سید نصیر شاہ18 دسمبر کی شام
اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔اردو ادب کا ایک عہد تمام ہوگیا۔سید نصیر شاہ
اردو ادب و صحافت کے ایک معتبر حوالے کے طور پر ہمیشہ تاریخ میں زندہ رہیں
گے۔ مرحوم کی علمی ادبی صلاحیتوں کا ایک زمانہ معترف رہاہے۔اُن کی شخصیت کے
کئی رنگ اوراُنکی کتابِ زیست کے کئی پرت تھے۔ ایک دینی سکالر، مورخ ،
افسانہ نگار، کہانی کار، شاعر ادیب سبھی کچھ ایک مکمل رنگ اور آہنگ کے ساتھ
اُنکی ذات کا حصہ تھا جو اب تاریخ میں ان کے دبستان کا خاصہ بن کر اُن کی
لازوال خدمات پر ہمیشہ گواہی دے گا۔
اردو ادب نے بڑے بڑے نام پیدا کئے جیسے غالب پر تبصرے کے ذیل میں اسکولوں ،
کالجوں اور یونیورسٹی کے طلبہ تک رشید احمد صدیقی کے حوالے سے امتحانی
کاپیوں میں لکھتے چلے آ رہے ہیں کہ ’’مجھ سے اگر پوچھا جائے کہ ہندوستان کو
مغلیہ سلطنت نے کیا دیا تو میں بے تکلف یہ تین نام لوں گا ’’ غالب اردو اور
تاج محل‘‘۔۔۔۔اسی طرح اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ ضلع میانوالی کی ایک سوبارہ
سالہ ز ندگی نے ہمیں کیا دیا ہے تو میں بلا کسی توقف کے تین شعبوں کے حوالے
سے تین نام لوں گا ’’سیاست میں مولانا عبد الستار خان نیازیؒ ، سماجی خدمت
میں عمران خان اور اردو ادب میں سید نصیر شاہ۔
سید نصیر شاہ مرحوم دس جون 1934 ء کو پیدا ہوئے۔اُنہوں نے شاعری، افسانہ
نگاری کے ساتھ صحافت میں بھی بھر پور خدمات سر انجام دیں۔وہ مختلف قومی
اخبارات کے لئے کالم نگاری بھی کرتے رہے۔میانوالی سے شائع ہونے والے
المجاہدمیں لکھتے رہے انہوں نے 1958 ء میں ماہانہ ادبی میگزین’’ سوز ساز‘‘
کا اجراء بھی کیا تھا۔ اور ہفت روزہ شعاعِ مہر کے ایڈیٹر بھی رہے۔روزنامہ
امروز، میانوالی گزٹ ، نوائے فاران , صدائے میانوالی اور دیگر قومی اور
مقامی اخبارات میں ’’ کونین فروش‘‘ کے قلمی نام سے کالم نگاری کے جوہر
دکھائے۔ ماہنامہ ’’ نیا زمانہ ‘‘ میں یادیں اور یادگاریں‘‘ کے نام سے تاریخ
اور مشاہدات کو قرطاس پر محفوظ کرنے کا کٹھن کام بھی سر انجام دیا۔ان کی
تصا نیف میں مجموعہ تفاسیہ ابو مسلم اصفہانی،سلطان غزنوی،عورت کی سر براہی،
عورت کا مقام اسلام کی نظر میں،موسیقی کی شرعی حیثیت، کیکر دے پھل شامل
ہیں۔2005 ء میں ایسوسی ایشن فار دی ویلفےئر آف دی برٹش پاکستانیز لندن کی
دعوت پر انہوں نے’’ اسلام اور دہشت گردی ‘‘ کے موضوع پر ایک تحقیقی کتاب
لکھی۔ جس کا انگریزی ترجمہ پروفیسر منور علی ملک نے کیا۔اسی ایسوسی ایشن کی
دعوت پر آپ نے ’’ اسلام اور انسان کے جنسی مسائل‘‘ کے موضوع پر بھی کتاب
لکھی ۔ہمیں سن لو ( شاعری)،میں میرا دل اور شام( شاعری)۔چند شامیں فکرِ
اقبال کے ساتھ( نثر)گھر سے نکلے تو (شاعری) مہتاب رتوں میں آوارگی( خود
نوشت)برادرم تنویر خالد(ڈپٹی ڈائریکٹر انفارمیشن )کی کاوشوں سے شائع ہوئیں۔
سید نصیر شاہ مرحوم کا مطالعہ بہت وسیع تھا انہوں نے بشری حوالے سے دنیا کی
