”اگر یہ مولوی ایک پلیٹ میں
کھانے لگ جائیں تو سارے مسائل حل ہوجائیں؟“ڈاکٹر منیراحمد ابھی اپنی بات
مکمل بھی نہ کرپائے تھے کہ پروفیسرراشد اقبال نے جگالی کرتے ہوئے لب کھولے
”کیوں جی !اگر یہ علماء اکٹھے ہوجاتے تو انگریزوں کی مجال تھی کہ وہ
ہندوستانیوں میں پھوٹ ڈالواتے؟“ ابھی یہ مکالمہ جاری ہی تھا کہ اچانک بڑے
میاں یہ شعر پڑتے ہوئے
فرد قائم ربط ِملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
آدھمکے، ”ہاں بھائی! ہم آپ لوگوں کی گفتگوکافی دیر سے سن رہے تھے مگر طبعیت
پرکوئی خاص اثرنہ پڑا ،مگرجب پروفیسرصاحب کی بات کان میں پڑی توماضی کی تلخ
یادیں تازہ ہوگئیں،مولویوں کے اتحاد کی بات تو برسوں سے چلی آرہی ہے ،بڑے
بڑے مفکرین دانشور اور اہل ِعلم حضرات بارہا سرجوڑ کر بیٹھے کہ کسی طرح قوم
کے یہ پیشوا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں ،مگر ہربار یہ کوشش رائیگاں جاتی
رہی ۔ان مقتداﺅں کے باہمی اختلاف کی وجہ سے معاشرے میں اب ایک پلیٹ میں
کھانا بھی” معیوب “ہوگیاہے اورنوبت یہاں تک آن پہنچی کہ سوسائٹی میں مولوی
کا لفظ ایک طرح” گالی“ بن چکاہے جو انتہائی افسوسناک امر ہے۔ایک زمانہ تھا
کہ شہر کے شہر ایک مولوی صاحب کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے میدان میں کود
پڑتے اور جان جوکھوں میں ڈال کر بڑی سے بڑی مصیبت کاصفایا کردیتے ، اور جو
قدر اس زمانے میں مولوی صاحب کی ہوتی شاید ہی کسی اور کی ہو؟بڑے میاںکے
”ایامِ ماضی کی یادوںکا دریچہ “کھل ہی رہا تھا کہ ہم کف ِ افسوس ملتے ہوئے
وہاں سے چل دیئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ باہمی اختلافات قوموں کے زوال کا سبب بنتے ہیں ۔
اتحاد ایک ایسی دولت ہے جس سے قومیںوجود میں آتی ہیں معاشرے بنتے ہیں اور
تہذیبیں پروان چڑہتی ہیں،اتحاد وہ سرمایہ ہے جس کی حفاظت کا درس اسلام نے
دیا اورتفرقہ سے منع کیا۔ارشاد ِ باری کہ”اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے
رکھو اور آپس میں تفریق نہ ڈالو“اس کی بیّن دلیل ہے۔اسلامی تاریخ شاہد ہے
کہ جب تک مسلمان اتحاد واتفاق والی دولت سے مالا مال رہے دنیا پر غالب رہے
اور جب مفادات کی خاطر الگ الگ راستوں پر چلنے لگے تو ہزیمت ورسوائی ان کا
مقدر ٹھہری۔خلافت ِعباسیہ ،بنو امیہ ،خلافت عثمانیہ ا ورسلطنتِ مغلیہ کا
آفتاب باہمی انتشار وخلفشار ہی کی وجہ سے غروب ہوا۔آج مسلمان دنیا میں
مغلوب ہیں تو اس کا سبب صرف اور صرف وحدت کے شیرازہ کا بکھرنا ہے۔اسی طرح
ملکِ پاکستان آج جن مسائل کا شکار ہے اس کی سب سے بڑی وجہ باہمی اعتمادا
وراتحاد کا فقدان ہے۔حکومتی ادارے ہوں یا عوامی حلقے ،سیاستدان ہوں یا عوام
الناس ،اہل ِ علم ہوں یا دانشور ،خطباءہوں یا شعرا ،اساتذہ ہوں یا طلباءہر
ایک اس موذی مرض میں مبتلا ہے۔دور کیوں جائیں ؟قوم کے رہبروں اور مقتداﺅ ں
