ابن صفی: شخصیت اور فن‘‘ کے موضوع پر سہ روزہ قومی سیمینار

بھارتی دارلحکومت نئی دہلی جامعہ ملیہ اسلامیہ اور اردو اکادمی دہلی کے اشتراک سے ’’ ابن صفی: شخصیت اور فن‘‘ کے موضوع پر سہ روزہ قومی سیمینار

۔14 تا 16 دسمبر منعقدہ سہ روزہ اجلاس کی کاروائی اور پیش کردہ مقالات کی مختصر رپورٹ: امین صدرالدین بھایانی، اٹلانٹا، امریکا

بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ اور اردو اکادمی کی مشتریکہ کاوشوں سے اردو جاسوسی ادب کے نابغہ ِروزگار مصنف جناب ابن ِصفی مرحوم پر 14 سے لیکر 16 دسمبر 2012ء تک ایک سہ روزہ قومی سمیناز کا بعنوان "ابن صفی" شخصیت اور فن" کا اہتمام کیا گیا۔

اس سیمینار کا افتتاحی اجلاس پہلے روز یعنی 14 دسمبر بروز جمعتہ المبارک، صبح 11 بجے سی-آئی-ٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی میں منعقد کیا گیا۔ اس اجلاس کے مہمان ِ خصوصی ہندوستانی حکومت کی وزارت برائے فروغ ِانسانی وسائل کے وزیر ِمملکت جناب جتن پرساد تھے جبکہ شیخ الجامعہ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی پروفیسر نجیب جنگ کرسی ِصدارت پر فائز ہوئے۔ مذید براں ہندوستان کے وزیر برائے خوراک و رسد ہارون یوسف اور ممتاز و معروف افسانہ نگار جناب سید محمد اشرف نے مہمانانِ اعزازی کے طور پر شریک تھے۔

اس افتتاحی اجلاس کا کلیدی خطبہ جامعہ ملیہ اسلامیہ ہی کے شعبہء اردو کے پروفیسر شمیم حنفی نےمرحمت فرمایا جبکہ اردو اکادمی کے وائس چیرمین پروفیسر اختر الواسع نے خیرمقدمی کلمات اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے صدر شبعہءاردو پروفیسر خالد محمود جو کہ سمینار کے کنونئیر بھی تھے، تعارفی کلمات پیش کیئے۔

راقم نے مذکورہ سیمینار کی تین روزہ کاروائی کی بھارت ہی کے متعدد اخبارات اور انٹرنیٹ پر موجود پورٹس کو یکجا کرکے ایک ایسی رپورٹ کی شکل دینے کی کوشیش کی ہے جسے پڑھ کر اس سہ روزہ سیمینار کی کاروائی اور اسمیں پڑھے جانے والے مقالات سےکسی حد تک آگاہی حاصل کی جاسکتی ہے۔

پروفیسر ایمریٹس، شبعہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، شمیم حنفی کا افتتاجی اجلاس میں پیش کردہ کلیدی خطبہ:۔

آرٹ اور ادب میں عوامی روایت شامل نہ ہو تو اظہار کے نئے پیرایے وجود میں نہیں آسکیں گے۔ کوئی بھی زبان صرف کلاسیکی ادب کے ذریعے قائم نہیں رہ سکتی جب تک کہ اس میں عوامی ادب نہ شامل ہو۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر ایمریٹس شمیم حنفی نے سہ روزہ قومی سمینارکے افتتاحی اجلاس میں کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ابن صفی کی شخصیت اور فن پر سمینار منعقد کرنا ایک جرأت مندانہ ا قدام ہے۔ اس طرح ابن صفی کے تخلیقی ادب کا احیا ہو رہا ہے ۔ ابن صفی نے تفریحی ادب کا جو معیار پیش کیا وہ بہت غیر معمولی ہے۔ اس سمینار سے ایک بیریر ٹوٹے گا اوراب مقبول ادب پر بحث کرنے کا وقت آگیا ہے۔ پروفیسر شمیم حنفی نے ابن صفی کی تحریرو ں پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب ۱۹۵۲ میں ان کا پہلا ناول ’’دلیر مجرم‘‘ شائع ہوکر مقبول ہوا تو ان کے ناولوں کو پڑھنے کے لیے لوگوں نے اردو سیکھنا شروع کر دیا۔

