بابری مسجد کی شہادت دہشت گردی کیوں نہیں؟

بابری مسجد کی شہادت کی برسی کے بعد اس موضوع پر ہمیں اس قدر جلد قلم اٹھاناہوگا یہ ہم نے سوچا بھی نہ تھا لیکن پاکستان کے وزیر داخلہ رحمن ملک نے اپنے حالیہ دورۂ ہندوستان کے موقع پر بابری مسجد کا ذکر کیا کیا کہ گویا قیامت آگئی۔ آگے بڑھنے سے قبل ہم یہ واضح کردیں کہ ’’26/11‘‘یا ممبئی پر پاکستانی دہشت گردوں کے لائق مذمت و بدنام زمانہ حملے کا بابری مسجد کی شہادت سے مقابلہ کئے جانے کے سوال کو ہی ہم خارج از امکان ہی نہیں بلکہ بے جواز، بے معنی اور ناقابل فہم قرار دیتے ہیں نیز یہ بھی سچ ہے کہ بابری مسجد کا مسئلہ ہندوستان کا داخلی مسئلہ ہے جس کا کوئی تعلق پاکستان سے نہیں ہے۔ بہت ہی بہتر ہوتا اگر رحمن ملک صاحب یہ ذکر ہی نہ کرتے!

رحمن ملک پر بابری مسجد کے حوالے سے کچھ کہنے کا شائد اس قدر برانہ مانا جاتا بشرطیکہ ’’بابری مسجد کی شہادت کے واقعہ کو وہ دہشت گردی نہ کہتے!‘‘ شری رام چندر جی کی جائے پیدائش کو ’’بابری مسجد‘‘ کے نام یا ’’بابر کی اولاد‘‘ کی قید سے آزاد کرانے کے عمل کو دہشت گرد کہنا بھلا کیسے گوارہ کیا جاسکتا ہے؟ اسی لیے بی جے پی کے قائد، رکن پارلیمان اور عدالت عظمیٰ کے معروف ایڈوکیٹ (رویندر پرشاد) رحمن ملک پر برس پڑے کہ شری رام چند جی کی جائے پیدائش کو رحمن ملک نے بابری مسجد کہنے کی ہمت کیسے کی؟ ممتاز قانون داں صاحب جوش میں یہ بھول گئے کہ عدالت وہ بھی عدالت عظمیٰ میں زیر دوران مقدمہ کے تعلق سے وہ رائے زنی بلکہ اپنا فیصلہ صادر کرکے وہ توہین عدالت کے مرتکب ہورہے ہیں (لیکن موصوف کو پتہ ہے کہ بابری مسجد کے مقدمہ میں ہی نرسمہا راؤ اور کلیان سنگھ کو توہین عدالت کی سزأ نہ مل سکی تو بھلا ان پر کون گرفت کرسکتا ہے؟

رحمن ملک کے بابری مسجد والے ریمارک پر (جس کی انہوں نے وضاحت کردی ہے) سنگھ پریوار کی تنقید اس کے وسیع ایجنڈے کا صرف ایک حصہ ہے۔ سنگھ پریوار کے نظریہ ہندوتوا سے کسی نہ کسی حدتک اتفاق رکھنے والوں میں کانگریسی بھی اچھی خاصی تعداد میں ہیں۔

سنگھ پریوار والوں کی طرح ان کو بھی پاکستان سے دوستی اور خوش گوار تعلقات اس لیے قطعی پسند نہیں ہیں کہ سنگھ پریوار کے آقاؤں اور اور سرپرستوں امریکہ، مغربی طاقتوں اور اسرائیل کے مفادات پر ہند۔پاک دوستی سے شدید ضرب پڑے گی۔ اس لیے ان عناصر کی ہر حال میں یہ کوشش ہوتی ہے کہ ان ممالک کو کسی بھی قیمت پر دوست نہ بننے دیا جائے اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ہندوپاک دوست بن کر امریکہ کے زیر اثر نہیں رہیں گے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکہ، مغربی ممالک(اور اب اسرائیل بھی) سے دونوں ممالک کی جانب سے ہتھیاروں کی خریداری میں کروڑوں ڈالر سالانہ کی کمی ہوجائے گی اور ہند۔پاک دوستی کے بعد ہند اسرائیل کے تعلقا ت (جو اس وقت عروج پر ہیں) بری طرح متاثر ہوں گے۔ آج کل جبکہ اسرائیل (ترکی اور مصر کی جانب سے حماس کو ملنے والی مدد سے) حماس کی بڑھتی ہوئی طاقت سے خاصہ پریشان ہے۔ اس لیے بھی ہند۔پاک دوستی موجودہ حالات میں اس کے لیے قطعی قابل برداشت نہیں ہے۔ اس لیے رحمن ملک کے دورہ کے ناکام بنانے اور اس کو تنازعات کا شکار بنانے کی کوشش زور شور سے کی گئی ۔ سنگھ پریوار کی قیادت اور اس کے زیر اثر میڈیا اور خاص طور پر چند ممتاز ٹی وی چیانلز کا رویہ منصوبے کے مطابق جارحانہ ہوگیا۔ ٹی وی چیانلز کے اینکرز سابق سفارتی عہدیدار، سیاسی تجزیہ نگار اور صحافی حضرات نے آداب میزبانی و مہمانداری کا بھی لحاظ نہیں کیا اور اس سلسلے میں حکومت ہند، خاص طور پر وزیر اعظم منموہن سنگھ پر حمن ملک کو ہندوستان آنے دینے پر شدید تنقید کی گئی۔

رحمن ملک کی مخالفت اور ان پر تنقیدوں اور اعتراضات کا اہم سبب گجرات کے انتخابات بھی ہیں۔ ایک طرف نریندر مودی سرکریک کا (وہ مسئلہ جسے 2004ء میں بی جے پی کے ہی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے اہم متنازعہ مسئلہ قرار دیا تھا) مسئلہ اٹھانے کی کوشش کی تو دوسری طرف رحمن ملک کو جاوبے جا اعتراضات کا نشانہ بناکر یہ ثابت کرنا تھا کہ رحمن ملک جیسے (بھارت دشمن) شخص کو بلانے اور ان کی مہمانداری کرنے کا الزام لگاکر گجرات میں رائے دہندوں کو کانگریس کے خلاف بھی کرنا ہے۔ مختصر یہ کہ رحمن ملک کو نشانہ بناکر ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش سنگھ پریوار نے کر ڈالی ہے۔

بابری مسجد کا مسئلہ بلاشبہ ہندوستان کا داخلی مسئلہ ہے لیکن اس کو سنگھ پریوار اور کانگریس نے اتنی لمبی عمر دی ہے کہ یہ مسئلہ داخلی ہوتے ہوئے بھی دنیا بھر میں شہرت پاگیا۔ جو اصحاب بابری مسجد کی شہادت (1992ء ) میں مشرقِ وسطیٰ میں تھے ان کو یاد ہوگا کہ یہ بات مختلف اخبارات میں وثوق سے شائع ہوئی تھی کہ اسرائیل چاہتا تھا کہ وہ مسجد اقصیٰ کو شہید کرنے سے قبل کسی اہم مسجد کو شہید کرکے اس پر عالمی ردّعمل دیکھا جائے۔ سب ہی جانتے ہیں کہ بابری مسجد کی شہادت پر عالم اسلام کا رد عمل خاصہ سخت ہوا تھا اور عالم اسلام سے باہر غیر اسلامی ممالک میں بھی بابری مسجد کی شہادت کو ناپسند کیا گیا بلکہ ہندوستان کا سیکولرازم بری طرح بدنام ہوگیا۔ تیل کی دوست سے مالا مال عرب ممالک میں بعض انتہا پسند حلقوں نے تو ہندوستانیوں کو واپس بجھوادینے کی بھی بات کی تھی لیکن ہر جگہ انتظامیہ اور حکمرانوں نے دانش مندی سے کام لیتے ہوئے حالات کو بگڑنے سے بچالیا۔ خود ہندوستان میں نرسمہا راؤ کی حکومت نے حالات اور معاملات سنبھالنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی گئی اگر مسجد شہید کرنے والوں پر خصوصی عدالت میں سرعت سے سماعت کا انتظام کرکے تمام خاطیوں کو سخت سزا دی جاتی سپریم کورٹ کو حکم اور حکومت کے عدالت عظمیٰ میں داخل کردہ حلف ناموں کی بموجب ’’جوں کی توں STATUS QUO‘‘ کو برقرار رکھنے کے لیے مسجد دوبارہ تعمیر کی جاتی پھر ملکیت کا مقدمہ چلتا رہتا۔ خصوصی انتظٓمات کے تحت ملکیت کا مقدمہ بھی فیصلہ کی منزل تک جلد پہنچا دیا جاتا تو مسئلہ ختم ہوجتا لیکن نرسمہا راؤ کو تو شہید کردہ بابری مسجد کی جگہ عارضی رام مند ر تعمیر کروانے کا اعزاز حاصل کرنا تھا اور بابری مسجد کا وجود مٹاکر خود کو تاریخ کا سب سے بڑا ’’سوئم سیوک‘‘ ثابت کرنا تھا۔این ڈی اے نے بھی بابری مسجد کے مسئلہ کو لٹکائے رکھنے میں بھلائی سمجھی مسجد کے محرم ایوان اقتدار میں براجمان ہوں تو ان کو سزا کون دیتا ہے؟ یو پی اے نے بھی کچھ نہیں کیا۔ بعداز خرابی بسیار لبراہن کمیشن کی رپورٹ سردخانے میں ہے عدالت عظمیٰ میں اپیل بھی جانے کب فیصل ہو پائے!۔ بابری مسجد کو چند ضمیر فروش مسلمان بھول سکتے ہیں لیکن ہر سال 6دسمبر کو شہید کردہ مسجد کی دہائی عالم اسلام میں سنائی دیتی ہے۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ کسی جگہ بم کو دھماکہ کرانے والا تو دہشت گرد ہے لیکن بابری مسجد کو شہید کرنے والوں کو دہشت گرد سرکاری طور پر کبھی نہیں کہا گیا ۔ رحمن ملک نے اگر اسے دہشت گردی کہا تو بھارت کے اندرونی معاملے میں مداخلت ضرور کی لیکن دہشت گردی کو دہشت گردی ہی کہا جائے گا۔

بی جے پی کے رویندر پرساد کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ دائرہ کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے زیر سماعت مقدمہ پر نہ صرف رائے زنی کی بلکہ اپنا فیصلہ صادر کردیا کہ بابری مسجد رام جنم بھومی ہے۔

سنگھ پریوار کے قائد پاکستان میں مندروں کو توڑے جانے اور ہندوؤں پر مظالم کی غیر مستند وغیر مصدقہ داستانوں کو جس طرح ثابت شدہ حقائق کہہ کر فرقہ پرستی کا زہر پھیلا رہے ہیں وہ از خود نہ صرف قابل گرفت بلکہ لائق تعزیر ہے۔ ٹی وی پر آکر اشتعال انگیزی کرنے والے تمام افراد کے خلاف قانونی کارروائی ضروری ہے۔ ہند۔پاک دوستی کی خاطر واجپائی نے اپنی ساکھ کو داؤ پر لگایا تھا۔ انہوں نے ’’آر پار کی لڑائی‘‘ کہہ کر زائد از ایک سال سرحدوں پر افواج کو صف آرأ کیا تھا پھر خود ہی افواج کو ہٹاکر دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ کئی ہزار کروڑ کا نقصان ہوا کئی جانیں ضائع ہوئیں لیکن بی جے پی کے ہمدرد اب کیا منہ لے کر منموہن سنگھ سرکار پر اعتراض کررہے ہیں۔ بغیر داؤد ابراہیم اور حافظ سعید کو ہمارے حوالے کئے جانے کے پاکستان سے گفتگو کی جاسکتی ہے ۔حافظ سعید سے بھی بڑے مجرم ڈیوڈ ہیڈلی کو حوالے کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے امریکہ سے کیوں ڈرتے ہیں؟
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 184991 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.