مولانا محمد الیاس گھمن
رواں سال جاتے جاتے ہم سے ہمارا علمی اثاثہ بھی لے گیا سابق امام کعبہ
الشیخ محمد بن عبداللہ السبیل رحمہ اللہ بھی اللہ کو پیارے ہوگئے ۔ شیخ
سبیل نے وزارة المعارف اور دیگر تعلیمی اداروں میں تقریبا 20 برس تک تدریسی
خدمات سر انجام دیں ، سال 1385 ھ میں شیخ سبیل حرم مکی میں امام وخطیب اور
صدرالمدرسین مقرر ہوئے سال 1390 ہجری میں حرم مکی میں مذہبی امور سے متعلق
کمیٹی کے نائب سربراہ مقرر ہوئے سال 1411ھ میں حرمین شریفین میں عمومی امور
سے متعلق کمیٹی کے سربراہ بنائے گئے۔
شیخ سبیل رابطہ عالم اسلامی میں فقہ اکیڈمی کے روز اول سے رکن ، اسی طرح
مملکت سعودی عرب میں کبار علماءکمیٹی کے رکن ہیں ۔شیخ، حرم مکی میں علوم
شرعیہ اور علوم عربیہ کی تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں۔منکرین فقہ
برصغیر میں خودکو ”اہل حدیث“ کہلوانے والے عموما ًتقلید ائمہ کو شرک گمراہی
اور ضلالت گرادانتے ہیں اور یہ کہتے رہتے ہیں فلاں امام اور فلاں امام ؛
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو رد کرتا ہے ۔اس بارے جب امام کعبہ
الشیخ محمد بن عبداللہ السبیل رحمہ اللہ سےبھی سوال کیا گیا۔ چنانچہ ہم
مرحوم سبیل رحمہ اللہ کا وہ گرانقدر مکتوب اردو ترجمہ کی صورت میں آپ کی
خدمت میں پیش کرتے ہیں :
مکتوب الشیخ محمد بن عبداللہ السبیل
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مملکۃ عربیہ سعودیہ حوالہ 92/1
امور مسجد حرام و مسجد نبوی کے مرکزی ادارہ کے سربراہ کی جانب سے مورخہ
15-6-1414ھ الاخ الفاضل الاستاذ بشیر احمد حسیم اللہ بخش مدرس اول تفسیر
القرآن والحدیث(حفظہ اللہ)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد از سلام مسنون………………… آپ کا مکتوب گرامی موصول ہوا۔
آپ نے اس بات کی صحت کے متعلق وضاحت طلب کی ہے کہ کیا ائمہ حرمین شریفین
مقلد ہیں ؟ اور حنبلی ہیں؟ اور کیا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
احادیث مبارکہ کو اقوال ائمہ کی وجہ سے رد کرتے ہیں ؟اللہ کی توفیق سے میں
کہتا ہوں سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اور درود و سلام ہو رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کی آل و اصحاب پر اور آپ کی رہنمائی کی بدولت ان
لوگوں پر جو آپ کی راہ پر چلے ۔
حمدوصلوٰۃ کے بعد ………… اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دشمنان ِ اسلام کی یہ
ہمیشہ سے عادت رہی ہے کہ وہ ابناء اسلام کے دلوں سے اسلام کی بیخ کنی کریں
اور ان کے عادات خبیثہ میں سے ہے کہ وہ فقہ و فقہاء کے بارے میں شکوک و
شبہات پیدا کرنے کے لیے بعض جاہلوں اور بےوقوفوں کواس پر آمادہ کرتے ہیں ۔
اس لیے انہوں نے مذاہب کے متبعین ( یعنی مقلدین) کے سامنے اختلافی مسائل کو
اچھالا تاکہ ایک طرف تو وہ ان کے درمیان فساد اور نزاع برپا کریں اور ان کو
ان اختلافی مسائل کی وجہ سے ایسے امور سے غافل کردیں جو ان کو گھیرے ہوے
ہیں اور دوسری طرف مسلمانوں کو فقہ وفقہاء پر اعتماد کی دولت سے محروم کر
دیں اور ان کو احکام دین اور مذاہب سے باہر کر دیں ۔نتیجۃً وہ خواہشات اور
آراء کے شرک میں مبتلا ہو جائیں۔
تحقیقی بات یہ ہے کہ ماضی میں ائمہ اعلام ان سازشوں پر متنبہ ہوئے تو انہوں
نے ان دشمنان اسلام)منکرین فقہ وفقہاء ( کے چہروں سے نقاب الٹ دیا اور ان
کے تمام راستوں میں ان کا تعاقب کیا۔ اس لیےانہوں نے اختلاف فقہاء کی حقیقت
کو واضح کرنے کے لیے چھوٹی اور بڑی کتابیں تالیف کیں ۔اور انہوں نے اصولی
وفروعی اختلاف کے درمیان فرق واضح کیا اور لوگوں پر ان دشمنانِ اسلام کی
بری نیتوں اور فساد مقاصد کو بھی خوب واضح کیا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ
اللہ کا فرمان جو بعض فقہی اختلافی مسائل پر بحث کے بعد ہے ملاحظہ ہو شیخ
نے فرمایا” اور اس کی وجہ سے وہ ان لوگوں کا معاون بن گیا جو اہل سنت کے
مذاہب کے درمیان فتنہ پیدا کرتے ہیں تاکہ یہ داعیہ بن جائے ان کے اہل السنت
والجماعت سے نکلنے کا اور رافضیوں اور ملحدین کے مذاہب میں داخل ہونے کا۔“
بہرحال ہمارا حنبلی ہونا سو بالکل صحیح ہے وہ یعنی مسجد حرام اور مسجد نبوی
کے ائمہ امام اہل السنت احمد بن حنبل کے پیروکار ہیں کیونکہ امام احمد بن
حنبل رحمہ اللہ کے”امام اہلسنت“ نام رکھنے پر علماء کا اجماع ہے پس جو شخص
ان کے متبعین پر طعن کرتا ہے ۔ اپنے عمل بالسنت کے زعم کی وجہ سے وہ حقیقت
میں امام موصوف کی ذات پر طعن کرتا ہے۔ رہی یہ بات کہ وہ احادیث رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کو رد کرتے ہیں سو ہم کہتے ہیں یہ بہت بڑا بہتان ہے ۔
سبحانک ھذا بہتان عظیم۔ مسجد حرام اور مسجد نبوی کے ائمہ اس سے بری ہیں
بلکہ وہ اس شخص سے بھی بری ہیں جو ایسا کرتا ہے ۔
اور اگر ان میں سے کسی کے بارے میں ثابت ہو جائے کہ اس نے احادیث رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی حدیث پر عمل ترک کیا ہے تو مناسب یہ ہے کہ
اس کو اس بات پر محمول کیا جائے کہ اس کو اس حدیث کا علم نہیں یا ترک کنندہ
کے نزدیک ثابت نہیں یا وہ اس اس حدیث کو بھول گیا یا اس کا اعتقاد اس حدیث
کے عدم دلالت کا ہے یا اس حدیث کے معارض دوسری حدیث کے پائے جانے کا یقین
ہے یا اس معارض کی وجہ سے متروک حدیث کے ضعف کا اعتقاد ہے جبکہ وہ متروک
حدیث خود معارض بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
آخر میں عرض یہ ہے کہ بے شک آج مسلمانوں کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ اپنے
اندر اس وسعت اور فراخ دلی کو قائم رکھیں جو ان کے سلف صالحین میں تھی اور
اپنے نفسوں پر اس امر کے بارے میں تنگی پیدا نہ کریں جس میں اللہ وسعت رکھی
ہے ۔ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے سوال کرتا ہوں کہ وہ مسلمانوں کو حق بات
پر جمع کر دے تو یہ کہ وہ ہمیں ہدایت کنندہ اور ہدایت یافتہ بنا دے ۔ اللہ
تمہارا نگہبان ہو ۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاتہ
(دستخط) محمد بن عبداللہ السُبیل
15-6-1414ھ
امور مسجد حرام و نبوی کا سربراہ (چیرمین)، امام و خطیب مسجد حرام |