کشمیری مہمان

مقبوضہ کشمیر سے چند زعما ءپاکستان تشریف لائے ہوئے ہیں۔ پاکستان ان کا اپنا گھر ہے، ہم انہیں پاک سرزمین پر خوش آمدید کہتے ہیں۔سردیاں گزارنے آئیں، دوستوں، رشتہ داروں سے ملیں ، اپنے ملک کے کونے، کونے سے آشنائی حاصل کریں۔ عوام و خواص کو ملیں، پاکستان کے حالات کا جائزہ لیں، اس کی مشکلات کو کم کرنے کے لیے تجاویز دیں۔ حکمرانوں سے ملیں ، سیاستدانوں سے تبادلہ خیال کریں، سماجی اور سیاسی تقریبات میں شرکت کریں اور اہل پاکستان کو قریب سے دیکھیں۔ آزادی کے بعد انہی لوگوں سے پالا پڑنا ہے، اس لیے انہیں بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملے گی۔اس سب کے ساتھ انہیں کشمیر اور اہل کشمیر کا بھی خیال رکھنا چاہیے کیونکہ کشمیر گزشتہ نصف صدی سے آزادی کی تحریک کی آزمائشوں سے گزر رہا ہے۔ اہل پاکستان بھی ان کی جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ موجود ہیں لیکن گزشتہ چند سالوں سے ہماری حکومتوں نے کشمیر کو نظر انداز کرنا شروع کررکھا ہے۔جب پاکستان کے حکمران کشمیریوں کے ساتھ تھے تو انہوں نے تکمیل پاکستان کے لیے اپنا سب کچھ پیش کردیا تھا اور قربان کردیا، ایسی قربانیاں پیش کیں کہ ان کی مثال شاذ ہی پیش کی جاسکے۔

9/11 کے واقعے کے بعد ناجائز قابض حکمران پرویز مشرف نے کشمیر پالیسی پر ایسا یو ٹرن لیا کہ کشمیر کے تحریک صدیوں پیچھے غلامی کی اندھیروں میں دھکیل دی گئی۔ پاکستان کشمیریوں کے بجائے ان کے قاتل بھارت کے ساتھ کھڑا ہوگیا اور اس سے ظاہری اور باطنی (پس پردہ) دوستی کی پنگیں بڑھانا شروع کر دیں۔ تحریک آزادی کو سرد خانے میں ڈالنے کے لیے بس سروس اور انٹرا کشمیر ٹریڈ کا ڈھونگ رچایا گیا۔ سافٹ باڈر کے نام پر بھارت کو باڑ لگانے کی کھلی چھٹی دی گئی کہ وہ کشمیر پر اپنا قبضہ مضبوط تر کرتا رہے۔ان اقدامات نے اہل کشمیر کے جذبہ حریت کو نہ صرف پامال کیا بلکہ وہ نصف صدی پر پھیلی ہو ئی اپنی جدوجہد اور لا زوال قربانیوں پر نادم ہونے لگے۔ سالوں تک بھارتی جیلوں میں ستم سہنے والے حریت پسندوں کی زخم ہرے ہونے لگے اور ہر طرف سے طعنے اور تشنع کا سامنا کرتے رہے۔ بدقسمتی سے پرویز مشرف کو مقبوضہ اور آزادکشمیر سے غداران ملت کاایک ٹولہ بھی میسر آگیا جس نے اس آمر کی ہاں میں ہاں ملائی اور تحریک آزادی کو سبوتاز کرنے کا کام باآسانی تکمیل کو پہنچا۔ وہ کام جو دشمن ساٹھ سالوں میں نہ کرسکا بھائیوں کے روپ میں چپے دشمنوں نے چند ماہ میں کر دیکھایا۔ ان اقدامات نے جذبہ آزادی اور تحریک تکمیل پاکستان کو خاکستر کر دیا۔آمر مطلق کے ہمنوا یہی لوگ تھے جو کچھ عرصہ قبل پاکستان کو بائی پاس کرکے براہ راست بھارت سے مذاکرات کرتے رہے۔

آج کے حکمران کشمیریوں کے قاتل بھارت کو اپنا پسندیدہ ترین ملک قرار دینے جار رہے ہیں اور انہیں خطرہ ہے کہ اندرون ملک سے شدید ردعمل سامنے آئے گا۔ ایسے میں انہوں نے مقبوضہ کشمیر سے چند زعماءکو مدعو کرکے اہل پاکستان کو یہ تاثر دینے کی کو شش کی ہے کہ اہل کشمیر ان کے ساتھ ہیں۔دنیا جانتی ہے کہ جس طرح پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کو عوامی حمایت حاصل نہیں اور نہ ہی انہیں اس کی ضرورت ہے بالکل اسی طرح ان کشمیری زعماءکو بھی اہل کشمیر کی حمایت و تائید حاصل نہیں اور نہ ہی انہیں اس کی پروا ہے۔اسی لیے ان کی پاکستان آمد پر اہل پاکستان نے کوئی نوٹس نہیںلیا اور نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں ان کے آنے اور جانے کا کوئی نوٹس لیتا ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہندوستان کچھ لوگوں کو مکمل تحفظ بھی دیتا ہے اور ہر طرح کی سفری سہولتیں بھی باہم پہنچاتا ہے اور کچھ قائدین کو پاسپورٹ تک جاری کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔

اہل پاکستان کے دل کشمیریوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ کشمیری قائدین تشریف لائیں تو وہ گھروں میں چھپے رہیں لیکن معاملہ قربانیوں اور کردار کا ہے۔ اہل پاکستان نے اپنے بچوں کا گرم، گرم خون اس تحریک میں پیش کیا ہے ، وہ کشمیر سے لاتعلق نہیں رہ سکتے اور نہ کشمیریوں سے بے رغبتی برت سکتے ہیں۔ اس وفد میں تشریف لانے والے ہمارے معزز مہمان ہیں، ہم انہیں خوش آمدید کہتے ہیں لیکن انہیں شہداءکے خون اور اس پاکیزہ تحریک کو سبوتاز کرنے کی سازش کا حصہ نہ بننے کی گزارش بھی کرتے ہیں۔ یہ بھی مناسب نہیں کہ کسی مخصوص کمیونٹی اور محلے کی سطح کے لوگ خود کو تحریک حریت اور آل پارٹیز کا نمائندہ ظاہر کریں۔ سید علی گیلانی اور مرد حُر یاسین ملک کے بغیر نہ تحریک حریت مکمل ہوتی ہے اور نہ آل پارٹیز کا لاحقہ لگایا جاسکتا ہے۔یہ بات اب بتلانے کی نہیں کہ کشمیریوں کے دلوں کی دھڑکن کون ہے اور کون نہیں۔وہ دور لد گیا جب راولپنڈی سے یہ فیصلہ ہوتا تھا کہ کشمیر کی قیادت کون کرے گا۔ اب یہ فیصلہ میدان کارزار میں ہوتا ہے اور قیادت میدان میں موجود ہے۔ میڈیا اور مراعات کے ذریعے قیادت تشکیل نہیں دی جاسکتی۔ میدان حریت میں موجود باشعور انسان ایک مسلمہ قیادت کے زیر اثر آزادی کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں، انہیں دھوکہ نہیں دیا جاسکتا۔ ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد نے انہیں بہت جہاندیدہ بنادیا ہے۔اب ان کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ممکن نہیں، یہ کار لا حاصل ہے۔

پاکستان کے پالیسی ساز اداروں کو اس جعل سازی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ 1965 ، 1971 اور موجودہ تحریک آزادی کا ریکارڈ گواہ ہے انہیں اس کی روشنی میں ہی مستقبل کا لائحہ عمل مرتب کرنا چاہیے۔ ہم کشمیریوں کے زخموں پر بہت نمک پاشی کر چکے ہیں، انہیں مزید آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ انہوں نے قربانیاں دی ہیں، وہ پاکستان سے بے لوث محبت کرنے والے لوگ ہیں۔ اس لیے وہ ایسے مذاق کے متحمل نہیں ہوسکتے۔اہل کشمیر اچھی طرح جانتے ہیںکہ پاکستان کے بیس کروڑ مسلمان انہیں نظرانداز نہیں کرسکتے۔ حکمران کچھ بھی فیصلہ کرلیں، پاکستان کے عوام اہل کشمیر کی پشت پر ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ حالات بدل جائیں گے اور تاریخ فیصلہ کرے گی کہ کون محمد بن قاسم ہے اور میر جعفر اور میر صادق۔ پاکستان کی تاریخ بھی گواہ ہے کہ اس کے ساتھ بے وفائی کرنے والے بھی عبرتناک انجام دے دوچار ہوئے ہیں۔ آج کے ارباب بست و کشا نے یہ فیصلہ خود کرنا ہے کہ ان کا شمار کس صف میں کیا جائے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اللہ کی راہ میں دی جانے والی قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں گئیں اور نہ انہیں فراموش کیا جاسکتا ہے۔ وقتی طور پر کچھ گرد اڑائی جاسکتی ہے لیکن اللہ کے فیصلے کو بدلنا ممکن نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہی نہیں کہ اس کی راہ میں جان کے نذرانے پیش کرنے والے شکست کھا جائیں اور شہداءکے خون پر مراعات لینے والے زیادہ دیر عیش و عشرت کرتے رہیں۔ یہ ممکن نہیں، ہرگز ممکن نہیں، جس نے تجربہ کرنا ہے وہ ہمت کرلے، انجام بھی دیکھ لے گا۔
Atta ur Rahman Chohan
About the Author: Atta ur Rahman Chohan Read More Articles by Atta ur Rahman Chohan: 129 Articles with 117136 views عام شہری ہوں، لکھنے پڑھنے کا شوق ہے۔ روزنامہ جموں کشمیر مظفرآباد۔۔ اسلام آباد میں مستقل کالم لکھتا ہوں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی تشکیل .. View More