سن ٢٠٠٤ ء میں میں نے اپنی کتاب
"لینٹھا"(عقاب کشمیر) کے ابتدائی صفحات پر لکھا تھا کہ گلگت بلتستان عالمی
طاقتوں کا اگلا حدف ہے اور آنے والے دنوں میں اس علاقے کا امن تباہ کردیا
جائے گا۔ میں نے یہ بھی لکھا تھا کہ آغا خان کے پاس دولت، جھنڈا اور
پیروکار تو ہیں مگر ملک نہیں۔ اسماعیلیہ فرقے کے پیروکاروں کی سب سے بڑی
آبادی ہنزہ، گلگت اور ملحقہ افغانستان میں ہے اور جناب پرنس کریم آغا خان
کی بادشاہت اسی علاقے میں قائم ہوسکتی ہے۔ امریکہ اور اہل مغرب کیلئے آغا
خان کی بادشاہت ہی ان کے قدم مضبوط کرنے کا سبب بن سکتی ہے جو کہ پاکستان
اور چین کیلئے انتہائی خطرناک قدم ہوگا۔ آٹھ سال بعد ستمبر 2012 ء میں
جناب ڈاکٹر اجمل خان نیازی نے روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہونے والے اپنے
کالم میں لکھا ہے کہ آصف علی زرداری نے آغا خان سے کروڑوں ڈالر رشوت لیکر
گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر سے کاٹ کر پاکستان کا الگ صوبہ بنانے کا حکم
جاری کیا۔ شکر ہے کہ کسی پاکستانی نے میرے تجزیے کی تائید کی ،مگر نام نہاد
حریت کانفرنس پاکستان شاخ اور آزادی کیمپ کو بربادی کیمپ میں بدلنے والے
انسانی سمگلروں، بھارت سے مال مویشی چوری کرنے والے خاندانی ڈاکوؤں، ہیروئن
اور چرس کے بیوپاریوں اور ٹن سیاسی ڈیلروں کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ آصف
زرداری کے غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات پر کوئی روائتی بیان ہی دے
دیتے۔ بیان دیں بھی کیسے؟ روائیتی بیان دینے کیلئے بھی اخلاقی جرأت اور
خاندانی روایات کا ہونا ضروری ہے۔ پاؤنڈ مافیا کا نہ کوئی خاندانی اثاثہ ہے
اور نہ ہی اخلاقی جرأت۔ جن لوگوں نے کائرہ پلان کے تحت آزادکشمیر کی حکومت
خریدی ہے اور ہر سیٹ اور وزارت سے لیکر وزارت عظمیٰ اور صدارت تک کی بولی
لگائی ہے۔ ان کی اخلاقی جرأت اور غیرت کیسے جاگ سکتی ہے۔
آصف زرداری کے اس غیر قانونی اور غیر اخلاقی فعل پر جسٹس ریٹائیرڈ منظور
گیلانی نے "وزیراعظم آزادکشمیر کا انتخاب اور بیس کیمپ" اورکراچی معاہدہ
اور معاہدوں کی داستان کے عنوان سے دو کالم روزنامہ نوائے وقت میں لکھے اور
سیاسی جنتا کو باور کرانے کی کوشش کی کہ آئینی ترمیم یا پھر معاہدہ کراچی
کی منسوخی کے بغیر کوئی بھی فعل غیر قانونی، غیراخلاقی اور غیر آئینی تصور
ہوگا جو نہ صرف آزادکشمیر اور شمالی علاقوں میں انتشار کا باعث بنے گا بلکہ
عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ میں رکاوٹ ہوگا۔ دیگر سنجیدہ اور
عقلمند لوگوں کا بھی یہی خیال ہے کہ آصف علی زرداری نے شمالی علاقوں کے
عوام کو حقوق دینے کی آڑ میں گریٹ گیم کے کھلاڑیوں کیلئے شمالی علاقوں اور
آزادکشمیر میں مداخلت کا نیا دروازہ کھول دیا ہے اور سرشاہ نواز بھٹو کے
الحاق جوناگڑھ اور ذوالفقار علی بھٹو کے 1965 ء کے جنگی منصوبے اور پھر
شملہ معاہدے جیسے مہلک معاہدات کو آگے بڑھاتے ہوئے کشمیر کی تقسیم اور
غلامی کی نئی سازشانہ بنیاد رکھی ہے۔ پیپلزپارٹی اور آصف زرداری کی یہ سازش
راتوں رات وجود پذیر نہیں ہوئی بلکہ جن مقاصد کی تکمیل کیلئے محترمہ بینظیر
بھٹو کو منظر سے ہٹا کر آصف علی زرداری کو پاکستان کا حکمران بنایا گیا ہے
اس میں کشمیر کا قصہ تمام کرنا بھی شامل ہے۔ اس مقصد کی تکمیل کیلئے
آزادکشمیر میں عام انتخابات جو کائرہ منصوبے کے تحت منعقد کروائے گئے اور
جس طریقے سے سیٹوں کی بندر بانٹ ہوئی وہ سب پر عیاں ہے۔ کراچی کی دونوں
سیٹیں ایم کیو ایم نے اور پنجاب کی نون لیگ نے بندوق کی نوک پر حاصل کیں
اور دیگر سیٹوں پر پیپلزپارٹی نے اپنے امیدوار ڈنکے کی چوٹ پر جتوائے۔
دھاندلی اور کرپشن کا یہ حال تھا کہ آزادکشمیر کا شیخ عبداللہ اور پرویز
مشرف کے تقسیم کشمیر کے فارمولوں کا داعی سردار عتیق بھی چیخ اٹھا۔ سردار
عتیق کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کو ہر حلقے میں لیجا کر
پھانسی دی جائے۔ یہ بیان بذات خود چیف الیکشن کمشنر کیلئے پھانسی کے مترادف
تھا۔ آزادکشمیر کے چیف الیکشن کمشنر سابق چیف جسٹس آف سپریم کورٹ بھی تھے۔
جس شخص کو اتنی بڑی دھاندلی کیلئے چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ دیا گیا اس نے
بحیثیت چیف جسٹس کیا انصاف کیا ہوگا، اس کا جواب ایسے شخص کو اس عہدے پر
تعینات کروانے والے ہی دے سکتے ہیں۔ ایسا شخص جس کا ضمیر مردہ ہو اسے سوبار
پھانسی دیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر چیف الیکشن کمشنرسچے اور انصاف کرنے
والے ہوتے تو سب سے پہلے سردار عتیق کے خلاف انکوائری کرواتے اور جھوٹ ثابت
ہونے کی صورت میں اسے نااہل قرار دیتے۔ اگر الیکشن میں دس فیصد بھی دھاندلی
ہوئی تھی تو الیکشن منسوخ کردیتے اور جن جن امیدواروں اور آفسروں نے
دھاندلی کی اور کروائی تھی انہیں سزا دیکر ایک غیر جانبدار الیکشن کمشنر
اور باضمیرجج ہونے کا ثبوت دیتے۔ مگر یہ کیسے ہو؟ جب الیکشن کمشنر لگانے
والوں نے پہلے سے سودابازی کرلی ہو اور دھاندلی کی قیمت مقرر کردی گئی ہو
تو ضمیر کا خمیر ہی تحلیل ہوجاتا ہے۔ دھاندلی کی بدترین مثال خود چیف
الیکشن کمشنر کا ووٹ ہے جو کوئی جیالہ ان کی جانب سے ڈال گیا تھا۔
الیکشن کے بعد بولتا پاکستان کے میزبان نصرت جاوید نے کائرہ کے ایک چہیتے
اور برادری میٹ سے پوچھا کہ حضور آپ کو پچیس ہزار کے قریب ووٹ کیسے ملے
جبکہ آپ کے حلقے میں ووٹ ہی پچیس ہزار ہیں۔ موصوف نے کہا میری برادری نے
