مخدو م الاولیاء ،فنافی اللّٰہ ،بقا
باللّٰہ
سلسلہ نبوت اختتام پذیر ہو ا تو انسانیت کی رہنمائی کیلئے اﷲ تعالیٰ نے
ولایت کا در کھول دیا۔اس منصب پر فائز صاحبان قال وحال کو ’’ولی اﷲ‘‘ کہا
گیا۔یہ ولی اﷲ اپنے عمل وکردار کو نمونہ بنا کر انسان کو قرب الٰہی کی منزل
پر پہنچا دیتے ہیں۔یہ بات غیروں نے بھی تسلیم کی ہے کہ برصغیر میں دین
اسلام کی اشاعت کے لئے اولیاء اﷲ کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں ۔ان صاحبان
طریقت نے اس انداز سے توحید باری تعالیٰ اور عشق رسالت کے ان مٹ نقوش
انسانی دل ودماغ پرکندہ کئے کہ آج تک اولیاء کرام کی خدمات کو خراجِ تحسین
پیش کیا جارہا ہے۔
دنیانے کئی رنگ بدلے،کئی انداز اپنائے،مگراولیاء اﷲ نے مسلسل ایک انداز اور
استقامت سے سنت مصطفےٰﷺ اپنائے رکھی جو انسانیت کو متاثر کئے بغیر نہ رہ
سکی۔
ولایت کی یہ شان بھی رہی اور ہے کہ وہ دنیا داروں اور حکمرانوں کی خوشامد
سے کوسوں دور ہوتی ہے۔کیونکہ اولیاء کرام دلوں پر حکومت کرتے ہیں جو انسانی
جسم کا بادشاہ ہوتاہے۔یہی وجہ ہے کہ حکمران دنیا سے چلے جائیں تو نام ونشان
مٹ جاتے ہیں۔لیکن اولیاء عظام وصال فرماجائیں تو قیامت تک ان کو مانا جاتا
ہے اور ان کے عرس مبارک اور ذکرِ خیر کی مجالس سجائی جاتی ہے۔جیسے آج بھی
پاکپتن شریف میں عرس بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اﷲ علیہ ،لاہور میں عرس
مبارک حضور داتا گنج بخش رحمۃ اﷲ علیہ،جھنگ میں عرس حضرت سلطان باہو رحمۃ
اﷲ علیہ،گولڑہ شریف میں عرس پیر سید مہر علی شاہ،خانقاہ شریف میں عرس حضور
خواجہ محکم الدین سیرانی رحمۃ اﷲ علیہ،علی پورسیداں شریف میں عرس امیر ملت
وشاہ لاثانی رحمہم اﷲ اپنی مثال آپ ہیں۔اسی طرح ہمارے آقائے نعمت ،تاجدارِ
علی پورچٹھہ شریف ،فنافی اﷲ ،بقابااﷲ حضرت قبلہ پیر سائیں فقیر اﷲ اویسی
رحمۃ اﷲ علیہ بھی اولیاء کرام کی محفل کا جھومراور اتقیاء واصفیاء کی مجلس
کی زینت کا عرس مبارک ہر سال ۸۔۹صفرالمظفردربارِ عالیہ اویسیہ علی پورچٹھہ
شریف تحصیل وزیر آباد ضلع گوجرانوالہ میں نہایت دھوم دھام سے منایا جاتا
ہے۔اسی مناسبت سے آپ کی سیرت واحوال کے بارے مندرجہ ذیل سطور نظر قارئیں
ہیں:
نام: فقیر محمد (والدین نے رکھا)
والد کا نام: راجہ نادر خاں
پیدائش: چک بیلی تحصیل گوجر خان ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔
والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔محبت وشفقت کے ماحول میں پرورش پائی لیکن
والدین چھوٹی عمر میں وفات پا گئے۔
ہجرت: والد صاحب ہجرت کر کے ڈھوک سبھال نزد سوہاوہ ضلع جہلم آگئے ۔جہاں پر
سائیں صاحب کو اپنے ننھیا ل سے زمین بھی ملی۔
قوم: سائیں صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کی قوم ’’اعوان‘‘تھی۔شجرہ نسب کئی واسطوں سے
حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے۔
عبادت وریاضت : حضور سائیں صاحب بچپن سے ہی صوم وصلوٰۃ کے پابند تھے۔شریعت
وسنت پر سختی سے عمل پیرا رہتے۔والد صاحب کی وفات کے بعد چھوٹی عمر میں
زمیندار ی بھی کرتے اور سخت گرمی کے موسم میں روزہ بھی رکھتے۔کسی نے
کہا’’فقیر محمد‘‘نے روزہ رکھا ہے۔آپ اس کی بات سے ناراض ہوئے کہ میراعمل
