بھارت میں کانگریس نے حکومت
کےلئے بد نام زمانہ پوٹا قانون کی مخالفت کرتے ہوئے اقتدار کا حصول ممکن
بنایااب نئے قانون یو اے پی اے کے ذریعہ اپنی آخری ایام کو طول دینے کی
کوشش میں مصروف عمل ہے ۔ اس قانون پر مسلمانان ہندکو کافی تحفظات ہیں۔
مسلمانان ہند سمجھتے ہیں کہ اس قانون کا مسلمانوں ، دلت وقبائلیوں و
پچھٹروں کےخلاف غلط استعمال کی شائد ہی گنجائش رکھی گئی ہے۔ اس قانون کے
خدو خال سے عام شہریوں کے نا واقفیت نے خاص طور پر مسلمانوں کےلئے کافی
مسائل پیدا کردئے ہیں ۔کانگریس کی زیرقیادت یو پی اے (یونائیٹڈ پروگریسو
الائنس) نے 2004ءمیں اقل ترین مشترکہ پر گرام (کامن منیمم پروگرام) مدون
کرتے ہوئے بد نام زمانہ قانون پوٹا ( انسداد دہشتگردی قانون) کو ختم کرنے
کا اعلان کیا تھا ۔ پوٹا اور دہشتگرد /تفرقہ پرداز انسداد قانون کی (
ٹاڈا)کے ذریعے قانونا جبر و استبداد کی بے شمار کہانیاں منظر پر آئیں۔ خاص
طور پر اس سیاہ قانون نے مسلمانوں کو کافی پریشان اور مصائب میں مبتلا
کیا۔جس کی وجہ سے اس قانون کے خاتمے کےلئے کافی جدوجہد کی گئی اور اس بات
کو یقینی بنایا گیا کہ جس مقاصد کےلئے یہ قانون بنایا گیا وہ خاطرخواہ
نتائج تو نہ دے سکا بلکہ صرف مسلمانوں کےلئے تکالیف کا باعث بنا۔دسمبر
2001ءمیں انڈین پارلیمنٹ پر حملہ کیا گیا تو بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی
اے حکومت نے" پوٹا "قانون نافذ کیا تھا جیسے بد نام زمانہ" ٹاڈا " قانون کا
عکس قرار دیا گیا ۔سخت گیر قوانین کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے
بلکہ اس قانون کا سہارا لیکر مسلمانوں کو زیادہ پریشان کئے جانے لگا اور
سرکاری سرپرستی میں دہشت گردی کو فروغ دیا گیا ۔گجرات میں 2002سے2005تک
سرکاری دہشتگردی کا جو ننگا ناچ کھیلا گیا وہ بھارتی حکومت پر بد نماداغ
بنکر جمہورےت اور سیکولرازم کا پردہ چاک کا سبب بنا۔نومبر2008ءمیں ممبئی
حملوں کے بعد پوٹا قانون کے تحت مسلمانوں کی اکثرےت کو ناکردہ گناہ کی
پاداش میں جیلوں میں بند رکھا گیا۔کانگریس نے "پوٹا "قانون کی تنسیخ کے
وعدے کے ساتھ اقتدار تو حاصل کرلیا لیکن اسی کانگریس نے 20دسمبر2012ءکو
انسداد دہشتگردی کے نام پر ایک اور سفاکانہ قانون یواے پی اے (UAPA)انسداد
غیر قانونی سر گرمیاں (ترمیمی)قانون کو پارلیمنٹ سے منطور کروا کر دہری
پالیسی کا ثبوت دیا۔یہ قانون ماضی کے "پوٹا و ٹاڈا "سے زیادہ طالمانہ تصور
کیا جا رہا ہے اسلئے کہ اس میں جودفعات شامل کئے گئے ہیں اس کے سبب بے قصور
افراد کو انصاف رسانی پہلے سے مشکل ہوجائے گی۔ تحقیقاتی افسر مجاز کل
ہوجائے گا ۔ اس افسر کی صوابدیدی پر ہی ملزم کو بنا تعین مدت جیل میں رہنا
ہوگا ۔پوٹا کے تحت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ/سپر نٹنڈنٹ پولیس کسی ملزم کی گرفتاری
اور اس قانون کے تحت کیس درج کرنے کا مجاز قرار پاتے تھے لیکن اب یہ معاملہ
نئے قانون کے تحت تحقیقاتی افسر کے سپرد کیا گیا۔ٹاڈا وپوٹا قانون کے غلط
استعمال پر شہری آزادی کے محرکین نے ایک طویل جدوجہد کی ہے۔ انسداد دہشت
گردی کے نام پر انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیوں پر بین الاقوامی تنظیموں