عمرانی اور تمدنی تاریخ کا مطالعہ کیا۔علاوہ ازیں دنیا کے معاشی نظام ہائے
فکر بھی ان کے مطالعے کے خاص موضوعات میں شامل تھے۔سید نصیر شاہ کی ایک
پہچان عربی کے معروف ادیب کے طور پر بھی ہے۔جہاں انکی نگارشات اردو کے
معروف علمی ماہناموں’’ طلوع اسلام‘‘ فکرو نظر،اور ثقافت کی زینت بنتی رہی
ہیں وہاں عربی کے ممتاز جرائد’’ الاسلام‘‘، ’’ الدین‘‘( مصر)۔ الخطاب(
دمشق) او ر البعث الاسلامی ( دہلی) میں بھی ان کے فکر انگیز مقالات شائع
ہوتے رہے ۔انہوں نے علامہ شبلی نعمانی کی تحریر کردہ سیرت النبی ﷺ کی جلد
اول کا عربی ترجمہ بھی کیا۔
سید نصیر شاہ مرحوم اپنی شخصیت کے حوالے سے ایک تحریک کا نام بھی
تھے۔میانوالی کے ادبی ماحول پر انکی شخصیت واضح طور پرہمیشہ چھائی رہی اور
رہے گی۔ممتاز مفتی کہیں لکھتے ہیں کہ ’’ کسی کو تخلیق کار بنانے کے لئے
قدرت کو بڑے جتن کرنے پڑتے ہیں‘‘۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا
کہ ’’ وہ لوگ جو آسودہ خاطر ہوں، تنگی ، کمی، کجی،حرماں نصیبی،تہی
دامانی،مفلوک الحالی ایسے دیگر مترادفات کی ’’نعماء ‘‘ ان کی ہم سفر نہ ہوں
تو یہ طے ہے کہ فنونِ لطیفہ کی اپسرائیں ان کے من آنگن میں رَقصاں نہیں ہو
سکتیں،یہی سبب ہے کہ صاحب ثروت ارباب بالعموم اعلیٰ تخلیقی اوصاف سے متصف
دکھائی نہیں دیتے۔سچ پوچھےئے مجھے تو محرومی سے بڑھ کر تخلیقیت کا خزانہ
اور کہیں نظر نہیں آسکا۔کیونکہ اضطراب، بے کلی، بے چینی،گھٹن ایسے اثمار
نارسائی کے شجر کی شاخوں پر ہی جھومتے ملیں گے۔پُر شکم کی تقدیر میں بجز
اضغاث الاحلام کے اور کیا ہو سکتا ہے۔جمیل احمد عدیل کیا خوبصورت بات کہتے
ہیں کہ ’’اگر پریم چند نے اپنے عہدِ طفولیت میں بھوک کی اذیت نہ سہی ہوتی
تو ’’کفن ‘‘ ایسا شاہکار اردو کے افسانوی ادب کو بھلا کب ارمغان کر سکتے
تھے۔‘‘
سید نصیر شاہ مرحوم کی ساری زندگی اس پر گواہی دیتی نظر آتی ہے کہ ’’فن کی
دیوی عشرت پر نہیں عسرت پرسو جان سے فدا ہوتی ہے ‘‘ وہ ایک ایسے درویش صفت
ادیبِ بے بدل تھے۔جو کبھی بھی شخصیات کے سحر میں مبتلا نہیں ہوئے۔ایسی ہی
شخصیات حق اور سچ کی راہ کی راہی ہوتی ہیں۔اور ایسے لوگ ان تمام چیزوں کو
کھو دیتے ہیں جنہیں دنیا کے دوسرے لوگ عزیز رکھتے ہیں۔یہی وہ راستہ ہے جو
کسی طرف سے ’’ پھانسی گھاٹ‘‘ کو جاتا ہے تو کسی جانب سے ’’کربلا ‘‘ تک یا
زہر کے پیالے تک۔۔۔۔ایسے ہی قلمکار اپنی تحریروں اور تخلیق سے مطمئن ہوتے
ہیں۔انہوں نے جس چیز کو حق و صدق سمجھا برملا اظہار کر دیا۔اور کبھی اپنی
تحریر کو دروغ باف کا حصہ نہیں بنایا۔
شاہ صاحب علم و ادب کے حوالے سے میانوالی کا دامن بھر کر اس دنیا سے چلے
گئے ہیں ۔تاریخ جب ایسے کرداروں کی کہانی لکھے گی جو اس مادہ پرست دنیا میں
کسی اور سیارے کی مخلوق نظر آتے ہیں۔ تو اس کہانی میں سید نصیر شاہ کا
حوالہ ضرور آئے گا۔۔۔ اس بے مثال کردار کی گواہی آنے والے ہر زمانے میں اس
کی علمی ، ادبی اور صحافتی خدمات پیش کرتی رہیں گی۔ |