کراچی ایکسپو سینٹر میں وقتاً
فوقتاً نمائش کا اہتمام ہوتا رہتا ہے۔ ڈیڑھ ماہ قبل آئیڈیاز
2012منعقدہوئی۔اور ہفتہ قبل پانچ روزہ بک فیئر کا انعقاد کیا گیا۔
اب21دسمبر سے تین روزہ انڈیا ایکسپو منعقد ہو رہی ہے۔ جو کہ تجارتی نوعیت
کی بنا پر اہمیت کی حامل ہے۔
انسان معاشرت پسند واقع ہوا ہے۔ معاشرے کے بغیر کوئی شخص تن تنہا اپنی
ضروریات پوری نہیں کر سکتا۔ اسی طرح کوئی ملک عالمی برادری سے تعاون کے
بغیر ملکی ضروریات کو خاطرخواہ طریقے سے پورا کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
اللہ تعالیٰ نے ہر خطہ ارضی کومختلف نعمتوں سے مالامال کر رکھا ہے۔ بعض
ممالک ذرخیز زمین رکھتے ہیں، جو ذرعی اجناس کی پیداوار میں خودکفیل ہے۔ کچھ
خطوں میں معدنی ذخائر کی فراوانی ہے۔ بعض ریاستیں صنعتی پیداوار میں ترقی
کے منازل طے کر رہی ہیں۔الغرض بین الاقوامی تجارت کی ضرورت و اہمیت اپنی
جگہ مسلّم ہے۔ ہر ملک ضروریات کی اشیاءدرآمد کرتا ہے اور اپنی پیداوار کو
برآمد کرکے ذرمبادلہ کماتا ہے۔ تجارتی روابط قائم کرنے کے لئے ہر ملک دوسرے
ممالک سے تعلقات کو بڑھاتا ہے اور عالمی منڈیوں تک رسائی کو یقینی بناتا ہے۔
یورپین ممالک کچھ عرصہ پہلے ایک دوسرے کے دشمن تھے لیکن اب ٹریڈ یونین کے
نام پر متحد ہو چکے ہیں۔ چین‘ پاکستان سمیت انڈیا اور تائیوان وغیرہ سے
تجارتی معاہدے کررہا ہے۔ امریکہ نے روس کو پسندیدہ ملک کا درجہ دے رکھا ہے۔
پاکستان اقتصادی تعاون کی تنظیم (ایکو) کے ذریعے تجارتی و اقتصادی ترقی کے
لئے کوشاں ہے اور دنیا کے دیگر ممالک سے تجارتی روابط بڑھا رہا ہے۔ اقتصادی
ترقی کے لئے عالمی منڈیوں تک رسائی لائق تحسین ہے لیکن یاد رہے تجارتی
سرگرمیاں تب ہی سودمند ثابت ہوسکتی ہے جب فریقِ ثانی سے دشمنی اور نزاع کی
کیفیت قائم نہ ہو۔
بھارت چالاک اور مکار دشمن ہے۔ وہ روزِ اول سے پاکستان کے وجود کو برداشت
نہیں کر سکتا۔ گزشتہ سال یورپی یونین نے پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں
کے باعث75 پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات پر ڈیوٹی کی کمی کا پیکج دیا تھا تاکہ
پاکستان یورپی منڈیوں تک رسائی حاصل کر سکے۔
ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے چارٹرکے تحت یورپی یونین کے اس پیکج کے نفاذ کے
لئے تمام رکن ممالک کا متفق ہونا ضروری ہے۔ اس سے قبل بھارت ”WTO“ میں
پاکستان کی مسلسل مخالفت کرتا رہا جس کے باعث پاکستان یورپی منڈیوں تک
رسائی حاصل نہ کر سکا۔ لیکن اب بھارت کو پاکستان کے ذریعے افغانستان اور
وسطی ایشیا تک اپنی تجارت کا دائرہ وسیع کرنا مقصود تھا تو اس نے چالاکی سے
کام لیتے ہوئے پاکستان کو یقین دلایا کہ اب ”ڈبلیو ٹی او“ میں وہ پاکستان
کی مخالفت نہیں کرے گا۔ ہمارے حکمرانوں نے دامِ فریب میں آکر بھارت کو
پسندیدہ ترین ملک (MFN) قرار دے دیا جبکہ دوسری طرف بھارت نے بنگلہ دیش کی
حسینہ واجد سے پاکستان کی مخالفت میں ووٹ ڈلوا کر یورپی یونین سے تجارتی
روابط کا معاہدہ منسوخ کروا دیا۔
واضح رہے کہ بھارت نے 1996ءمیں پاکستان کو ”پسندیدہ ترین ملک“ کا درجہ دے
دیا تھا لیکن دوسری طرف غیر قانونی طریقے سے ”انڈین اسٹینڈرڈ“ کی آڑ میں
پاکستانی مصنوعات پر نان ٹیرف بیریئر لگا دیئے۔ یعنی پاکستانی تاجروں کی
بھارتی منڈیوں تک رسائی بہت مشکل بنادی۔
کراچی ایکسپو سینٹر میں 21 تا 23 دسمبر تین روزہ انڈیا ایکسپو کے نام سے
بھارتی مصنوعات کی نمائش شروع ہو گئی ہے۔ جس میں بھارتی انجینئرنگ انڈسٹری
کی مصنوعات پیش کی جائے گی۔ تجارتی روابط بڑھانے کے لیے بھارت پاکستان سے
ہر طرح کے تعلقات کا خواہاں ہے۔ ”چانکیہ سیاست“ کے ذریعے وہ پاکستانی
منڈیوں پر دسترس چاہتا ہے اور پاکستان کو تجارتی راہداری کے طور پر استعمال
کر کے وسطی ایشیا تک رسائی کا خواہش مند ہے۔
مندرجہ بالہ سطور میں واضح کر چکا ہوں کہ تجارتی روابط ہر ملک کے لئے
انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔ لیکن پاک بھارت تعلقات کی نوعیت کیا ہے؟
وہ ملک جو پاکستان کو دنیا کے نقشے پر دیکھنا گوارا نہیں کرتا۔ جس نے
پاکستان پر 1965ءمیں جنگ مسلط کی۔ 1971ءمیں پاکستان کو دولخت کردیا۔
پاکستان کو دھمکانے کے لئے برصغیر میں ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا۔ 65 سال
سے پاکستان کی شہہ رگ پر قابض ہے۔ پاکستان کو بنجر بنانے کے لئے دریاﺅں پر
بیسیوں ڈیم بنا رہا ہے۔ ”گریٹر بلوچستان“ اور ”سندھو دیش“ کے منصوبوں پر
زوروشور سے کام کررہا ہے۔ افغانستان میں کونسل خانوں کی آڑ میں پاکستان
مخالف گھناﺅنی سازشوں میں مصروف ہے۔
کیا بھول گئے چند روزقبل وفاقی وزیر داخلہ عبدالرحمن نے بھارت کی سرزمین پر
کھڑے ہوکر کیا کہا؟ ” را “ بلوچ علیحدگی پسندوں کو ڈیل کررہا ہے۔ جب پوری
قوم جان چکی ہے کہ بھارت پاکستان میں مداخلت کرکے امن و امان کو تباہ کررہا
ہے تو بھارت سے تعلقات کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟
16 دسمبر کو لاہور سے دفاع پاکستان کونسل کے زیر اہتمام واہگہ بارڈر تک
لاکھوں افراد نے بھارت سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے دفاع پاکستان کاررواں
میں حصہ لیا۔ کاررواں کے شرکا سے جماعة الدعوة کے امیر پروفیسر حافظ محمد
سعید نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہے
اسے پسندیدہ ملک قرار دینے کا جواز باقی نہیں رہتا۔جنرل (ر)حمید گل نے سخت
الفاظ میں بھارت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے دنوں بڑے نظام پاکستان
کی دہلیز پر آ کر ڈوب گئے ہیں بھارت نوشتہ دیوار پڑھ لے۔ دفاع پاکستان مارچ
نے اس بات کا اظہار کیا کہ پاکستانی قوم بھارت سے تجارت نہیں چاہتی۔ لہٰذا
حکمران دوستی کی پینگیں بڑھانے سے باز رہیں اور ایکسپو سینٹر میں منعقد
ہونے والی تجارتی نمائش روک دیں۔
ہم تجارت کس بنیاد پر کریں؟ لاکھوں کشمیریوں کے خون پر؟ جو عرصہ 65 سال سے
بھارتی ظلم و جبر کے شکنجے میں پِسے جارہے ہیں۔ دریائی پانی روک دینے پر ؟
جس سے پاکستان کی سرزمین بنجر بنتی جارہی ہے۔ صوبوں میں علیحدگی کی تحریکیں
پروان چڑھانے پر؟ جو پاکستان کو شورش زدہ کررہے ہیں۔ پاکستانی منڈیوں پر
بھارتی بالادستی کے خواہاں، امن کی فاختائیں اڑانے والے یاد رکھے قوم تمہیں
معاف نہیں کرے گی! |