شیخ الجامعہ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، پروفیسر نجیب جنگ کا خطبہِ صدارت:۔

جناب نجیب جنگ نے افتتاحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا کہ ابن صفی کی تحریروں سے میں نے اردو زبان سیکھی اور ابن صفی کی تحریریں ہمارے لیے زاد سفر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ تقسیم کی وجہ سے اردو کو مسلمانوں کے ساتھ جو ڑ دیا گیا لیکن اب وہ حالات نہیں رہے بلکہ اردو زبان کے فروغ کے لیے سرکاری سطح پر بھی کئی اقدمات کیے جار ہے ہیں۔ وزیر مملکت برائے فروغ انسانی وسائل، حکومت ہند جناب جتن پرساد افتتاحی اجلاس میں بحیثیت مہمان خصوصی شریک ہوئے اوراپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ کے بارے میں بچپن سے سنتا چلاآرہا ہوں اور آج یہاں کی تہذیب وثقافت اور تعلیمی ماحول کو دیکھ کر بڑی خوشی محسو س ہورہی ہے۔ انھوں مزید کہا کہ میری کوشش ہوتی ہے کہ میں ان جگہوں پر جاؤں جہاں نئی فکر کے چشمے پھوٹتے ہیں اور جامعہ ملیہ اسلامیہ ان میں سے ایک ہے۔ ہندوستان کی تہذیب کی صحیح عکاسی مجھے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی تہذیب میں صاف نظر آتی ہے جہاں جمہوری نظریے کو اولیت حاصل ہے۔ پروفیسر عبدالحق نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک ایسے ادیب کو خراج عقیدت پیش کرنے اور اس کی تحریروں کو زندہ کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں جس کے تخلیقی سرمائے کو عوامی او ر مقبول ادب کہہ کر فراموش کردیا گیا تھا۔

صدر شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، پروفیسر خالد محمود کا خطبہ ِاستقبالیہ:۔

صدر شعبہ اردو پروفیسر خالد محمود نے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور اردو کا رشتہ ہمیشہ سے چولی دامن کا رہا ہے۔ ۱۹۷۴ میں شعبہ اردو کے قیام سے قبل بھی یہاں اردو تہذیب نمایاں تھی اور شعبہ اردو کے قیام کے بعد بھی فروغ اردوکی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتارہا ہے ۔ یونیورسٹی کے موجودہ شیخ الجامعہ جناب نجیب جنگ کا عہد اردو کے حق میں ایک تاریخ ساز عہد ہے ۔ انھوں نے مزید کہا کہ شعبہ اردو کے لیے ٹیگور پروجیکٹ کی حصولیابی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ افتتاحی اجلاس میں نظامت کے فرائض پروفیسر شہپر رسول نے انجام دیے اور کلمات تشکر اردو ادکادمی کے سکریٹری انیس اعظمی نے ادا کیے جبکہ ریسرچ اسکالر شاہ نواز فیاض نے تلاوت کلام پاک سے پروگرام کا آغاز کیا۔ اس موقع پر نائب شیخ الجامعہ، رجسٹرار، اساتذہ، ریسرچ اسکالرز ،طلبا و طالبا ت کے علاوہ جامعہ کے معزز عہدیداران بھی شریک ہوئے۔

سیمینار کے دوسرے دن کے اولین اجلاس کی کاروائی:۔

مذکورہ سیمینار کے دوسرے دن کا یہلا اجلاس صبح 10:30 شروع ہوا جسکی مجلسِ صدارت میں پروفیسر منظر حنفی، پروفیسر ذاہد جسین خاں اور جناب اے رحمنٰ تشریف فرما تھے۔

اجلاس میں پیش کردہ مقالات کی تفصیلات:۔

۔1۔ محترمہ رویدا ضمیر، ریسرچ اسکالر، جامعہ ملیہ اسلامیہ نے "ابنِ صفی کا تخلیقی افق: چمکیلا عبار کے حوالے سے" پیش کیا جسمیں تحقیق کے آداب کے مطابق ایک نئے ابنِ صفی کو دریافت کرنے کی کوشیش کر گئی۔

۔2۔ ڈاکٹر سیفی سرونجی نے ابنِ صفی اور عام قاری کے رشتے کو تلاش کرتے ہوئے ابنِ صفی کو برتری اور عوام الناس سے ہم رشتگی جو اپنے مخصوص انداز و عالمانہ بصیرت کی روشنی میں پیش کیا۔