مجھ پر اعتماد کیا ہے۔ اس پر مشتاق منہاس نے پوچھا کہ آپ کے مخالف کو سترہ
ہزار کے قریب ووٹ ملے ہیں۔ اس حساب سے آپ کو باقی آٹھ ہزار ملنے چاہئے وہ
بھی اس صورت میں کہ پچھلے دو سال سے آپ کے حلقے میں کوئی موت واقع نہ ہوئی
ہو، کوئی شخص الیکشن کے دن بیمار نہ ہوا ہو، کوئی شخص اندرونی ملک یا بیرون
ملک روزگار کیلئے نہ گیا ہو اور الیکشن کے دن پورے پچیس ہزار لوگ ووٹ ڈالنے
آئے ہوں ۔موصوف نے پھر کیا جناب یہ میری برادری کی مہربانی ہے۔
یہی حال دوسرے حلقوں کا بھی رہا اور برادری کے سربراہ نے اپنے منصوبے کے
مطابق برادری حکومت قائم کرکے این آر او کی ایک اور خفیہ شق پر کامیابی
حاصل کی تاکہ جب بھارت کی خوشنودی اور کشمیر کی تقسیم کا عمل شروع ہو تو
آزادکشمیر میں ایک ایسی ڈمی جمہوریت کا غلبہ ہو جو حکومت پاکستان کی ہر چال
کو تسلیم کرے یا پھر خاموشی اختیار کرے۔
حکومت پاکستان نے کشمیریوں پر ڈھائے جانیوالے مظالم، بھارت کی آبی جارحیت،
افغانستان میں بھارتی کونسل خانوں کی جانب سے پاکستانی عوام کے خلاف دہشت
گردی اور بلوچ لبریشن آرمی کی تربیت اور پاکستان مخالف تحریک کی حمایت اور
دیگر اقدامات پر آنکھیں بند کرتے ہوے امن کی آشا کا پرچار اور بھارت کو
پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کا فیصلہ کیا تو وزیراعظم آزادکشمیر اور سپیکر
نے نہ صرف اس کی حمائت کی بلکہ مخالفین کے خلاف بیان بازی بھی کی۔
سپیکرآزادکشمیر اسمبلی نے زرداری کی خوشنودی کے لیے اور جیالہ پن کے جنون
میں سرشارہو کر انتہائی بھونڈا اور بے تکابیان دیا۔ موصوف نے فرمایا کہ
سمجھ نہیں آتی کہ بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے پر بعض لوگوں کو پیٹ
میں مروڑ کیوں پڑ رہے ہیں۔ بیان سے تو لگتا ہی نہیں کہ یہ شخص آزادکشمیر
اسمبلی کا سپیکر ہے جسے آزادی کا بیس کیمپ کہا جاتا ہے اور جس کی آزادی اور
حمیت کے لئے کیپٹن حسین خان شہید، میجر صابر شہید، نائیک سیف علی جنجوعہ
شہید ہلال کشمیر اور لیفٹنٹ راجہ مظفر خان شہید سمیت لاکھوں کشمیریوں نے
راہ حق میں اپنی جانیں نچھاور کیں۔
سپیکر کے منہ سے بھونڈا بیان آئے اور وزیراعظم صاحب خاموش رہیں یہ کیسے
ممکن ہے۔ موصوف کے سر پر ویسے بھی سینئروزیر کی تلوار لٹکتی رہتی ہے اور
اوپر سے بیرسٹر سلطان محمود کی خفیہ کاروائیوں کا خوف بھی طاری رہتا ہے۔
موصوف کا بیان بھی روزنامہ نوائے وقت نے 15نومبر2011 ء کی اشاعت میں پیش
کیا جس میں بیس کیمپ کے وزیراعظم نے فرمایا کہ بھارت کو پسندیدہ ملک قرار
دینے سے صرف میڈیا اور پنجاب کو پریشانی ہے۔ کالم نگار لکھتا ہے کہ لگتا
نہیں کہ یہ شخص اس خطہ زمین کا وزیر اعظم ہے جسے قائداعظمؒ نے پاکستان کی
شہ رگ کہا تھا۔ آخر میں لکھا ہے کہ آزادکشمیر کا وزیراعظم لگتا نہیں کہ
کشمیری ہے بلکہ ہیراپھیری ہے۔
روزنامہ نوائے وقت جو امن کی آشا کی ضد اور کشمیریوں سمیت دنیا بھر کے
مظلوموں کی آواز ہے نے لکھا ہے کہ پاکستانی میڈیا ہر نجاست کو بے نقاب کرتا
ہے چائے وہ آزادکشمیر میں ہو یا پنجاب میں۔ روزنامہ نوائے وقت کا تجزیہ
درست ہے چونکہ آزادکشمیر میں اس قدر نجاست ہے کہ عام آدمی کا دم گھٹ رہا ہے۔
وہ لوگ جن کے باپ دادوں نے سوائے چوری چکاری اور ہیراپھیری کے کوئی کام نہ
کیا تھا اب لوٹ مار، کرپشن، انسانی سمگلنگ اور منشیات کی کمائی سے اسمبلیاں
خرید کر آزادکشمیر پر برادی جمہوریت کا بدنما اور بدبودار نظام قائم کئے
ہوئے ہیں۔ وہ لوگ جن کے خاندان میں سے کسی نے جنگ آزادی کے دوران دشمن کے
خلاف لاٹھی بھی نہ اٹھائی تھی آج شہیدوں کے خون اور قبروں کے سوداگر بن
بیٹھے ہیں۔
سردار ارشد جلال کا کالم "عمر عبداللہ کی میزبانی" انتہائی با معنی اور
قابل غور ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ آزادکشمیر کے سیاستدان اندرون خانہ کوئی ایسا
ڈرامہ رچا رہے ہیں جس کا فی الوقت کشمیری عوام کو علم نہیں۔ اس کی مثال
دیتے ہوئے آپ لکھتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے حالیہ اجلاس اور
او آئی سی (OIC) کے رابطہ گروپ کے اجلاس میں حسب روایت آزادکشمیر کے صدر یا
وزیراعظم نے شرکت نہیں کی جبکہ مقبوضہ کشمیر کا نمائندہ وہاں موجود تھا۔
پاکستانی وزارت خارجہ اور قومی سلامتی کے اداروں نے آزادکشمیر کے صدر اور
وزیراعظم کو ویزہ دلوانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ دونوں حضرات ان اجلاسوں
کیلئے غیر موزوں ہیں۔ غیرت کا مقام ہے کہ پیپلزپارٹی نے اپنے ہی ایجنٹوں کو
غیرموزوں اور انٹرنیشنل فورم پر کشمیریوں کی آواز اٹھانے کیلئے نا اہل قرار
دے دیا۔ حکومت پاکستان کی جانب سے اس وضاحت کے بعد جو کہ آزادکشمیر کے صدر
اور وزیراعظم کی نہ صرف توہین ہے بلکہ آزادکشمیر کے عوام کے لئے گالی ہے کہ
انہوں نے نااہل اور غیر موزوں افراد کو حکومتی ایوانوں میں بٹھایا ہے۔
حکومت پاکستان کی جانب سے یہ بیان کشمیری عوام کیلئے ایک وارننگ بھی ہے کہ
آزادکشمیر کے عوام میں اہلیت ہی نہیں کہ وہ اپنی آزادی اور عزت کیلئے آواز
اٹھانے والے نمائندوں کا چناؤ کرسکیں اس لئے حکومت پاکستان خود ہی ان چالیس
لاکھ غلاموں کی قسمت کا فیصلہ کرے گی۔ غیرت کا مقام تو یہ تھا کہ انٹرنیشنل
فورم پر آزادکشمیر کے صدر اور وزیراعظم کو غیر موزوں قرار دیکر نہ بھیجنے
پر دونوں حضرات اپنی اپنی سیٹوں سے استعفیٰ دیتے اور آزادکشمیر اسمبلی
تحلیل کرکے عوام کو موزوں نمائندے چننے کا حق دیتے ۔ المیہ یہ بھی ہے کہ
صدر اور وزیراعظم واقعی آزادکشمیر کے عوام کے نمائندے نہیں چونکہ کائرہ
منصوبے کے تحت آصف علی زرداری نے نااہل اور غیر موزوں اشخاص کو دھاندلی کے
ذریعے ایوان اقتدار میں بٹھایا تاکہ وہ بلاچوں و چراں تقسیم کشمیر کے عمل
پر خاموش رہیں یا پھر زرداری حکومت کی ہاں میں ہاں ملائیں۔
ایک طرف حکومت پاکستان نے اپنے ہی مہروں کو غیر موزوں قرار دیکر انہیں اپنا
مقام یاد دلایااور دوسری جانب بھارت کے ساتھ سودے بازی کے لئے بیرسٹر سلطان
محمود چوہدری کو نئی دہلی اور پھر مقبوضہ کشمیر بھجوا دیا۔ نئی دہلی
ایئرپورٹ پر بیرسٹر سلطان محمود نے میڈیا کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے
کہاکہ یہ میرا نجی دورہ ہے ،سیاست پر بات نہیں کرونگا۔ نجی دورہ کیا ہوتا
ہے یہ سب کو معلوم ہے مگر دوسرے ہی لمحے سلطان محمود سرینگر روانہ ہوگئے
جہاں وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے انہیں بھرپور پروٹوکول دیا اور مقبوضہ کشمیر
کے چپے چپے پر شہیدوں کے خون کا رنگ لئے گل و گلزار کے نظارے کے لئے اپنا
سرکاری ہیلی کاپٹر بھی پیش کردیا۔ عمر عبداللہ شیخ عبداللہ کا پوتا ہے جس
کی رگوں میں وطن فروش دادا، باپ اور گوری دادی اور ماں کا خون دوڑ رہا ہے۔
عمر عبداللہ کا خمیر جس مٹی سے بنا ہے اسے کشمیر جنت نظیر سے کبھی کوئی
سروکار نہیں رہا۔ ان لوگوں کی سیاست اور حکومت بھارت کی غلامی قبولنے کے
عوض ہے جسے یہ خاندان کبھی چھوڑ نہیں سکتا۔ یہی حال جناب سلطان محمود کا
بھی ہے۔ انہیں بھی پتہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی غلامی کے بغیر ان کا حقہ پانی
بھی بندش کے قریب ہوجاتا ہے۔ پتہ نہیں وہ اپنے مربی سردار عتیق کو ساتھ
کیوں نہ لے جاسکے۔ سردار عتیق نے سترسال بعد وہی کام کیا جو پون صدی پہلے
شیخ عبداللہ نے کیا تھا اور مسلم کانفرنس کو تقسیم کرکے اپنی روزی روٹی اور
پنڈت نہرو کی قدم بوس کے لئے نیشنل کانفرنس بنا ڈالی تھی۔ ایسا ہی کارنامہ
مجاہد اول کے سپوت نے بھی کیا اور مسلم کانفرنس کے وجود کو کاٹ کر نون لیگ
بنوا ڈالی تاکہ بمثل نیشنل کانفرنس کے ان کے خاندان کی اجاراداری بھی قائم
رہے۔ ویسے تو جناب زرداری جنرل مشرف ہی کے مشن کو بھٹو ازم کہہ کر آگے بڑھا
رہے ہیں اور تقسیم کشمیر کا جو عمل جناب بھٹو نے شملہ سمجھوتے کی صورت میں
شروع کیا تھا اسے مشرف نے کشمیر آپشنز کا نام دیکر بیک چینل ڈپلومیسی کے
ذریعے حل کرنے کی کوشش کی تو سردار عتیق، جنرل انور، خورشید قصوری، جسٹس
منظور گیلانی سمیت بہت سے لوگ مشرف مشن کی کامیابی کے لئے میدان میں آتر
آئے۔ مشرف کی رخصتی سے پہلے عالمی طاقتوں، عرب شیوخ اور پاک افواج کے چند
جرنیلوں نے این آر او کے ذریعے اقتدار زرداری کو منتقل کروایا تو وہ تمام
پالیسیاں جو مشرف کے ذریعے مکمل ہونا تھیں، جناب زرداری کو سونپ دی گئیں
جنہیں مکمل کرنے تک زرداری ہی کی حکمرانی رہے گی۔
یہ اور بات ہے کہ گریٹ گیم کے کھلاڑیوں کو عمران خان، نواز شریف، پرویز
الٰہی یا پیپلز پارٹی کے اندر ہی کوئی متبادل مہرہ مل جائے اور جناب زرداری
کو بھی پرویز مشرف کی طرح رخصت مل جائے۔ عمر عبداللہ اپنی نسل کا تیسرا
غلام اور کانگرس کا وفادار ہے۔ اس نے ترنگے کی حفاظت اور اکھنڈ بھارت کی
تکمیل کی قسم کھائی ہے۔ وہ اٹوٹ انگ کے نعرے کا ترجمان اور بھارت کا وفادار
غلام ہے اس لئے اس کا سلطان محمود چوہدری سے ملنا بھارت کی پیغام رسانی ہی
کے زمرے میں آتا ہے۔ چونکہ آزادکشمیر میں برسراقتدار ٹولے میں اہلیت نہیں
کہ وہ کسی بھی انٹرنیشنل فورم پر جناب زرداری کی نمائندگی کرسکیں اور خاص
کر تقسیم کشمیر اور اٹوٹ انگ کو عملی شکل دینے کے لئے ڈپلومیسی کے عمل کو
سمجھ سکیں، اس لئے یہ کام سلطان محمود کو سونپا گیا جس کا اظہار جناب سردار
ارشد جلال نے اپنے مضمون میں کیا ہے۔ سردار جلال نے لکھا ہے کہ اگر بیرسٹر
سلطان کا وزٹ نجی تھا تو وہ دیگر کشمیریوں کی طرح براستہ او ڑی سرینگر جاتے
نہ کہ بھارتی ویزا لگوا کر براستہ دہلی روا نہ ہوتے۔ اس وزٹ سے ظاہر ہے کہ
بیرسٹر سلطان نے تقسیم کشمیر کے عمل کو تسلیم کر لیا ہے اور ان کی تحریک
آزادی اور کشمیرکاز سے وابستگی فریب کاری اور گیڈر بھبکیوں کے سوا کچھ نہیں۔
شہیدوں کے لہو سے غداری اور قبروں کی خریدوفروخت کے عمل میں جناب سردار
عتیق بھی شامل تھے مگر عین موقع پر انہیں روک لیا گیا اور وہ بیرسٹر سلطان
کا ساتھ نہ دے سکے۔ ظاہر ہے کہ اب مشرف کے سارے ایجنٹوں پر اعتماد نہیں کیا
جاسکتا۔ ہر ڈیلر کا اپنا طریقہ اور ایجنٹ ہوتا ہے۔ مشرف کو بھی سردار عتیق
پر اعتماد نہ تھا اس لئے جنرل انور کو فوج سے ریٹائیر کرنے کے بعد مروجہ
طریقہ کار کو بلڈوز کرتے ہوئے اسے آزادکشمیر کا صدر بنا دیا۔
جنرل انور آزادکشمیر کا صدر تو بن گیا مگر اسے کھل کر کھیلنے کا موقع نہ
ملا۔ پرویز مشرف کا خیال تھا کہ جنرل عزیز سمیت سدھن قبیلے کے سرکردہ لوگ
خود بخود جنرل انور کی حمایت کریں گے جبکہ سردار عتیق کو پہلے سے ہی سردار
سکندر کے خلاف محاذ آرائی پر لگا دیا گیا تھا۔ سردار عتیق نے ہم خیال گروپ
بنا کر سردار سکندر حیات کو گھیرے میں تو لے لیا مگر کرسی سے الگ نہ کرسکا۔
جنرل انور اور سردار عتیق کا منصوبہ تھا کہ سردار سکندر حیات وزیراعظم تو
رہیں مگر قوت کا سرچشمہ جنرل انور ہوں۔ صدر جنرل پرویز مشرف اور اب صدر
زرداری کی طرح تمامتر فیصلے صدر کرے اور وزیراعظم نمائیشی ہو۔ صدر انور نے
وزیراعظم کے گرد دائرہ تنگ کرنے کا ایک اور منصوبہ بنایا اور عدلیہ اور
حکومت کے درمیان خیلج حائل کردی۔ آزادکشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سید
منظور حسین گیلانی جن کے خلاف آئی ایس آئی نے مکمل تحقیق کے بعد بدعنوانی،
رشوت خوری اور اختیارات سے تجاوز سمیت متعدد الزامات کی فہرست تب کے
صدرسردار سکندر حیات کو اپنے ڈپٹی ڈائیریکٹرجنرل، میجر جنرل سردار عزیز کے
ذریعے بھجوائی او ر منظور گیلانی کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی۔صدر
آذاد کشمیر نے جسٹس گیلانی کے خلاف ریفرنس تو بھجوا دیا مگر بیک ڈور چینل
ڈپلومیسی کے سبھی ایجنٹ بشمول قصوری برادران اور ایک مخصوص فرقے کے بااثر
افراد گیلانی بچاؤ مہم لے کر میدان میں آگئے۔ کچھ پاکستانی سیاستدانوں ،
حکومتی اہلکاروں، اعلیٰ عدلیہ کے کچھ ججوں اور پڑوسی ملک کے سفارتکاروں
سمیت کئی اعلیٰ شخصیات کے دباؤ کی وجہ سے صدر سکندر حیات کو یہ ریفرنس واپس
لینا پڑا۔
جنرل انور نے اس ریفرنس اور سردار سکندر حیات خان کے چناب فارمولے پر دئیے
گئے بیان کو استعمال کیا اور جسٹس گیلانی جو پہلے ہی سکندر حیات کے خلاف
تھے کے ذریعے وزیراعظم کو فارغ کرنے کی سازش کی۔ جنرل انور کی خوش فہمی کی
انتہا تھی کہ وہ یہ بھی بھول گیا کہ چناب فارمولہ سکندر حیات نے نہیں بلکہ
برطانوی حکومت کے نمائندے نے پیش کیا تھا۔ مشرف حکومت کی کشمیر پالیسی اور
تقسیم کشمیر کی خفیہ کاروائیوں کو دیکھتے ہوئے سکندر حیات نے صرف یہ کہا
تھا کہ اگر سودے بازی ہی کرنی ہے تو چناب فارمولے کو آگے لاؤ اور صوبہ جموں
جو کہ ہندو اکثریتی صوبہ ہے کو چھوڑ کر باقی کشمیر پر بات کرو۔
سکندر حیات کا یہ بیان نہ تو غداری کے زمرے میں آتا تھا اور نہ ہی وزارت
عظمیٰ سے نا اہلی کا باعث بن سکتا تھا مگر سردار انور نے جسٹس گیلانی اور
سکندر حیات کے مابین صدارتی ریفرنس کی شکر نجی کو استعمال کرتے ہوئے
کھوکھلے پن کا مظاہرہ کیا۔ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ جسٹس یونس سرکھوی مرحوم
نے وزیراعظم سکندر حیات کے خلاف چناب فارمولہ کیس پر حکم امتناعی جاری
کردیا تو انور، گیلانی منصوبہ آگے نہ بڑھ سکا۔ جنرل انور نے اس پر بھی صبر
نہ کیا اور یہی ریفرنس ایک مقامی اخبار میں چھپوا کر پاؤنڈ مافیا کی
ہمدردیاں حاصل کرلیں اور بیرون ملک دوروں کے دوران شاہی ضیافتوں، قیمتی
تحفوں ، ڈالروں اور پاؤنڈوں کے بنڈلوں کی صورت میں شکرانہ وصول کیا۔
جنرل پرویز مشرف نے جنرل انور کو جس مقصد کیلئے آزادکشمیر کی صدارت سونپی
وہ بھی پورا نہ ہوا۔ جسٹس گیلانی کے ریفرنس کی تشہیر اور چناب فارمولے کی
آڑ میں وزیراعظم پر غداری کے مقدمے اور بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے تقسیم
کشمیر کے انوری پلان کی کسی سدھن سیاستدان یا اعلیٰ سماجی، دینی و علمی
شخصیت نے حمائت نہ کی۔ جنرل عزیز خان کی طرف سے بھی انور منصوبے کی کوئی
حمائت سامنے نہ آئی تو جنرل انور نے یوتھ پروموشن پروگرام کے ذریعے سدھن،
گجر اور دیگر برادریوں کے نوجوانوں کی سرپرستی پر کروڑوں روپے صدارتی فنڈ
سے خرچ کئے۔ صدارتی مشیر میجر ریٹائیرڈ حفیظ اس پروگرام کا سرپرست اعلیٰ
مقررہو جو اپنی چانکیہ نیتی کی وجہ سے پہلے وزیراعظم سلطان محمود چوہدری کا
مشیر بھی رہ چکا تھا۔
یوتھ پروموشن پروگرام بھی بدنیتی اور اقرباً پروری پر مبنی تھا اس پروگرام
کے سارے اجلاس کشمیر ہاؤس اسلام آباد میں منعقد ہوتے جس کی صدارت جنرل انور
اور میجر حفیظ کرتے۔ اس پروگرام کے اجلاسوں میں نوجوانوں کو راجپوت برادری
کے خلاف بھڑکایا جاتا اور انہیں راجپوت نوجوانوں سے نفرت اور دشمنی پر
اکسایا جاتا۔ جنرل انور نے اپنی ایک تقریر میں فرمایا کہ راجپوت ہمارے
مشترکہ اور ازلی دشمن ہیں۔ ان ہی لوگوں نے شمس خان ملدیال اور اس کے بھتیجے
راجولی خان کو قتل کرکے ان کی لاشے راجہ گلاب سنگھ کو پیش کئیے اور ان کے
ساتھیوں سردارملی خان اور علی خان کو سولی پر لٹکایا اور ان کی کھالوں میں
بھُس بھروایا۔ جنرل انور اپنی زہر آلود تقریر کر چکا تو اسی تقریب کے شرکأ
میں سے کسی نے پوچھ لیا کہ راجہ شمس خان ملدیال حاکم پونچھ اصلاً راجپوت
تھا مغل یا سدھن نہیں تھا۔ تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ ملدیال قوم کا خروج
برھمن ہندوؤں سے ہوا ہے نہ کہ آصف جاہ مغل سے۔ گو کہ ملدیال مشاہیر نے اپنی
نسل کی کڑیاں مغلوں سے ملانے کی کوشش کی ہے مگر وہ اس ضمن میں کوئی ٹھوس
تاریخی ثبوت پیش نہیں کر سکے۔ سدھن قبیلے کے ہی اس نوجوان نے جنرل انور کے
علم میں اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ منگ کا قلعہ سدھن قبیلے کی دسترس میں تھا
جس کی تسخیر کسی مقابلے کے بغیر ہوگئی۔ چونکہ سردارملی خان اور علی خان نے
راجہ شمس خان کی میزبانی کی تھی اس لئے ڈوگرہ عتاب کا نشانہ بنے۔
سدھنوتی کی تسخیر اور سدھن قبیلے کے سردار شمس خان کے قتل کے بعد حاکم
پونچھ راجہ شمس خان ملدیال سدھرون کے علاقہ میں روپوش ہوگیا جس کا حاکم
راجہ شیرباز خان تھا۔ راجہ گلاب سنگھ نے راجہ شمس خان ملدیال کی گرفتاری یا
قتل کی منادی کروادی اور بھاری انعام بھی مقرر کیا۔ انعام اور جاگیر کے
لالچ میں تیڑو اقوم کے دونوجوانوں اگر خان اور محمد خان نے راجہ شمس اور ان
کے بھتیجے کو قتل کیا اور سرکاٹ کر ڈوگروں کے حوالے کردیئے۔ راجہ شمس خان
جو ایک وقت راجہ گلاب سنگھ کا مشیر اور دوست رہ چکا تھا کا سر دیکھ کر گلاب
سنگھ رنجیدہ ہوگیا۔ راجہ گلاب سنگھ نے تیڑوا برادران کو انعام اور جاگیر
دینے کے بجائے پانچ پانچ سال قید با مشقت سنائی۔ جاری ہے ........ |