بدقماش نتھورام نے شان رسالت میں
گستاخانہ کتاب لکھی تو کراچی میں آگ بھڑک اٹھی۔ یہ 1935ء کی بات ہے، لوگ
سڑکوں پر نکل آئے، جلسے، جلوس اور مظاہرے ہوئے لیکن انگریز حکومت ٹس سے مس
نہ ہوئی۔ حکومتی بے حسی کی وجہ سے مسلمانوں کو قانون ہاتھ میں لینا پڑا،
عبدالقیوم نامی نوجوان نے موقع پاکر گستاخ کو ذبح کرڈالا، اسے گرفتار کرلیا
گیا، مقدمہ چلا، سزائے موت سنائی گئی اور ایک صبح پھانسی دے دی گئی۔ مسلمان
غازی عبدالقیوم کی میت کو جلوس کی شکل میں قبرستان لے جانا چاہتے تھے،
حکومت کو یہ گوارا نہ تھا، ہزاروں مسلمانوں کا جلوس شروع ہوا تو پولیس نے
اسے گھیر لیا، شرکاء مسلسل آگے بڑھتے رہے، مجسٹریٹوں نے گولی چلانے کا حکم
دے دیا، پولیس نے 100 سے زائد غلامان مصطفی کے لاشے گرادیے، زخمیوں کی
تعداد بھی سینکڑوں میں تھی۔ جن مجسٹریٹوں نے گولی چلانے کا حکم دیا تھا ان
میں سے ایک شہر کے معروف سیاست دان سرداراﷲ بخش گبول بھی تھے۔ انگریز حکومت
نے انہیں اعزازی طور پر مجسٹریٹ کا درجہ دیا ہوا تھا، واقعے کا شدید ردعمل
سامنے آیا، گبول خاندان کو جان کے لالے پڑگئے، سرداراﷲ بخش کراچی چھوڑکر
بھاگ گئے، اہل خانہ بھی ادھر ادھر ہوگئے، مگر قوم کا حافظہ دیکھیے، یہی
سرداراﷲ بخش گبول محض 2سال بعد اسی علاقے سے سندھ اسمبلی کے رکن منتخب
ہوگئے، جہاں غازی عبدالقیوم کی قبر تھی۔ بعد میں ان کابیٹا عبدالستار اور
آج کل ان کا پوتا نبیل گبول اسی علاقے سے اسمبلی میں پہنچتا ہے۔
یہ کوئی پہلا واقعہ ہے نہ آخری، قوم کا حافظہ ہمیشہ وقت آنے پر اس کا ساتھ
چھوڑ دیتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد اقتدار کے ایوانوں میں نواب، جاگیردار
اور سرمایہ دار گھسنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ بینگن کی مانند اقتدار کی
تھالیوں میں ادھر ادھر لڑھکتے رہتے تھے۔ صبح ایک جماعت میں کرتے، شام کی
چائے کسی دوسری جماعت کے ساتھ پی رہے ہوتے، اگلی صبح ناشتہ کسی اور جماعت
کی میز پر کرتے۔ اس دور کی مسخری سیاست کی جھلکیاں عینی گواہ قدرت اﷲ شہاب
کی کتاب ’’شہاب نامہ‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ایوب خان وہ پہلے شخص تھے،
جنہوں نے سیاست دانوں کا باقاعدہ جمعہ بازار لگایا۔ لوگ راتوں رات اپنی
جماعتوں کو طلاق دے کر سرکاری مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ ذوالفقارعلی بھٹو
سیاست میں ابھرے تو جاگیرداروں کو ’’ملکی مفاد‘‘ ان کا ساتھ دینے میں نظر
آیا، یوں دیکھتے ہی دیکھتے عام آدمیوں کی یہ جماعت جاگیرداروں کا کلب بن
گئی۔
ضیاء الحق نے تو سیاست دانوں کی ’’مویشی منڈی‘‘ ہی لگادی۔ شاید ہی آج کے
’’اصولی‘‘ سیاست دانوں میں سے کوئی ایسا ہو جس نے ضیاء سے ’’وصولی‘‘ نہ کی
ہو۔ جو لوگ آج جئے بھٹو اور آمریت مردہ باد کے نعرے لگاتے پھرتے ہیں، ان
میں سے بیشتر کی سیاست نے ضیاء الحق کی گود میں آنکھ کھولی تھی۔ پی پی اور
ن لیگ کے ’’جمہوری‘‘ ادوار میں بھی سیاست دانوں کی قلابازیاں چلتی رہیں۔
انہی ادوار میں چھانگامانگا اور مری کے ریسٹ ہاؤسوں کی سیاست کو خوب فروغ
حاصل ہوا۔ ان 10برسوں کے دوران سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنا فیشن بن چکا
تھا۔
مشرف کی آمد سے تو سیاسی کھلاڑیوں کی گویا لاٹری نکل آئی۔ پیپلزپارٹی اور ن
لیگ کے درجنوں ارکان ’’ ملک کی ترقی‘‘ کے لیے پرویزی چھتری کے نیچے جمع
ہوگئے۔ ان لوگوں نے 10 ، 12 برس خوب اودھم مچایا، یہ لوگ ہر فیصلے میں مشرف
کے ساتھ رہے، اس کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے، مگر جوں ہی اس کے جانے کے آثار
نمایاں ہوئے، پھر قلابازیاں شروع ہوگئیں، کسی نے پی پی کا دامن تھام لیا،
کوئی ن لیگ میں جاگھسا اور تو اور ق لیگ جیسی جماعت جس کی پرویزمشرف کے ہاں
ولادت ہوئی تھی، وہ بھی آنکھیں پھیر گئی۔ زرداری صاحب میں لاکھ خرابیاں ہوں
گی مگر ان میں بڑی ’’خوبی‘‘ یہ ہے کہ وہ مل بانٹ کر کھاتے ہیں۔ اقتدار
سنبھالتے ہی انہوں نے سب کے لیے دروازے کھول دیے، اس بار لوگوں کو پارٹی
تبدیل کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں پڑی، کیونکہ ہر جماعت براہ راست یا گھوم
پھرکر حکومت کا حصہ تھی۔ سب نے 5 برس مزے اڑائے، لوٹ مار کے عالمی ریکارڈ
قائم کیے گئے، اب حکومت چند ہفتوں کی مہمان رہ گئی تو ان سیاست دانوں کو
اچانک ملکی مفاد نظر آگیا ہے۔ اقتدار کا کھیل کھیلنے والے ہوا کا رخ دیکھ
کر فیصلے کررہے ہیں، کچھ عمران خان کے بڑے جلسے دیکھ کر ان کے پیچھے ہولیے،
کچھ ن لیگ کی آغوش میں آرہے ہیں۔ آپ ان لوگوں کی پریس کانفرنسوں کا ریکارڈ
اٹھاکر دیکھ لیں، کوئی ایک بھی ایسا نہیں ملے گا جس نے اپنے سابقہ کردار پر
کسی قسم کی شرمندگی یا معذرت کا اظہار کیا ہو۔ ابھی 2روز قبل جنوبی پنجاب
سے پیپلزپارٹی کے 3 ارکان صوبائی اسمبلی ن لیگ میں شامل ہوئے ہیں، ان کا
کہنا تھا کہ وہ اختلافات کی وجہ سے پارٹی چھوڑ رہے ہیں، اﷲ کے بندو! یہ
کیسے اختلافات ہیں جو حکومت کے مزے لوٹنے کے بعد پیدا ہوئے ہیں۔
سیاست دانوں کے نزدیک پارٹی بدلنا کپڑے بدلنے جیسا ہلکا پھلکا معاملہ ہے۔
وہ یہ کام پوری ڈھٹائی اور بے شرمی سے کرتے ہیں اور اس وقت تک کرتے جائیں
گے جب تک عوام کا حافظہ مضبوط نہیں ہوجاتا۔ یقینا لوٹاکریسی اس کھیل میں
عوام کے حافظے کا بڑا قصور ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتے جن صاحب کے لیے نعرے
لگارہے ہیں وہ کل کہاں تھے؟ کیا یہ المیہ نہیں ہے کہ کل جنہیں لال مسجد میں
قتل عام کا ذمہ دار سمجھا جاتا تھا، آج انہی لوگوں کو مذہبی کارکنان کندھوں
پر اٹھائے پھرتے ہیں۔ نوازشریف کی تصویریں اٹھانے والے یہ کیوں بھول گئے کہ
ان کے دور میں لوگ آٹے کے لیے مارے مارے پھرا کرتے تھے۔
پیپلزپارٹی کی پہلی حکومتیں بھی کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دے سکی تھیں،
مگر موجودہ حکومت نے تو عوام کو مارہی ڈالا ہے۔ اس کے باوجود بھی اگر قوم
اگلے انتخابات میں پی پی کو ووٹ دیتی ہے تو یہ بڑا المیہ ہوگا۔ مشرف کے
ساتھ مل کر ملک کو ڈبونے والوں کی اکثریت ق لیگ اور تحریک انصاف میں ہے، ان
کا ساتھ دینا الٹی چھری سے کھال اتروانے والی بات ہے۔ آج کل ایک اور ’’قائد
انقلاب‘‘ انڈے سے نکلے ہیں۔ جی ہاں! طاہر القادری کی بات کررہا ہوں۔
مخالفین کو تو چھوڑیے، خود ان کے ہم مسلک رہنماؤں نے ان پر سنگین نوعیت کے
الزامات لگائے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں ان ’’باتونی
میاں‘‘ کے لیے احسان فراموش اور دھوکے باز جیسے الفاظ لکھے ہیں۔ کیا قوم ان
سب چیزوں کو بھلاکر اس کے پیچھے لگ جائے گی؟ ماروی میمن، فوادچودھری، طارق
عظیم، اعظم سواتی روزانہ کسی نہ کسی ٹی وی چینل پر بیٹھے قوم کو بھاشن دے
رہے ہوتے ہیں، یہ صاحبان صرف چند برسوں میں کئی پارٹیاں بدل چکے ہیں، حیرت
ہے لوگ پھر بھی ان کی باتوں پر کان دھرتے ہیں!!
سوچا تو یہ تھا کہ عوامی حافظے کے کرشموں پر کچھ واقعات لکھوں گا، مگر خود
میرا حافظہ ساتھ نہیں دے پارہاہے، اس لیے صاحب میں تو حکیم جی کے مشورے سے
خمیرہ گاؤ زبان عنبری جواہر دار خریدنے جارہا ہوں۔ میرا خیال ہے آپ کو بھی
اپنے حافظے کی فکر کرنی چاہیے، کیونکہ عوام کے حافظے کی مضبوطی میں ہی قوم
کی ترقی کا راز مضمر ہے۔ |