3۔ ڈاکٹر شان فخری نے ابنِ صفی کی انفرادی عظمت، دوررسی اور دوربینی کے اثرات اپنے مقالے مین پیش کیئے۔

۔4۔ جناب عارف اقبال نے ابنِ صفی کا نصب الین اور کارنامے کا احاطہ کرتے ہوئے اردو کی ترویج ا اشاعت میں ابنِ صفی کی خدمات کو پیش کیا جسمیں عوام میں اردو کو مقبول عام بنانے میں خاص کردار ادا کرنے اور اسی نوع کی تحریک جگانے کا راز کھولا گیا۔

۔5۔ پروفیسر عاشق ہرگانوی نے ابنِ صفی کے جاسوسی ناولوں میں لردو کے زکر کو اپنی عالمانہ صلاحیتوں کو پروئے کار لاتے ہوئے پیش کیا۔ انہوں نے

ابنِ صفی کے یہاں طنر و مزاح کے عناصر کے چٹخارے ان کے ناولوں کے موضوع سے انصاف کرتے ہوئے اردو زبان، اسکے املا اور اصوات کے تعلق سے ابنِ صفی کے اشاروں و کنایون کے برتنے کے سلیقے اور مہارت پر خاطر خواہ بحث کی۔

۔5۔ فرزندِ اوپندر ناتھ اشک، جناب نیلابھ جو کہ حکومتِ ہند سے وابستہ ہیں نے ابنِ صفی کے باولوں کے اسلوب، استفادے اور ماخذات سے بحث کرتے ہوئے بتایا کی انگریزی میں جاسوسی باولوں کی مستحکم اور قدیم روایت پائی جاتی ہے البتہ اردو میں اس نوع کی کتب اکثر میلوں ٹھیلوں پر فروخت ہوتی رہی ہیں اور شاید اس کے لیئے آج ہم اس ادب کا محاسبہ کرنے کی شروعات اسی نوع کے ادب کے تخلیق کار ابنِ صفی جنھیں بیناد گزار بھی کہا جاسکتا ہے کی خدمات کے اعتراف سے کررہے ہیں۔ بیشک یہ اردو اکادمی اور شبعہ اردو جامعہ ملیہ کا لائق ستائش قدم ہے حالانکہ ہندوستان میں جاسوسی کی روایت بہت دیرپا ثابت نہ ہوسکی کیونکہ ہمارے خانگی حالات اس روایت کیلیئے سازگار ثانت نہین ہوئے۔ سارے ادیب و قلمکار اپنے تخلیقی واقعات و سانحات کے لیے ماحول یتار کرتے ہیں۔ ابنِ صفی ماحول کی تخلیق میں نمایان مقام رکھتے ہیں۔

۔7۔جناب فاروق ارگلی نے ابنِ صفی کے سماجی سروکار تلاش کرتے ہوئے بتایا کہ اردو زبان و ادب کی تاریخ میں نظیر اکبر آبادی کے بعد عوامی مقبولیت حاصل کرنے والا پہلا شخص ابنِ صفی ہے اور اسنے اردو کر ترویج و ترقی میں اپنی تحریروں کے زریعہ انقلاب پیدا کیا۔ ابنِ صفی کی تقلید میں اردو اور ہندی میں کئی سیریز شروع ہوئیں لیکن ابنِ صفی کی فکری بلندی اور قدرتِ تحریر کی منزل کوئی نہ پاسکا البتہ ان نقلی ناولوں میں ابنِ صفی کا دم خم نہ سہی مگر گھپت ان ناولوں کی بھی کچھ کم نہیں تھی۔ ابنِ صفی کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے تقسیمِ ہند کے سانحے کو کسی طور پر زیرِ قلم نہیں آنے دی۔ ابنِ صفی کے سماجی سروکار چار ہزار صفحات پر مشتمل ہیں۔

جناب اے رحمنٰ کی صدارتی تقریر:۔

پہلے اجلاس کے صدور میں سب سے پہلے جناب اے رحمنٰ نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ فاروق ارگلی ایک چلتا پھرتا گنجینہ الفاظ و واقعات ہیں اور انہیں ابنِ صفی کے انداز مین کام کرنے کا موقع بھی ملا ہے۔ اردو مین جاسوسی صنفی اصطلاح کے طور پر رائج ہے جبکہ انگریزی مین ایسا نہیں ہے۔ جو چیزیں اردو امین ادب عالیہ مینن شامل نہیں ہیں وہ انگریزی اور ترقی یافتہ ممالک مین بھی اس نوع کا ادب ابھی تک ادب عالیہ میں شامل نہیں ہیں ہے۔ تاریخ کی روشنی میں یہ بات غلط ہے کہ ابنِ صفی نے اپنے کردار کسی اور ادب سے یا دوسری زبانوں کے کرداروں سے تحریک پا کر لکھے تھے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ انگریزی اور فرانسیسی وغیرہ میں لکھے گئے ناول تحقیق کے آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے وجود میں آئے اور ادرو میں ابنِ صفی اور انکے قبیل کے فنکاروں کی تخیلی پرواز کا نتیجہ ہے۔

اجلاس کے دوسرے صدر پروفیسر زاہد حسین خاں کی تقریر:۔

اجلاس کے دوسرے صدر پروفیسر زاہد حسین خاں نے بتایا کہ نچپن مین انہوں نے ابنِ صفی کے ناولوں سے استفعادہ کیا۔ آج کے اجلاس میں جو مقالات پڑھے گئے وہ سب نہ صرف اپنے موضوع سے انصاف کرتے ہوئے بیش بہا معلومات موجود طالب علموں کو بہم پہنچائی۔

صدرالصدور پروفیسر منظر حنفی کی صدارتی تقریر:۔

صدرالصدور پروفیسر منظر حنفی نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ آج صحت کے اجازت یہ دینے کے باوجود مین یہاں اپنی ذاتی دلچسپی اور ابنِ صفی کے ساتھ انکی تحریرون سے استفادہ کا خراج پیش کرنے کی خاطر موجود رہا۔ ابنِ صفی کے کرداروں میں عمران، فریدی، حمید، جولیانہ، ثریا، قاسم، گلہری خانم وغیرہ معلوم ہوتا ہے گوشت پوست کے کردار ہیں، وہ یہ صرف اپنی انفرادیت ہی منواتے بلکہ بے ساختہ مکالمے اور منظر نگاری کی ایسی مثال بھی پیش کرتے ہیں جسے ابنِ صفی کی نہایت خلاقانہ قدرت کا ثبوت کہا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اپنے قدم کو نہ صرف اپنے ہمعصروں میں بلند کیا بلکہ ایک مینارہ بنکر ابھر۔ ابنِ صفی کے ناولوں میں وہ عناصر موجود ہیں وہ ہمیں انکو ادب عالیہ مین شامل کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس کے حصہ جات ہماری دانش گاہوں میں نصابوں میں ضرور شامل کیئے جانے چاہیے۔

دوسرے روز کے دوسرے اجلاس کی کاروائی:۔

اجلاس 2:30 دوپہر شروع ہوا جسکی مجلس صدارت میں پروفیسر وہاج الدین علوی، جناب ایس ایم ساجد، پروفیسر شہناز انجم شامل تھے۔ جبکہ نظامت کا فریضہ ڈاکٹر کوثر مظہری نے انجام دیا۔

پروفیسر سید محمد ساجد کی صدارتی تقریر:۔

مجلس صدارت کے درمیانی رکن پروفیسر سید محمد ساجد نے اپنی مصروفیات کے پیشِ نظراپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ابنِ صفی کے دو تہائی ناول پڑھنے کا انہیں جو موقعہ ملا اسی کی بدولت وہ اردو زبان و ادب سے فیصیاب ہوتے چلے آرہے ہیں اور انہوں نے ابنِ صفی کے تعلق سے اب تک کے مقالات میں تشنہ رہے گوشے ابنِ صفی کی شاعری پر اپنی گفتگو کے مرکزی محور کو مرکوز رکھا اور اسرار ناروی یعنی ابنِ صفی کی شاعری کے برمحل پہلووں سے آگاہی بخشنے والے کلمات ادا کرتے ہوئے شاعری کی مثالیں بھی پیش کیں۔

اجلاس میں پیش کردہ مقالات کی تفصیلات:۔

۔1۔ محترمہ نوشین رحمنٰ، اسکالر شبعہ انگریزی جامعہ ملیہ نے انگریزی میں اپنا مقالہ پیش کیا جسمیں انہوں نے ابنِ صفی کے کرداروں کے نفسیاتِ بشری کی خوصیات کو مختلیف زمروں کی صورت مین پیش کیا اور موثر طریقہ اظہار اپناتے ہوئے سامعین کو طلسم کی حد تک متوجہ کرلینے کا ہنر دکھایا۔

۔2۔ جناب قائد حسین کوثر نے ابنِ صفی اور شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے کانپور، الہٰ آباد اور لاہور کی آبادیوں پر ابنِ صفی کی تحریروں کا جائزہ پیش کیا۔

۔3۔ ڈاکٹر فرحت احساس نے اسرار ناروی یعنی ابنِ صفی اصلاً شاعر تھے لیکن بسیارنویسی کے جھونکے انھیں ناول نویسی کی طرف لے آئے۔

4۔ ڈاکٹر خالد جاوید نے اپنے مقالے میں ثابت کرنے کی کوشیش کی کہ ابنِ صفی موزونی طبع سے شروع ضرور ہوئے لیکن انکی زہنی فکر اور انکے تخلیقی وجدان کے عکس آخر ان کے ناولوں ہی کی بدولت ہماری یادوں اور عملی زندگی میں آج تک محفوظ ہے۔

۔5۔ حناب مختار ٹونکی نے اپنے مخصوص اسلوبِ انشائیہ نگاری کے انداز میں اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے ابنِ صفی کے ناولوں اور مکالموں کی طنزیہ و مزاحیہ پرتیں کھولنے اور ان کے بہاو کے ساتھ سامعین کا رشتہ جوڑنے کی کامیاب کوشیش کی۔

سہ روز قومی سمینار ’’ابن صفی: فن و شخصیت ‘‘ا کے تیسرے روز کی کاروائی:۔

شعبۂ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ بہ اشتراک اردو اکادمی، دہلی کے زیراہتمام سہ روزہ سمینار ’’ابن صفی: فن و شخصیت‘‘ کے تیسرے دن کے تیسرے اجلاس کی ابتدا صبح ساڑھے دس بجے ہوئی

جس کی صدارت پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی، پروفیسر عبدالحق اور ڈاکٹر ایم۔ اے۔ ابراہیمی نے کی جب کہ نظامت کا فریضہ ڈاکٹر احمد محفوظ نے انجام دیا۔

اجلاس میں پیش کردہ مقالات کی تفصیلات:۔

۔1۔ ڈاکٹر عمران عندلیب نے پہلا مقالہ پیش کیا جس میں انھوں نے ابن صفی کی شاعری اور نثری تحریروں میں تلذذ آمیزی کے اثرات کی نشاندہی اس انداز سے کی کہ قاری اور قلم کار کے فہم اور ان کے ادراک کے وہ گوشے سامنے آجائیں جو مطالعہ کرتے ہوئے اکثر لوگوں کے سامنے نہیں آتے۔

۔2 اور3۔ اقرا سبحان اور محمد عثمان ، شعبۂ اردو کے ریسرچ اسکالروں نے اپنے پرچوں میں ابن صفی کے ان کرداروں کی تلاش کی جو طالب علموں کے لیے ان کی زندگی اور حالات کے موافق ہوں اور ان کے علم میں اضافہ کا باعث بھی بنتے ہیں۔

۔4۔ کانپور سے تشریف لائے خان احمد فاروق نے اپنے مقالے ’’ابن صفی ماورائے اسرار‘‘ میں ابن صفی کی تحریروں کے رموز پر اور ان کی نفسیاتی پرتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے ان رازہائے پنہاں کی عقدہ کشائی فرمائی جو عموماً مطالعہ کرتے ہوئے سیدھے طور پر قاری کے اوپر روشن نہیں ہوتیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر ابن صفی کی تحریروں کو ادبِ عالیہ میں کوئی جگہ حاصل نہیں ہوسکی ہے تو کیوں نہ ہم ان کو ہائی پاپولر لٹریچر سے تعبیر کریں۔

۔5۔ جناب مختار ٹونکی نے اپنے مقالے میں بتایا کہ ابن صفی کی حیثیت تھری اِن ون کی ہے۔ شعریات و مضحکات اور جاسوسیات میں ابن صفی نے انفرادی اور نمایاں سنگِ میل نصب کیے ہیں۔ ابن صفی اسرار احمد کی ناول نگاری کے طوفان کی ابتدا الٰہ آباد سے ہوئی اور اختتام کراچی پاکستان میں ہوا۔ مقالے کا زیادہ تر حصہ مقفی اور شعری آہنگ لیے ہوئے تھا جس میں ضرب الامثال کی کثرت نے چار چاند لگائے اور سامعین کو بہت محظوظ کیا۔ انھوں نے ابن صفی کے ایک مضمون ’’قواعدِ اردو‘‘ کو خاص طور پر اپنا موضوع بنایا جو شوخی و ظرافت کا بہترین خوشہ ثابت ہوا۔

۔6۔معروف صحافی سہیل انجم نے ’’تزک دو پیازی‘‘ کے تعلق سے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے وضاحت کی کہ ابن صفی راسخ العقیدہ ہوتے ہوئے بھی اسلام کے نام پر سامنے آنے والے فریب دیکھ کر تڑپ اٹھتے تھے ۔ انھوں نے شوہر و بیوی اور آدمی اور عورت کے سماجی اور غیرسماجی رشتوں کو ابن صفی کے زاویۂ نظر اور سماجی دور بینوں کے ذریعہ تلاش کرتے ہوئے سبق آموز نتائج برآمد کیے۔

۔6۔ صحافی لئیق رضوی نے اپنے مقالے بہ عنوان ’’ابن صفی کے منفی کردار‘‘ میں پرزور انداز میں کہا کہ منفی کرداروں کی تخلیق کی تحریک اور وجوہات کو تلاش کرنا بہت ضروری ہے۔ ان کرداروں کے ارتقائی مراحل پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کے عبرت ناک و نصیحت آمیز نتائج سے آگاہی کا اظہار موثر انداز میں کیا۔

۔7۔ پونہ سے تشریف لائے قاضی مشتاق احمد نے اردو فکشن میں ابن صفی کی معنویت تلاش کرتے ہوئے بتایا کہ بقول ابن صفی فرار ہی انسانی اور سماجی ترقی کی ضمانت ہے۔ حالات میں تبدیلی لانے کے لیے قانون کا احترام لازم ہے یہی ابن صفی کا مقصد تھا۔ ابن صفی نے کہا ہے کہ میری کتابیں چاہے الماریوں کی زینت نہ بنیں لیکن تکیے کے نیچے ضرور پائی جاتی رہیں گی کیوں کہ میں نے جو میڈیم اختیار کیا ہے وہ عوام الناس کی فہم اور ضرورت کے مطابق ہے۔ انھوں نے کہا کہ ابن صفی کے تعلق سے شاعری میں بات کریں تو ایک شعر کافی ہے:۔
’’جو ہوسکے تو ہمیں پائمال کرتا جا
نہ ہوسکے تو ہمارا جواب پیدا کر‘‘۔

۔8۔ بھوپال سے آئے ہوئے پروفیسر آفاق احمد نے اپنے مقالے کا ماحصل پیش کرتے ہوئے کہا کہ سائنٹفک ایجادات اور سماجی سروکار سبھی ابن صفی کا موضوع بنے اور انھوں نے تقریباً تمام مسائلِ زندگی کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے جس میں خیروشر کی جنگ میں خیر کی فتح اور سرخ روئی کو ترجیح دی ہے جو ہمیں حق شناسی اور حق پرستی کی ترغیب دیتی ہے۔

اجلاس کے صدر ڈاکٹر ایم۔ اے ابراہیمی کا صدرارتی خطبہ:۔

اس اجلاس کے صدر ڈاکٹر ایم۔ اے ابراہیمی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اردو اکادمی، دہلی اور شعبۂ اردو ، جامعہ ملیہ مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ابن صفی کے اعتراف کی ایک تاریخی بنیاد ڈالی۔ میں بھی سنہ 65ء سے 75ء تک ابن صفی کو پڑھتا رہا ہوں۔ آج کے مقالہ جات میں میری سب یادیں تازہ ہوگئیں۔ ابن صفی کے ہر کردار میں نیا پن ہے اور وہ خاص ڈائرکشن کے تحت سامنے آتا ہے۔ ابن صفی نے جرائم سے پاک سماج پیدا کرنے کا مشن اختیار کیا تھا۔

پروفیسر عبدالحق کے صدارتی کلمات:۔

پروفیسر عبدالحق نے اپنے صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ آج کے مقالہ نگاروں نے مختلف النوع عنوانات پر فکر انگیز مقالے لکھے جن میں مجھے تازگی کا احساس ہوا کیوں کہ ان میں متن شناسی کے گوہر سامنے آئے۔

پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی کا صدارتی خطاب:۔

پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ اس سمینار کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کی زندگی کی اردو کی تاریخ کی ایک یادگار اور روشن تقریب کے طور پر یاد کیا جاتا رہے گا۔ ہم اس طرح سمجھ لیں کہ جس طرح انگارے پر بہت سی پابندیوں کے باوجود پروفیسر محمدمجیب نے رسالہ ’’جامعہ‘‘ میں تنقیدی تبصرہ لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ یہ ادب شاید مستقبل میں ہمارے لیے راہ نما ثابت ہوگی، اسی طرح یہ سمینار ہے جو جامعہ کی اردو ادب میں نئی روایت قائم کرنے کی ایک اور مثال ہے۔ ادب کو ادبِ عالیہ اور پاپولر ادب کے ذیل میں جاننا اور پرکھنا فریبِ نظر ہے، اصل شے تخلیق ہوتی ہے۔

سیمینارکے چوتھے اجلاس کی کاروائی:۔

اس سمینار کا چوتھا اجلاس دوپہر بعد پروفیسر عتیق اللہ، پروفیسر صادق، پروفیسر محمد شاہد حسین اور پروفیسر شہزاد انجم کی صدارت میں منعقد ہوا جس کی نظامت ڈاکٹر سرورالہدیٰ نے کی۔

اجلاس میں پیش کردہ مقالات کی تفصیلات:۔

۔1۔ ریسرچ اسکالر زمرد خاں نے اپنے پرچہ میں کہا کہ مشرقی تہذیبوں کو آئندہ سفر کی منزلیں چین کی سربراہی میں طے کرنی ہے۔ شمس الرحمن فاروقی کا ابن صفی کے چار ناولوں کا ترجمہ کرنا ایک بڑے آدمی کا دوسرے بڑے آدمی کے تئیں احساسِ اعتراف و افتخار کا اظہار ہے۔

2۔2۔ جناب شعیب نظام نے اپنا مقالہ بہ عنوان ’’ابن صفی انور رشیدہ سیریز کے حوالے سے‘‘ پیش کیا جس میں انھوں نے ان دونوں سیریز کے مرکزی محوروں پر روشنی ڈالی اور کرداروں کی برتری اور ابتری کا خوبصورت جائزہ پیش کیا۔

۔3۔ پروفیسر شافع قدوائی نے بہ عنوان ’’قرأت مسلسل کا استعارہ ابن صفی‘‘ اپنا مقالہ پیش کیا جس میں انھوں نے ابن صفی کی ہردلعزیزی اور عوامی مقبولیت کے اسباب تلاش کرنے کے ساتھ اس کی قرأت کے طلسم یعنی ان تحریروں کے سرمۂ نظر بنانے کے جادو پر روشنی ڈالی۔

۔4۔آخری مقالہ پروفیسر علی احمد نے پیش کیا جس کا عنوان ’’عوامی ادب کی شعریات ابن صفی کے حوالے سے‘‘ تھا جو بہترین ثابت ہوا اور اس مقالہ کے بین السطور میں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ ابن صفی کو ادبِ عالیہ میں شامل کرنے کے لیے ابھی تک خود کو تیار نہیں کرپائے ہیں۔

مجلسِ صدارت کے چاروں اراکان پروفیسر عتیق اللہ، پروفیسر صادق، پروفیسرمحمدشاہد حسین اور پروفیسر شہزاد انجم کے صدارتی خطابات:۔

مجلسِ صدارت کے چاروں ارکان پروفیسر عتیق اللہ، پروفیسر صادق، پروفیسرمحمدشاہد حسین اور پروفیسر شہزاد انجم کے صدارتی خطابات کا مجموعی پیغام یہ ہے کہ ابن صفی ایک ایسے بلند خیال اور ممتاز تحریری ملکہ رکھنے والی شخصیت کا نام ہے جس سے نصف صدی کی نسلیں نہ صرف مستفید ہوتی رہی ہیں بلکہ اردو کی ترویج اور ترقی میں بھی ابن صفی کی تحریریں ایک نمایاں کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ انھوں نے الفاظ کے رموز و کنایات سے اپنے قاری کو نفسیات اور سماجی رشتوں اور گزرتی زندگی کے حالات سے سبق آموزی کے ہم آغوش کرکے واقف کرانے کے بہت سارے ہنر آزمائے اور ان میں کامیاب ہوئے۔