کو اپنا کردارادا کرنے کی ضرورت ہے خاص طور پر مسلمانان کے بنیادی حقوق کے
تحفظ کے لئے مسلم ممالک کو بھی اپنا کردارادا کرنے کی ضرورت ہے جہاں اقلیت
پر دہشت گردی کے نام پر مذہب کی بنیاد پر بنیادی حقوق کی صریحا مغائر ہے۔
لوک سبھا میں اس بل پر کئے مباحث میں حیدر آباد سے تعلق رکھنے والے رکن
بیرسٹر اسد الدین اویسی (کل ہند مجلس اتحادد المسلمین) نے جو اندیشے ظاہر
کئے تھے اس کی تویثق راجیہ سبھا میں مختلف جماعتوں کے ارکان نے ان اندیشوں
کا اظہار کیا حتی کہ بر سراقتدار کانگریس سے وابستہ چند ارکان نے اس پر
ذہنی تحفظات کا اظہار کیا اس بل پر سوائے بی جے پی تقریبا تمام جماعتوں کے
ارکان بالخصوص مسلمارکان پارلیمنٹ نے نہ صرف مخالف کی بلکہ اسے ٹاڈا و پوٹا
جیسے سفاکانہ قوانین سے زیادہ ظالمانہ قرار دیا۔سیکولر مملکت کہلانے والی
حکومت کی جانب سے اس طرح کے قوانین کی تدوین ، فرقہ پرستوں طاقتوں کے عزائم
کو کامیاب بنانے کی تکیل کے مترادف ہے۔ جمہوریت کے نام نہاد اصولوں میں
اعدادی اکثرےت کے بل بوتے پر سیاہ قانون کی منظوریوں سے اقلیت کو ہمیشہ
نقصان پہنچا ہے ۔معاشی کساد بازاری سے پوری دنیا پریشان ہے ۔ لیکن خاص طور
پر مسلمانوں کے لئے جتنی پریشانیاں اور مسائل پیدا ہوئے ہیں اس کا
تنہاسدباب کسی طور کسی بھی مسلم مملکت کے ممکن نہیں ہے پھر اس صورتحال میں
جب دنیا بھرمیں انتہا پسندی کے حوالے سے صرف مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا
کیا جاتا ہے تو ایسے ممالک جہاںمسلمان اقلیت میں رہتے ہیں ان کے لئے مشکلات
میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے اور انھیں اپنے بنیادی حقوق کی بحالی کے لئے بڑی
مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے ۔ تو دوسری جانب مسلمان اقلیت کے خلاف اس طرح کی
کاروائیوں سے مسلم اکثرےت والے ممالک میں اُن بے گناہ غیر مسلم اقلیتوں کے
مسائل میں اضافہ ہوجاتا ہے جنھیں ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔سوال یہ نہیں
ہے کہ یہ کسی ملک کے داخلی معاملات میں قانون سازی کامعاملہ ہے ۔ بلکہ ہر
مملکت اپنے شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ذمے دار ہے۔مملکت اسلامی ہو،
سیکولر ہو ، بادشاہت ہو ، ہر مملکت تمام شہریوں کو یکساں بنیادی سہویات کے
ساتھ ان کے جان و مال کی مکمل پابند ہے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے بین
الاقوامی تنظیموں کا دوہرا معیاربھی قابل مزمت ہوتا ہے جب مسلمانوں کے خلاف
آسام ،برما ، کشمیر ،فلسطین ،عراق، افغانستان ، جیسے ممالک میں بدترین
انسانی خلاف ورزیوں پرخاموشی رہتی ہے۔بھارت میں جہاں بدنام زمانہ انسداد
دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کے خلاف یکطرفہ کاروائیوں پر مقامی مسلم
تنظیمیں آواز اٹھا رہی ہیں تو اس حوالے سے دیگرمسلم ممالک کو بھی اپنا
کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ مذہب کے نام پر مخصوص سوچ کے تحت کسی بھی اقلیت
کے ساتھ اکثریت کے بل بوتے پر اجارہ داری قائم نہ کی جاسکے۔بھارتی مسلمانوں
کو سفاکانہ قانون" یواے پی اے" کا سامنا ہے ہمیں اس سلسلے میں اپنا مثبت
کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ |