با خبر بے خبرے

جنا ب غا زی صلاح الدین ایک سینئر صحافی اور تجزیہ نگار انگریزی میں لکھتے ہیں۔ظاہر ہے کہ جب لکھتے انگریزی میں تو سوچتے بھی انگریزی ہی میں ہو نگے۔جب دیسی آدمی انگریزی میں سوچتا اور لکھتا ہے تووہ صرف انگریزکی نمائندگی کر تا ہے اور جب انگریزی لکھتا ہے تو صرف انگریزی ہی لکھتا ہے۔دیسی اور بدیسی انگریزی دانو کا فائدہ یہ ہے کہ دونو ں ہی دیسی لوگوں کی سوچ اور سمجھ سے بالا تر ہوتے ہیں ۔پچھلے ہفتے جنا ب صلاح اُلد ین نے اپنے کا لم میں لکھا کہ وہ کچھ روز پشاور میں قیام پذیر ہو ئے اور انھیں اسلا میہ کا لج اور پشا ور یو نیورسٹی کے طلباء سے ملنے کا موقع ملا۔غازی صاحب لکھتے ہیں کہ انھیں یہ جان کے حیرت ہوئی کہ پختون طلباء دختر پاکستان ملا لہ یو سفزائی کو نہ صرف نا پسند کرتے ہیں بلکہ اس پر تنقید بھی کرتے ہیں۔

جنا ب غا زی صلاح الدین جیسا با خبر اور سینئیر صحافی بھی بے خبر نکلا۔ انھیں چاہیے تھاکہ پشاور قیام سے پہلے وہ کسی دیسی اور اصلی پٹھان سے مل لیتے اور پٹھانوں کی روایات اور رسومات کی خبر لے لیتے۔غازی صاحب کا کا لم پٹرھ کرہم بے صبرے ہو گئے اور کرا چی کمپنی جا کر ایک اسی سالہ اصلی اور دیسی یو سفزئی پٹھان بابے کو جا پکڑا۔بابا جی نہ صرف عا لم دین تھے بلکہ پکے اور کھرے انسان اور مادی آلائشوں سے مکمل پاک اور صاف تھے۔جنا ب غا زی صلاح الدین کی طرح مجھے بھی حیرت ہوئی جب ملالہ یوسفزائی کا نام لیتے ہی بابا جی نے لگاتا ر پانچ چھ برسٹ مارے۔بابا جی کی بمباری کا حدف حامد میر، پاکستا نی اور مغربی میڈیا اور ملک بھر کے سیا سی اور غیر سیا سی قائدین اور دانشوری کے دعویدار دیسی اور ولائیتی مخلوق تھی۔باباجی نے مختلف ٹیلیویژن چینلوں پر دانشوری اور تجزیہ نگاری کرنے والے ریٹائرڈ فوجیوں اور خاص کر دو ریٹائرڈ ائیر وائس مارشلوں پر کرپٹ بمبنگ کی اور اُنھیں ائیر مارشل کے بجا ئے کورٹ مارشل اور فیلڈ مارشل کہتے رہے۔بابا جی نے کہا کہ ان افسروں،صحافیوں اور خود ساختہ دانشوروں کو بو لو کہ وہ ہما ری تا ریخ پڑھیں ہمیں تجا ویز نہ دیں۔

موسم کچھ خوشگوا ر ہوا تو بابا جی نے فر مایاکہ پشاور کے طلباء نے جس نا راضگی کا اظہار کیا وہ درست ہے۔ اور سوات کی بچیوں نے جو کچھ ادارے کے نام کے بدلنے پر کیا وہ بھی سب درست ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ حامد میر کی نظر سارے سوات میں صرف ملالہ پر ہی کیوں پڑی۔یہ سو چے سمجھے منصوبے کے مطابق ہی ہوا ہے اور اسکرپٹ میں اور بہت کچھ لکھا ہوا ہے۔جس کی خبر اس ملک کی عوا م کو نہیں۔ملالہ نے حامد میر کے مائیک پر صرف یہ کہا تھاکہ اسکا سکول کھلنا چاہئے وہ پڑھنا چاہتی ہے۔کیا باقی سواتی بچوں نے کبھی کہا ہے کہ سکو ل بند ہونے چاہئے اور وہ پڑھنا نہیں چاہتی ؟ڈما ڈولہ میں ڈرون حملے میں شہید ہو نے والے تین سو بچے بھی طالبعلم تھے اور مدرسے میں پڑھ رہے تھے۔ان کا جرم یہ تھا کہ وہ قرآن و حدیث اور فقاء کے طالبعلم تھے۔وزیرستان میں شہید ہونے والے بچے بھی پڑھنا چا ہتے تھے مگر مار دیئے گئے۔حامد میر اور اس کے ہمنواء ان سیکڑوں بچوں کے گھر وں میں کیوں نہیں جاتے اور ان کے ماں با پ سے کیو ں نہیں پو چھتے کہ اُ ن کے جگر گو شے پڑھ لکھ کر کیا بننا چا ہتے تھے ؟ پا کستا ن میں اور خا ص کرخیبر پختونخواہ میں ایسا کوئی مد رسہ نہیں جہاں دینی تعلیم کے سا تھ کمپیو ٹر اور دیگر علوم کی تعلیم نہ دی جا تی ہو۔کیا ملالہ نے چندہ جمع کر کے کوئی تعلیمی سکول یا پھر معذور اور یتیم بچوں کیلئے کوئی ادارہ کھولا تھا۔صرف حا مد میر کے پروگرام میں یہ کہنا کہ میں پڑھنا چا ہتی ہو ں میرا سکول کھو لو بڑا کا ر نا مہ ہے؟ تو یہ ہر بچے کی خوا ہش ہے مگر وہ حا مد میر کے پروگراموں میں نہیں آ سکتے۔حامد میر اور دیگر اینکروں کو بولوکہ ایسا بچہ لاؤ جو کہتا ہو کہ میں نہیں پڑھنا چاہتا میرا سکول بند کردو۔ایسے بچے بڑے بڑے جا گیرداروں ، سمگلروں ،کار خانہ دار وں، سیاستدانوں اور نو دولتیوں کے تو ہو سکتے ہیں عوام کے نہیں۔ ان لوگوں کے بچوں کو پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ انگریزی ، اردو اور مقامی زبا نیں انہیں ویسے ہی آتی ہیں چونکہ وہ زیادہ وقت یورپ اور امریکہ میں گزارتے ہیں۔اُن کی جگہ پروفیسر اور سرکاری سکولوں کے اُستاد امتحان دیکر اُنھیں ڈگریاں لے دیتے ہیں۔سینٹ کی سیٹیں فروخت ہوتی ہیں جو یہ لوگ خرید کر سینیٹر اور وزیر بن جا تے ہیں۔اسی طرح یہ لوگ انتخابی حلقے اور ووٹرز بھی خرید لیتے ہیں۔جب ڈگری سے لے کر وزارت اور پبلسٹی کیلئے اینکراور صحافی ہی نہیں پورے کے پورے پروگرا م اور چینل خریدے جا سکتے ہیں تو پھر پڑھنے کی کیا ضرورت ہے۔

باباجی نے کہا پہلے تم اپنا بیا ن درست کرو۔ملالہ یو سفزائی ایسے ہی ہے جیسے بلاول بھٹوزرداری۔شجرہ اور نسل با پ سے چلتا ہے ماں سے نہیں۔ ملا لہ ضیاء الدین تو ٹھیک ہے مگرملالہ یوسفزائی درست نہیں۔تم سب لوگ بے خبرے ہو۔یہ لوگ افغانستان میں ملاں اور قا ضی کہلاتے تھے۔ سوات میں اس خاندان کے دوآدمی مشہور ہوئے جن میں ایک عالم دین اور دوسرے مجذوب فقیر تھے۔عا لم دین کی شادی سوات کے علاقہ شانگلہ پار کے ایک دینی،علمی و ادبی گھرانے میں ہوئی۔یہ گھرا نہ خا لص یو سفزا ئی ہے جنکا صدیو ں سے کسی دوسرے قبیلے سے رشتہ نا طہ نہیں ہوا۔ملا لہ کے خاندان کے بزرگ جن کی تا ریخ ملا لہ کے والد ضیاء الدین کے پڑ دادا تک جاتی ہے۔