کیوں بتایا۔آپ اپنا عمل ہمیشہ چھپاتے۔ریا سے سخت نفرت فرماتے۔
ملازمت: جوانی میں ریلوے کی ملازمت اپنائی۔
بیعت: دوران ملازمت حضرت شیخ المشائخ قبلہ پیر سائیں محمد ابراہیم اُویسی
رحمۃ اﷲ علیہ آستانہ عالیہ اویسیہ چک پروکا شریف 621گ۔ب ضلع فیصل آباد کی
زیارت وملاقات ہوئی۔شیخ المشائخ نے تھیلہ سے خربوزہ نکال کر سائیں صاحب کو
کھلایا۔خربوزہ کھاتے ہی پیر ومرشد کی محبت دل میں سما گئی۔
ملازمت چھوڑنا: حضور شیخ المشائخ رحمۃ اﷲ علیہ کی محبت سے ملازمت کے بارے
دل اکتا گیا۔ملازمت چھوڑ کرہمیشہ کیلئے پیرومرشد کے پیچھے چل دیے۔
پہلا چلہ: پیرو مرشد نے سائیں صاحب رحمۃ اﷲ علیہ میں ولایت کے آثار دیکھے
تو چلہ کشی کا حکم دیا۔مجاہدات کا سلسلہ شروع ہوا تو پہلا چلہ اپنے شیخ
المشائخ کے حکم سے ڈھوک سبھال ضلع جہلم میں کیا۔
دوسرا چلہ: دوسراچلہ اپنے پیر ومرشد کے آستانہ عالیہ پر زمین میں گڑھا کھود
کر مجاہدہ وریاضت کی۔دو سال دوران چلہ ومجاہدہ24گھنٹے بعد ایک گلاس دودھ یا
شربت سے گزر فرمایا۔
فقیر محمد سے فقیر اللّٰہ:حضور سائیں صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کا والدین نے نام
’’فقیر محمد‘‘ رکھا۔حضور سائیں صاحب رحمۃ اﷲ علیہ سلطان التارکین ،صاحب
السیر حضرت قبلہ محکم الدین سیرانی رحمۃ اﷲ علیہ کے مزار مبارک پرحاضرہوئے
تو مزار سے آواز آئی’’فقیر اﷲ‘‘۔آپ کو اس اشارہ سے اتنا سکون ہوا کہ آپ نے
اپنا اسم مبارک ’’فقیر محمد‘‘ سے ’’فقیر اﷲ‘‘ کر دیا۔اسی نام سے مشہور
ہوئے۔
القاب:حضرت سائیں فقیر اﷲ اویسی رحمۃ اﷲ علیہ کے مختلف القابات ہیں۔لیکن
حضور بدرالمشائخ قبلہ پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمۃ اﷲ علیہ (خلیفہ خاص
حضور سائیں صاحب)جب شجرہ شریف میں اپنے پیرومرشد کا شعر لکھنے لگے توغیب سے
اشارہ ہو اکہ حضرت سائیں فقیر اﷲ اویسی رحمۃ اﷲ علیہ فنافی اﷲ وبقاباﷲ بھی
ہیں۔انہی القابات سے مشہورہوئے۔
مختلف جگہوں پر قیام اور تعمیر مساجد:آپ نے دوران حیات ظاہر ی مختلف مقامات
پر قیام فرمایا۔ان میں سے فیروز پور مشرقی پنجاب انڈیا میں قیام فرمایا اور
مسجد بنوائی۔ڈھوک سبھال میں قیام کے دوران مسجد بنوائی۔کچھ عرصہ گکھڑ میں
قیام فرمایا۔وہاں حضرت پیر عبداﷲ شاہ رحمۃ اﷲ علیہ کے مزار کے قریب چارپائی
پرکوئی بیٹھ نہیں سکتا تھا۔آپ کے دوران قیام گکھڑ آپ چارپائی پر بیٹھے تو
لوگ حیران رہ گئے تو تمام لوگ آپ کی ولایت کے معترف ہوئے اور سینکڑوں لوگ
آپ کے مرید ہو گئے۔
سرزمین علی پورچٹھہ شریف پر تشریف آوری:1928ء میں سرزمین علی پو رچٹھہ پر
تشریف فرما ہوئے۔دوران قیام گنبد والی مسجد کی خستہ حالت دیکھ کر مرمت
کروائی۔
پہلاحج مبارک:1930ء میں پہلا حج مبارک فرمایا۔حج سے واپسی پر اطلاع ملی کہ
گنبد والی مسجد کی اینٹیں کچھ لوگوں نے گھر میں استعمال کر لی ہیں۔حضور
قبلہ سائیں صاحب رحمۃ اﷲ علیہ اس عمل پرناراض ہو کر چلے گئے۔فرمایا ہم یہاں
نہیں رہیں گے اور جس نے مسجد کی اینٹیں گھر میں استعمال کی ہیں وہ بھی نہیں
رہے گا۔آج تک وہ اس مکان میں نہیں رہ سکے۔
دوسری مسجد:گنبد والی مسجد سے آپ نے شہر کے مغرب جانب جامع مسجد درس القرآن
کی بنیاد رکھی اور مکمل تعمیر کروائی۔
فتح پور چٹھہ آمد:1930ء میں آپ فتح پورچٹھہ تشریف لائے۔وہاں پربھی اپنے
مرید چوہدری حسین محمد چٹھہ اور چوہدری شادی خاں چٹھہ کے ہاں مسجد تعمیر
کروائی اور لوگوں کو صراط مستقیم پر چلنے کی تبلیغ کرتے رہے۔
علی پورچٹھہ موجودہ جگہ پرجلوہ گری:1940ء میں موجودہ آستانہ عالیہ اویسیہ
نزد ریلوے اسٹیشن تشریف لے آئے۔یہاں بھی عظیم الشان مسجد کی بنیاد رکھی
جوآج شہر کی خوبصورت مساجد میں سر فہرست ہے۔
معمولات: حضور قبلہ سائیں فقیر اﷲ اویسی رحمۃ اﷲ علیہ ساری زندگی تعلیم
قرآن وسنت کو عام کرتے رہے ۔عبادت وریاضت کا یہ عالم تھا کہ بدرالمشائخ
قبلہ پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے پیر ومرشد
جب رات کو عبادت وریاضت فرماتے تو جسم کے اعضاء علیحدہ علیحدہ ہوجاتے اور
ہر حصہ سے ذکر الٰہی کی آواز آتی۔ طلباء کو ترجمۃ القرآن وتفسیر القرآن
پڑھاتے اور اخلاقی وروحانی تربیت بھی فرماتے ۔
عقیدہ کی مضبوطی :حضور قبلہ سائیں صاحب رحمۃ اﷲ علیہ عقیدۂ اہلسنت پر بہت
مضبوط تھے۔کسی بدمذہب ،گستاخِ رسول، گستاخِ صحابہ واہل بیت اور گستاخِ
اولیاء کو پسند نہ فرماتے ۔ گستاخان کی سخت مذمت فرماتے۔
تحریکِ پاکستان میں کردار: حضور قبلہ سائیں صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے تحریک
پاکستان کی کامیابی کیلئے نہ صرف دعا فرمائی بلکہ اپنے مریدین (جن کی تعداد
ہزاروں میں ہے)کو حکماً فرمایا کہ پاکستان کے قیام کی جدوجہد میں مجاہدانہ
کردار ادا کریں۔مسلم لیگ کی بھر پور حمایت فرمائی۔
وصال:1380 ہجری محرم شریف کا جمعۃ المبارک پڑھایا۔مثانہ کی تکلیف ہوئی تو
لاہور لے جا یاگیا جہاں پر دو آپریشن ہوئے۔20دن میوہسپتال میں داخل
رہے۔9صفرالمظفر 1380ہجری بروز بدھ بمطابق 3اگست 1960ء صبح 9بجے وصال
فرماگئے۔مزار شریف کا کام مسلسل 3روز تک جاری رہا۔آپ کے حکم پر مزار مبارک
جامع مسجد اویسیہ نزد ریلوے اسٹیشن کے صحن میں تعمیر کیا گیا جو آج مرجع
خلائق ہے۔
آپ کا عرس مبارک ہر سال9صفرالمظفر کو نہایت عقیدت اور شان وشوکت سے منایا
جاتا ہے ۔جس میں جید علماء کرام مشائخ عظام اور نامور نعت خواں وقراء حضرات
شرکت فرماتے ہیں۔عرس مبارک کی تمام تر تقاریب کی صدارت عالمی مبلغ اسلام،
قائد تحریک اویسیہ پاکستان حضرت علامہ پیر غلام رسول اویسی سجادہ نشین
آستانہ عالیہ اویسیہ علی پور چٹھہ شریف فرماتے ہیں جبکہ سرپرستی جانشین شیخ
المشائخ حضرت قبلہ پیر محمد اسماعیل اویسی و حضرت پیر محمد اسحاق احمد
اویسی سجادگان دربار عالیہ اویسیہ چک پروکا شریف ضلع فیصل آباد کرتے ہیں
۔عرس مبارک کی نگرانی شبیہ بدرالمشائخ حضرت پیر میاں غلام اویس اویسی علی
پور چٹھہ شریف کرتے ہیں ۔عرس مبارک احیائے تصوف ،فروغ امن و محبت ،اشاعت
تعلیمات اولیاء اور فروغِ جذبۂ حب الوطنی کے لئے نہایت کارگر ثابت ہوتا ہے
۔تشنگانِ روحانیت اپنے مرشد و مربی کے دربار شریف پر حاضری دیکر روحانی
پیاس بجھاتے ہیں اور خانقاہ شریف پر کھڑے ہو کر خصوصی دعا کر کے قبولیت سے
سرشار ہو کر اپنے اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں ۔آپ بھی قافلہ در قافلہ عرس مبار
ک میں شرکت فرما کر روحانی فیوض برکات حاصل کریں۔ |