سہ روزہ قومی سمینار کا اختتامی اجلاس:۔

سہ روزہ قومی سمینار کا اختتامی اجلاس پانج بجے ایڈورڈ سعید ہال، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں منعقد ہوا جس میں بحیثیت مہمانِ خصوصی جناب سید شاہد مہدی، وائس چیئرمین آئی سی سی آر تشریف فرما تھے۔ اس اختتامی اجلاس کی صدارت پروفیسر ایس۔ ایم۔ راشد، پرووائس چانسلر، جامعہ ملیہ اسلامیہ نے کی۔ اس جلسہ کی نظامت کے فرائض سکریٹری اردو اکادمی جناب انیس اعظمی نے انجام دیے جب کہ پروفیسر خالد محمود، صدر شعبۂ اردو نے سمینار کے تمام اجلاس کا احاطہ کرتے ہوئے ان کی کامیابی پر روشنی ڈالی اور آئے ہوئے مشوروں کو اپناتے ہوئے مستقبل میں حکمتِ عملی اختیار کرنے کا اعادہ ظاہر کیا اور پروفیسر عبدالحق، کنوینر سمینار کمیٹی اردو اکادمی نے کہا کہ سمینار کے شرکا کے اس اصرار کو اردو اکادمی زیرِغور رکھے گی کہ جلد از جلد ابن صفی کی اہم تحریروں کو سامنے لایاجائے۔

حرفِ آخر:۔

بتایا جارہا ہے کہ مذکورہ سمینار جناب ابن ِصفی مرحوم کے فن وشخصیت پر ہونے والا سب سے بڑا اور اہم ترین سمینار قرار دیا جارہا ہے جسمیں بھارت کی حکومتی سطح کی شخضیات کے ابنِ صفی مرحوم کو زبردست خراج ِتحسین پیش کیا اور ساتھ ہی ساتھ دہلی کے تعلیم، تدریس اور ادب کے میدان کی اہم ترین و نامور شخصیات نے مرحوم کی عظیم شخصیت اور لازوال فن پر مقالات پیش کیے۔

اس بات کا قویٰ امکان ہے کہ اس سہ روز سمینار کی مکمل کاروائی کو کتابی صورت میں پیش کیا جائیگا جو کہ بلاشبہ اردو ادب کے لیئے بلعوم اور ابنِ صفی کے مداحین کے لیئے بلخصوص ایک اہم ترین دستاویز ثابت ہوگی۔

ابنِ صفی مرحوم کے پاکستان اور دینا بھر میں بسنے والے مداحین نے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور اردو اکارمی کی جانب سے جناب ابن ِصفی کے شایان ِشان اس عظیم سمینار کے اتعقاد پر دونوں اداروں کو زبردست خراج ِتحسین پیش کرتے ہوئے حکومت ِپاکستان اور پاکستان بھر مین قائم آرٹس کونسلوں سے بھرپور اپیل کی ہے کہ پاکستان کے اس عظیم و نامور فرذند کے شایانِ شان ایسا ہی ایک کانفرنس کا انکے پومِ پیدائش پر باقاعدگی کے ساتھ اہتمام کیا جانا چاہیے اور حکومت کی جابب سے ابن صفی مرحوم کے لیئے بعد از مرگ تمعہ ِحسنِ کارکرگی کا بھی فوری طور ہر اعلان اب ایک ناگزیز امر بن چکا ہے۔

واضح ہو کہ راقم نے اس رپورٹ کو ہندوستانی اخبار روزنامہ ہندوستان ایکسپریس اور ادبی ویب سائٹ "ادبی سرگرمیاں" میں شایع شدہ رپورٹوں کی مدد سے مرتب کیا ہے، جسکے لیئے راقم انکا شکریہ ادا کرتا ہے۔
Amin Sadruddin Bhayani
About the Author: Amin Sadruddin Bhayani Read More Articles by Amin Sadruddin Bhayani: 43 Articles with 50908 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.