ملاں،قاضی اور میاں کہلواتے تھے۔جبکہ ضیاء الدین کی اپنی تاریخ بھی ہے۔میاں ضیاء الدین عوامی نیشنل پارٹی کے عقیدت مند اور جانثار سپاہی ہیں۔میاں ضیاء الدین پڑھے لکھے سرخ پوش ہیں اور زمانہ طالب علمی میں پر جوش تقریروں کی وجہ سے مشہور تھے جو زیا دہ تر پاکستان،قائد اعظم اور تحریک آزادی پاکستان کی مخالفت میں ہو تی تھیں۔ ایک میاں ضیاء الدین ہی نہیں بلکہ سارے سرخ پوش ایسی ہی تقریریں کر تے تھے۔ان کا ایک اپنا مشن، منشور اور مقصد تھا اور آج بھی ہے۔گو کہ اے این پی آج کل مشرب بے پاکستا ن ہے مگر یہ سب اقتدار کا کھیل اور امریکہ بہادر کا حکم ہے۔ اے این پی اور ایم کیو ایم کراچی میں ایک دوسرے کے دشمن ہیں اور قو می اسمبلی میں اتحادی ہیں۔ویسے تو وہ سندھ اسمبلی میں بھی دشمن نہیں ہیں جبکہ کالا باغ ڈیم پر ہم خیال اور ہم آواز بھی ہیں۔ میاں ضیاء الدین حامد میرسے کئی منزلیں آگے ہیں۔ اب پتہ نہیں کہ میاں ضیاء الدین اور حامد میر میں کتنا مشترک ہے۔خیالات،اقدار یا مفاد۔۔۔؟ کچھ بھی ہو ملالہ ضیاء الدین ایک معصوم اور مظلوم بچی ہے جسکے سر پر بہت بڑا بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔کیا یہ معصوم بچی یہ بوجھ اُٹھا پا ئے گی اسکا فیصلہ وقت کرے گا۔ پشاور یونیورسٹی اور اسلا میہ کالج کے طالبعلم حقیقت جا نتے ہیں کہ ملالہ کے باپ نے نہ صرف اے این پی سے اپنی وابستگی اور حامد میر سے اپنی دوستی کو کیش کروایا ہے بلکہ اپنی معصوم بیٹی کی زندگی کو بھی داوُ پر لگا دیا ہے۔ملالہ کی شہرت ،ذہانت، علم دوستی، جرات وبیباکی کے گیت گا نے والے یہ جا نتے ہیں کہ جس چیز کا وہ پر چا ر کر رہے ہیں وہ حقیقت نہیں۔پہلے حامد میر سے ملاقات کرنا، پھر پروگرام میں آنا اور کچھ عرصہ بعد بی بی سی کو خط لکھنے کی کہانی کا سامنے آنا اورگل مکئی کے نام سے ڈائری لکھنا اور پھر حملہ ہونا ایک تر تیب وار کہانی ہے جسے میڈیا والے ہی ہضم کر سکتے ہیں سرحد والے نہیں۔ملالہ کے منظر عام پر آنے اور پھر سلسلہ وار انکشا فات اور حملے کا لب لباب فوج کو وزیر ستان کی آگ میں جھو نکنا اور بھا رت کو مشرقی سرحدوں پر من ما نی کیلئے کھلا چھو ڑ نا ہے۔میڈیا ، سرکا ری مشینری اور مغربی ممالک کا ایک نقطے پر متفق ہونا اور پھر وہ بھی ایک ایسے ایشو پر جسکی بنیا د خطرے کی علا مت ہے۔ملالہ سے منسوب بی بی سی کو لکھے جا نے وا لے خطوط میں لکھا گیا تھاآج تک سا منے نہیں آیااور نہ ہی بی بی سی اور حا مد میر نے وہ خطوط کسی کو دکھائے ہیں۔اگر ان خطوط میں یہی لکھا ہے کہ میرا سکو ل کھول دو میں پڑ ھنا چا ہتی ہوں تو یہ فقرہ کچرا چننے والا بچہ بھی کہتا ہے ، مگر وہ میڈیا پر نہیں آ سکتا اور نہ ہی وہ کسی حکمران سیا سی جما عت کے لیڈر کا بچہ ہو تا ہے۔ملا لہ کی پبلیسٹی کے کئی رخ ہیں۔اس میں پا کستا ن کی عظمت اور شہرٹ کا کو ئی بھی پہلو نہیں۔ ملالہ سے منسو ب خطوط اور ڈائیری کا موا زنہ لیڈی فلونیشا کی ڈائیری سے کیا جا سکتا ہے۔اس ڈائیری میں انگریزی خا تو ن نے کابل کے حا لا ت روزانہ کی بنیا د پر لکھے کہ وہا ں مقیم انگریز ی فوج کو کیا کیا مشکلا ت پیش آئیں۔لیڈی فلونیشا سیلز میچور عورت تھی۔اسکا واقعات پر مبنی ڈائیری لکھنا حقیقت کی تر جمانی ہے جبکہ اس اندا ز کی ڈائیری کا ملا لہ جیسی نو خیز اور معصوم بچی سے منسوب کرنا کسی طور درست نہیں۔ملالہ نے اگر سوات کے حالا ت سے کسی کو آگا ہ ہی کرنا تھا تو وہ پاکستان کے صدر،وزیرا عظم،اپنے والد کی جماعت کے و زیر اعلٰی ،آرمی چیف یا پھر چیف جسٹس کو خط لکھتی اسے بی بی سی کی راہ کس نے دکھا ئی؟اگر ملا لہ اتنی ہی با خبر تھی تو اسے پتہ ہو نا چاہئے تھا کہ بی بی سی نے ہمیشہ ہی پا کستان اور اسلام مخالف پرا پیگنڈہ کیا ہے۔یہ ادارہ ہمیشہ سے بھا رت اور اسرا ئیل نوا ز رہا ہے۔اگر ملا لہ کے خطو ط بی بی سی کو ملتے تھے تو تب بی بی سی نے ان خطوط پر کوئی پروگرا م کیو ں نہیں کیا؟اور حامد میر کے پروگرام کا انتظار کیوں کیا؟ملا لہ کے خطوط سے صاف ظاہر ہے کہ جو کوئی خطوط لکھتا تھا اسے پا کستا ن کے کسی بھی ادارے پر اعتبا ر نہ تھا اور وہ پاکستان کو بدنام کرنا چاہتا تھاکہ پاکستان میں سب کچھ غیر محفوظ ہے اور عوام کو کسی ادارے پر بھروسہ نہیں۔

اس سے پہلے کہ با با جی مزید انکشا فا ت کرتے میں نے رخصت چاہی اور گھر کو چل دیا۔کالم نگا روں اور اینکرزسے درخواست ہے کہ اسلام آبا د کی سبزی منڈی میں ہری پور،حضرو،چارسدہ،مردان،نوشہرہ اورسوات سے بہت سے بابے پھل اور سبزیاں بیچنے آتے ہیں۔صبح سویرے پھل اور سبزیاں بیچ کر یہ لوگ کرا چی کمپنی سے سودہ سلف خرید تے ہیں اور شام سے پہلے واپس چلے جا تے ہیں۔ان سبزی فروشوں میں بہت سے بابے اور جوان حافظ قرآن،عا لم دین اور اعلٰی تعلیم یا فتہ ہوتے ہیں۔یہ لوگ صحا فیوں اور دانشوروں سے زیا دہ با خبر اور اپنے کلچر اور ثقا فت سے جڑے ہوتے ہیں۔اگر آپ غازی صلاح الدین کی طرح پختون کلچر اور روایات کو سمھبے بغیر پشاور یو نیورسٹی اور اسلا میہ کالج کے طلباء سے ملیں گے تو آ پ کو ما یوسی ہو گی۔ با خبر پاکستانی میڈیا کے بے خبروں کی کچھ اوربھی باتیں ابھی کرنا باقی ہیں انشا اﷲ اگلی تحریر میں ضرورشامل کرنے کی کوشش کروں گا۔
asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 90697 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.