرورام اور ٹیگیل میں شدت پسندوں سے
نمٹنے کے لئے فوجی دستے بھیجے گئے۔ باغیوں کو پسپا کردیا گیا لیکن باغیوں
نے امکلاک کو کافی نقصان پہنچایا اور شواہد سے پتہ چلا کہ باغیوں میں
بھارتی فوج بھی شامل تھی۔ فوج نے مزید علاقوں ڈھاکا، اریچھ، نگر بری، پبنہ،
اشاروی، ناٹور، راج شاہی، بوگرا اور کشٹید میں باغیوں اور بھارتی فوج کو
نکال باہر کیا۔ یہاں پر مکتی باہنی کے غنڈوں نے امن و امان کو بہت خراب
کررکھا تھا۔ درحقیقت ان تمام واقعات میں بھارتی فوج پوری طرح ملوث تھی۔ ان
علاقوں سے بیدخل ہونے کے بعد مکتی باہنی نے دوسرے علاقوں میں لوٹ مار اور
قتل و غارت گری کا بازار گرم کردیا۔ مشرقی پاکستان جو سرسبز و شادابی کے
لئے مشہور تھا مکتی باہنی نے اس کو آگ اور راکھ میں بدل دیا۔ ہر علاقے میں
املاک کو نذر آتش کیا گیا لیکن اکثر ایسا ہوتا کہ آل انڈیا ریڈیو کوئی
جھوٹی من گھڑت خبر بی بی سی کے والے سے نشر کرتا اور وہی خبر بی بی سی آل
انڈیا ریڈیو کے حوالے سے دنیا میں پھیلا دیتی لیکن اس قسم کی افواہوں اور
جھوٹی خبروں کی پاکستانی حکومت کی طرف سے فوراً تردید نہ کی جاتی اور جب
تردید کی جاتی تو دنیا بھر کے لوگوں پر جھوٹی خبریں اپنا انمٹ اثر چھوڑ چکی
ہوتیں۔ ان خبروں نے غیر ملکوں میں رہنے والے بنگالیوں کو اپنے رشتہ داروں
کی زندگی کے بارے میں پریشان کردیا اور انہوں نے پاکستان کےخلاف مہم شروع
کردی۔
دوسری طرف پاکستانی فوج بھارت کی تربیت یافتہ مکتی باہنی کی مسلح مزاحمت کو
توڑتی، سڑکوں سے رکاوٹیں صاف کرتی، ٹوٹے پل بناتی، دور افتادہ علاقوں میں
پہنچیں تو وہاں قتل عام کے انسانیت سوز مظالم دیکھنے میں آئے۔ اجتماعی
قبرستانوں اور گڑھوں میں سے کتے لاشیں نکال کر نوچ رہے تھے۔ کمرے چھت تک
انسانی خون سے آلودہ ہیبت ناک منظر پیش کررہے تھے۔ خون لتھڑے کھلونے اپنے
معصوم مالکوں کی داستان الم سنا رہے تھے۔ ایسٹ بنگال رجمنٹ اور ایسٹ بنگال
رائفلز نے اپنے غیر بنگالی افسروں کو اور ان کے بال بچوں کو مار ڈالا تھا۔
واقعات کی ترتیب صاف بتاتی ہے کہ لوگ فوج سے نہیں مکتی باہنی قاتلوں سے
اپنی جانیں بچانے کے لئے بھارت کی سرحدوں کی طرف بھاگے۔ پاک فوج کی قتل و
غارت کی جو جھوٹی خبریں پھیلائی گئیں ان میں کوئی صداقت نہیں تھی لیکن ان
خبروں کے نتیجہ میں لوگوں میں خوف و ہراس پیدا ہو گیا۔ تاہم پاک فوج نے چند
ہفتوں کے اندر اندر بغاوت پر قابو پا لیا۔ مکتی باہنی نے غیر بنگالیوں کے
خون سے جس طرح ہولی کھیلی، حکومت پاکستان نے اسے خوف سے پردہ راز میں رکھا
کہ مغربی پاکستان میں رہنے والے مشرقی پاکستانیوں کی جانیں خطرے میں نہ پڑ
جائیں۔ اس طرح بلا شبہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی مگر دنیا میں
پاکستان کا امیج بالکل تباہ ہو کر رہ گیا کیونکہ فوجی کارروائی کو جو