کا حال دیکھ لیں تو سب واضح ہوجائے گا ۔
حال ہی میں پاکستان کی مذہبی جماعتوں نے الگ الگ سیاسی محاذ کھولے جومتحدہ
مجلس عمل اور متحدہ دینی محاذکے نام سے موسوم کیے گئے ، ان میں اول کی
قیادت مولنا فضل الرحمان اور دوسرے کی مولنا سمیع الحق کے ہاتھ میں ہے
۔متحدہ مجلس عمل کے محاذکی نگہبانی پانچ جماعتیں کررہی ہیں جن میں جمعیت
علماءاسلام (ف)،جمعیت اہل حدیث ،جے یو پی نورانی ،اسلامی تحریک پاکستان اور
جمعیت علماءاسلام سینئرشامل ہیں،اور متحدہ دینی محاذکواہلسنت والجماعت
(احمدلدھیانوی )جمعیت علماءاسلام نظریاتی ،جمعیت علماءاسلام (س)جمعیت اہل
حدیث (ابتسام الہی )جمعیت علماءاسلام سواد اعظم سے مرکب بنایا گیا ہے ،تاہم
مذہبی لبادہ اوڑھ کر سیکولر جماعتوں کی دیگ کا کف گیر بننے کی خواہش رکھنے
والی جماعت اسلامی ان دو محاذوں میں شامل نہیں ،جویقینا ان دونوں محاذوں کے
لیے ایک بری خبر ہے ۔مذہبی جماعتوں کا اس طرح دھڑا بندی کرنا باعث ِنقصان
بھی ہے اور جگ ہنسائی کا سبب بھی ،کیوں کہ اس طریقہ سے الیکشن میں صورتحال
”متحدہ مجلس عمل بمقابلہ متحدہ دینی محاذ“والی بن جائی گی جس سے ایک طرف
مذہبی جماعتوں کا ووٹ تقسیم ہوجائے گا تودوسری طرف عوام کے دلوں میں بلکہ
دنیامیں ان کا امیج پہلے سے زیادہ گر جائے گا اوراس سارے کھیل سے فائد ہ
لامحالہ سیکولر پارٹیوں کو ہوگا ۔نتیجہ وہی نکلے گا!کہ مسائل حل ہوں گے ،نہ
عدل وانصاف اور امن وامان کی راہ ہموار ہوگی،قوم کو صالح قیادت میسر آئی گی
،نہ معاشرے کی فلاح وبہبود اور ملک کو ترقی یافتہ بنانے والے باکردار عادل
حکمران ملیں گے بلکہ پہلے سے زیادہ مسائل بڑھ جائیں گے اورملک کی بنیادوں
کو کھوکھلا کرنے والے کرپٹ حکمرن دوبارہ برسرِ اقتدار آجائیں گے اور اس کا
فائدہ دشمنان ِوطن کوہوگا اور پاکستا ن کے”صحیح اسلامی فلاحی ریاست “ بننے
کا خواب ادھورا رہ جائے گا۔لہذا مذہبی جماعتوں کو عاقبت اندیشی کا مظاہرہ
کرناچاہیے اور ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں بنانے سے گریز کرنا چاہیے اور سابقہ
متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم پر جمع ہوکر بھرپور انداز میں سیاسی ومذہبی
طاقت کا مظاہر کرنا چاہیے تاکہ کم ازکم سابقہ 58سیٹیں تو بحال ہوجائیں ۔
ورنہ اگر اس طرح نئے نئے محاذکھلتے رہے توحالات مزید گمبھیر ہوجائیں گے اور
مملکت کی بقاءکے لیے خطرات بڑھ جائیں گے اور پروفیسر راشد اقبال جیسے لوگوں
میں بھی اضافہ ہوتاچلا جائے گا جو ہمیشہ اپنے ہاتھ اہل ِعلم کے دامن سے صاف
کرتے رہیں گے ۔خدارا!ملک وملت کے تحفظ کی خاطر متحد ہوجائیں ،دفاع پاکستان
کے خاطر یکجاء ہوجائیں ،اپنے وقار ،مقام ،کردار اوردین اسلام کی خاطر ایک
صف میں کھڑے ہوجائیں کیوں کہ :
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک |