فسلطینی نشنلزم اور کشمیر(قسط۱)

فلسطین میں مسلح جدو جہد آزادی کی بنیاد بھی تیس کے عشرے میں رکھ دی گئی جب برطانوی راج کیخلاف عبدالقادر الحسینی کی قیادت میں لڑی جانیوالی گوریلہ وار نے برطانوی سامراج کا جینا دو بھر کر دیا تھا تب زیادہ تر فلسطینی بنا مذہبی امتیاز کے خالصتاً قومی آزادی کیلئے دشمن سے نبرد آزما رہے جبکہ کسی بھی محکوم معاشرے میں بشری کمزوریاں نسبتاً زیادہ ہوتی ہیں وہاں بھی رہی ہیں کہ انہیں بنیاد بناتے برٹش نے جانے سے پہلے جیوش سٹیٹ کی صورت میں تقسیم فلسطین کی بنیاد رکھ دی۔جسکے نتیجہ میں فلسطینی عوام کو اپنی تاریخ کا بدترین و کٹھن دور کا سامنا کرنا پڑھا اور بہت بڑے پیمانے پر لوگوں کو اپنا دیس چھوڑنا پڑھا اور وہ لاکھوں کی تعداد میں پڑوسی ممالک میں قائم مہاجر کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے ۔ایسا نہ ممکن ہے کہ تحریک آزادی فلسطین کا زکر ہو اور الفتح کا نام نہ آئے تاریخ گواہ ہے کہ الفتح اس تحریک کی روح رواں رہا ہے۔
 

image

پچاس کے عشرے میں قائرہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم کچھ سنجیدہ و جذبہ حب الوطنی سے سرشار نوجوانوں نے جب یہ محسوس کیا کہ فلسطینی تاریخ ،تہذیب و تمدن ،کلچر و تشخص غیر ممالک میں قائم مہاجر کیمپوں میں غرق ہونے جارہا ہے تو انہوں نے اسے بچانے اور اپنی قوم کو دوبارہ اپنا جائز حق دلانے کی ٹھانی ۔انہوں نے تمام عرب ممالک کی یونیورسٹیوں میں موجود فلسطینی نوجوانوں سے رابطے کئے اور انہیں اس قومی زمہ داری کا احساس دلانے کی کوشش کی ۔اور جلد ہی 1952میں جنرل یونین آف فلسطین سٹوڈنٹ قائم کی جسکے سربراہ یاسرعرفات بنے ۔اس تنظیم نے فلسطینی نیشنلزم پہ بہت کام کیا ۔تنظیم نے زیر زمین ایک جریدہ :ندائے الحیات فلسطین ؛ جسکے ایڈیٹر خلیل وزیر المعروف ؛ابو جہاد؛ تھے نکالنا شروع کیا جو ٹھہرے ہوئے پانی میں ایک کنکر ثابت ہوا ۔اس جریدے نے پوری دنیا میں موجود فلسطینیوں تک قومی پیغام پہنچایا اور وہ فلسطینی جو اپنی پہچان بھولنے جا رہے تھے کو انکے درخشاں ماضی اور شاندار تاریخ سے آشنا کیا ۔سٹوڈنٹ یونین کی شب و روز محنت کے نتیجہ میں 1959میں زیر زمین گوریلہ تنظیم الفتح کی بنیاد رکھی گئی جسکے سربراہ یاسر عرفات بنے۔اور تیس کے عشرے میں عظیم فلسطینی ہیرو عبدالقادر کی قیادت میں لڑی جانیوالی گوریلہ جنگ ہی الفتح کی بنیاد ٹھہری اور الفتح کے بنیادی آئین میں گوریلہ جنگ کو حکمت عملی نہیں بلکہ مسئلہ فلسطین کا حل کہا گیا اور فلسطین کو عرب دنیا کا حصہ ظاہر کر کہ فلسطینی قومی آزادی کو عرب نیشلزم کیساتھ جوڑنے کی ایسی کامیاب حکمت عملی کی گئی کہ فلسطینی آزاد و خود مختار حیثیت بھی برقرار رہے اور عرب دنیا کی اخلاقی و مالی حمائت بھی ساتھ رہے جو کہ کسی پل صراط پر چلنے سے کم نہ تھا بلکہ قیادت کیلئے کٹھن سیاسی امتحان بھی رہاجس سے وہ کامیابی سے پار اترے۔اور فلسطین کی اس انقلابی قیادت نے ثابت کیا کہ محکوم اقوام کے نیشنلزم کی پشت پر عسکری طاقت نہ ہو تو وہ نشنلزم اپنی موت آپ مر جایا کرتا ہے۔

یاسر عرفات نے کئی ممالک کے دورے کئے اور انکی ہمیشہ کوشش رہی کہ زیادہ سے زیادہ فلسطینی بزنس کمینیوٹی اور محنت کشوں کو قومی تحریک میں شامل کیا جائے جبکہ عرب حکومتوں سے مدد لینے میں بڑی احتیاط سے کام لیا گیاتاکہ قومی سطح پہ کہیں کوئی مصلحت آڑے نہ آسکے۔یہی اس نیشنلزم کی شان و تکریم بنا کہ جس شخص کے پاؤں تلے ایک اینچ آزادسر زمین نہ تھی کسی بھی ملک میں جاتے سربراہ مملکت کا پروٹوکول ملتا جو فلسطینی قوم کے لئے فخر کا باعث بنا اور انہیں اس تحریک میں دیوانہ وار شامل ہونے کیلئے آمادہ بھی کرتا رہااور یاسر عرفات تاحیات قوم کی آنکھوں کے تارے بنے کیونکہ وہ اگر قوم کو آزاد دیس نہ دے سکے مگر انہیں دیار غیر کے کیمپوں میں رہتے بھی الگ قومی پہچان دئیے رکھی اور انکے قومی تشخص کو کبھی زک نہ پہنچنے دی جو انکی سیاسی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔یاسر عرفات کی قوم دیار غیر کے مہاجر کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے کہ یاسر عرفات اور انکے انقلابی ساتھیوں نے غیر ممالک میں رہتے فلسطینی نوجوانوں کومنظم کیا اور تربیت دی انہیں مادر وطن کی آزادی کا درس دیا اور ایک ایسی گوریلہ فورس تیار کی جو اسوقت کے مسلح افواج کے حامل کسی بھی عرب ملک کی ریگولر آرمی سے کسی قدر بھی کم نہ تھی اور اس فلسطینی فورس کو دوسرے ممالک کی افواج کی طرح فل پیکج دیا گیا اور یہ سب کسی دوسرے دیس میں رہ کر کرنا بڑے ہی دل گردے کی بات ہے جبکہ ریاست جموں کشمیر کے لوگ جنہوں نے 1947میں 32ہزار مربع میل علاقہ حاصل کرلیا تھا اسکے باوجود کہ ان کے پاس بھی ایک تربیت یافتہ رضاکار فورس تھی جسے اے کے فورس کا نام دیا گیا تھا اور 24اکتوبر کو قائم ہونیوالی حکومت نے باقائدہ دیس کے باقی ماندہ حصہ کی آزادی کیلئے اور آزاد علاقے کی انتظامی امور بھی چلانے کیلئے ایک واضع روڈ میپ تیار کر لیا تھا مگر،،،،،،،،،،،،،

آزادی کے چند سالوں میں ہی یہاں کی قیادت جنکے پاس اس وقت وہ تمام تر اختیارات تھے جو کسی بھی آزاد ملک کے پاس ہونے چاہیں جو کہ فلسطینیوں کے پاس نہیں تھے ایک ایک کر کہ کسی اوور کے ہاں گروی رکھ دئیے۔انہوں نے دوسرے ممالک میں رہ کر ریگولر آرمی تشکیل دی انہوں نے اپنے ملک میں رہتے تیار شدہ آرمی کو ختم کر دیا ۔انہوں نے دیارغیر میں رہتے پوری قوم کو آزادی کیلئے متحد و منظم کر دیا انہوں نے اپنے ملک میں آزاد رہتے ہوئے اپنے زاتی مفادات کی خاطر عوام کو اپنی تاریخ سے دور رکھا اور غیر کی غلامی کا درس دیا ۔انہوں نے شام اردن لبنان اور مصرجیسے فوجی و طاقتور ممالک میں رہتے ان سے بھر پور مدد بھی لی اور اپنی تحریک کو اپنے کنٹرول میں رکھاکسی بھی ملک کو کبھی اپنے فیصلوں میں مداخلت کی قطعی اجازت نہ دی جبکہ کشمیری لیڈروں نے ہر بار ریاستی عوام کے خون سے سینچی تحریک کو غیر کے ہاتھوں تباہ برباد کروایا اور کوئی خاطر حمائت بھی حاصل نہ کر سکے ۔ اور آج ریاست کے اس حصے کے لوگ ایک ایسی انجانی منزل کی جانب بڑھ رہے ہیں جسکا انکو خود علم نہیں کہ کہاں جا رہے ہیں اﷲ ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔
Niaz Kashmiri
About the Author: Niaz Kashmiri Read More Articles by Niaz Kashmiri: 98 Articles with 76370 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.