اقتدار اعلیٰ کے احترام اور قانونی زندگی بحال کرنے کے لئے کی گئی تھی ”نسل
کشی“ معلوم ہونے لگی۔
ستم بالائے ستم بھارت نے مشرقی پاکستان سے بھاگ کر اس کی سرحدوں میں پناہ
لینے والوں کے مسئلہ کو دنیا میں بڑھا چڑھا کر بیان کیا حالانکہ ابتدائی
دنوں میں لوگ مکتی باہنی غنڈوں سے جان بچانے کے لئے بھارت چلے گئے تھے جو
بعد میں پناہ گزین پہنچے وہ زیادہ تر بھارتی پروپیگنڈہ کا نتیجہ تھے۔
25مارچ کے بعد بھارتی ایجنٹ مشرقی پاکستان کے بارڈرڈسٹرکٹ پر گھوم گھوم کر
لاﺅڈ سپیکر لے کر پروپیگنڈہ کررہے تھے کہ آپ لوگ بارڈر کے اس پار چلے جائیں
ورنہ پاکستانی فوج آپ کو تہ تیغ کر دے گی۔ خوف و ہراس پھیلایا گیا، یہی
نہیں نقد پیسے تقسیم کیے گئے، ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا گیا۔ ہندوﺅں کے گھر
جا جا کر انہیں ڈرایا گیا کہ جان کی خیر چاہتے ہو تو فوراً بھارت پہنچو۔
بھارت پناہ گزینوں کی تعداد میں زیادہ سے زیادہ مبالغہ آرائی کرنے لگا پہلے
کہا گیا کہ بیس تیس لاکھ پناہ گزین ہیں مگر پھر روزانہ دس لاکھ کا اضافہ
ہونے لگا حالانکہ مغربی بنگال میں یہ بات سب جانتے تھے کہ ان نام نہاد پناہ
گزینوں کی بھاری تعداد مشرقی پاکستان سے نہیں بلکہ کلکتہ اور اس کے قرب و
جوار سے اس بین الاقوامی امداد سے حصہ بٹورنے کے لئے پہنچ گئی تھی جو بھارت
کی اپیل پر مختلف حکومتیں دے رہی تھیں۔ بھارت نے ان پناہ گزینوں کے نام پر
خوراک اور دوسرا سامان حاصل کیا اور پاکستان کا بین الاقوامی امیج بھی خراب
کیا نیز پاکستان کو توڑنے اور بنگلہ دیش قائم کرنے کا راستہ بھی ہموار کیا۔
بقول ہنری کسنجر بھارت پناہ گزینوں کے سیل روان سے عاجز آنے کا شور تو
مچاتا رہا تھا مگر عملی طور پر اس کی تمام خواہش اور کوشش یہ تھی کہ یہ
سلسلہ رکنے نہ پائے۔ ظاہر ہے کہ چھاپہ مار دستوں کو تربیت دے کر مشرقی
پاکستان بھیجنے کا مقصد اس کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا کہ وہاں پر امن و
امان تہہ بالا رہے اور لوگ چین سے نہ بیٹھ سکیں۔ یحییٰ خان نے عام معافی کا
اعلان کیا تو بھی بھارت نے بے خانماں لوگوں سے گلو خلاصی حاصل کرنے کی
بجائے ان کی واپسی میں رکاوٹیں کھڑی کیں اور سیاسی حل کی شرط لگا دی اور
سیاسی حل بھی اپنی پسند کا جو بذات خود ایک پڑوسی ملک کی آزادی و خود
مختاری میں دخل اندازی کے مترادف تھا۔ اس سیاسی حل کی مزید تشریح کرتے ہوئے
وسط جون میں بھارتی وزیر اعظم نے واضح طور پر یہ کہہ دیا کہ ان کا ملک
بنگلہ دیش کی موت ہر گز قبول نہ کرے گا گویا صاف لفظوں میں ”بھارت آدھے
پاکستان کی بھینٹ مانگ رہا تھا“۔ بھارت نے مہاجرین کو پاکستان سے جنگ کے
لئے بہانے کے طور پر استعمال کیا۔ اگست 1971ءمیں بھارتی وزیر دفاع جنگ جیون
رام نے کہہ دیا تھا کہ ”مہاجرین مجیب الرحمان کے آزاد بنگلہ دیش بھیجے
جائیں گے، یحییٰ خان کے پاکستان نہیں“۔
جب 1971ءمیں بھارت نے ماحول کو اپنے حق میں سازگار بنا لیا تو پھر پاکستان
پر حملہ کردیا۔ مکتی باہنی جو پہلے ہی مشرقی پاکستان میں موجود تھی پاک فوج
کےخلاف برسرپیکار ہوگئی۔ اس طرح پاک فوج چاروں طرف سے گِھر گئی۔ بھارت نے
مشرقی پاکستان کو بالآخر 20 دسمبر 1971ءکو مغربی پاکستان سے الگ کردیا۔ اس
لحاظ سے یہ کسی صورت آزادی کی جنگ نہیں تھی بلکہ بھارتی مداخلت اور جارحیت
کے باعث پاکستان کے مشرقی حصے کو الگ کرکے بنگلہ دیش بنا دیا گیا۔ اب بنگلہ
دیش کی حکومت نام نہاد آزادی کی جنگ کی تقاریب منعقد کرکے غیر ملکی دوستوں
کو ایوارڈ سے نواز رہی ہے۔ اس کا واضح مقصد پاکستان اور پاک فوج کےخلاف
زہریلا پروپیگنڈہ کرنا ہے اور دوسری طرف پاکستان کے زخموں پر نمک چھڑکنا ہے۔
دراصل بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی اور بھارت کے دیگر حکمرانوں کو ایوارڈ
دینے سے واضح ہو جاتا ہے کہ بھارت کا مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں کس طرح
کا کردار تھا۔ پاک فوج دشمن کےخلاف اپنے ملک کے دفاع کے لئے لڑ رہی ہے۔ اس
پر بے بنیاد الزامات لگانا پاکستان دشمنی کی انتہاءہے۔ جنگوں کے دوران بعض
ایسے انفرادی واقعات ضرور رونما ہو جاتے ہیں جس کے الزامات فوج پر آتے ہیں
لیکن اس کا مطلب ہر گز نہیں کہ اس سے پوری فوج ہی گناہ گار ہوئی نہ ہی اس
میں کوئی حقیقت ہے کہ پاکستان کی تمام فوج بعض نامناسب واقعات میں ملوث تھی۔
جب مکتی باہنی کے غنڈوں نے پاک فوج کے خلاف حملے شروع کیے تو فوج کو جوابی
کارروائی کرنا پڑی۔ پاک فوج کا مورال کم کرنے کے لئے اس پر بے بنیاد
الزامات کی بارش کی گئی اور آج تک جاری ہے۔ یہ سب بھارت اور مشرقی پاکستان
میں اس کے حمایتی غداروں نے ایک منظم سازش کے تحت کیا اور پھر اپنا مذموم
مقصد حاصل کرلیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس سازش کا شکار بعض پاکستانی بالخصوص
نام نہاد دانشور اور صحافی بھی ہوگئے۔ جنہوں نے اس پروپیگنڈہ مہم میں بھارت
اور علیحدگی پسندوں کا ساتھ دیا اب جبکہ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حکومت
ان غیر ملکی دوستوں کو ایوارڈ سے نواز رہی ہے تو ان 15 پاکستانیوں کے نام
فہرست میں شامل ہونا انتہائی شرمناک ہے۔ درحقیقت یہ غداری کا اعتراف ہے کہ
ان پاکستانیوں نے اپنے مادر وطن کے ساتھ غداری کرتے ہوئے دشمن کا ساتھ دیا۔
یہ پاکستانی وطن عزیز کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں۔ پوری قوم کو ان بے
نقاب ہوئے نام نہاد دانشوروں کی مذمت کرنی چاہئے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ نام
نہاد دانشور ہمیشہ پاک فوج کےخلاف رہے اور پیروپیگنڈہ مہم کا حصہ ہیں۔ |