پاکستان کے پہلے شہید
اس شخصیت کا تذکرہ جسنے پہلی مرتبہ محمّد علی جناح کو قائد اعظم کا لقب دیا
مولانا مظہرالدین شیرکوٹ ضلع بجنور میں ١٣٠٥ ہجری/ ١٨٨٨ میں پیدا ہوے. سن
١٩٠٩ میں سند فراغت حاصل کری. یہ اس عظیم شخصیت کا تذکرہ ہے جس نے پہلی بار
محمّد علی جناح کو قائد اعظم کا لقب دیا. انہیں پاکستان کا پہلا شہید قرار
دیا جاتا ہے. مولانا مظہرالدین نے فکری اور عملی، دونوں سطحوں پر آل انڈیا
مسلم لیگ اور قائد اعظم محمّد علی جناح کے ساتھ اس قدر وابستگی کا اظہار
کیا کے مثال ملنا بھی مشکل ہے. آزادی کا جو سورج مسلمآ نان ہند نے ١٤ اگست
١٩٤٧ کو طلوع ہوتے دیکھا اسکی طمانیت بخش روشنی کا سرچسمہ ایسی ہی شخصیات
کی قربانیاں ہیں. خواجہ ظفر نظامی اپنے ایک مضمون (مطبوع شاہکا میگزین
شمارہ نمبر ١ ) میں، پاکستان کے پہلے شہید کا تعارف کراتے ہوے لکھتے ہیں.
مولانا مظہرالدین " شیخ الہند مولانا محمود الحسن اسیر مالٹا کے قابل
تلامذہ میں سے تھے. " جب ١٩١٩ میں غازی امان اللہ خان، والئ افغانستان نے
انگریزوں کی بالادستی کا جوا اتار پھینکا اور برابری کی بنیاد پر صلح نامہ
طے پایا تو مسلمانان ہند کے دل میں غازی امان اللہ خان کی بے حد قدرو منزلت
پیدا ہوگی اور انہیں مسلمانان عالم کا ہیرو قرار دیا گیا.
مولانا صاحب نے اسی تاثر کی بناء پر ١٩٢٠ میں اپنا ہفت روزہ اخبار "الامان"
کے نام سے قصبہ نگینہ ضلع بجنور سے جاری کیا جو بعد میں سہ روزہ بنا پھر
کچھ ہی عرصے کے بعد روزنامہ بنگیا. ان دنوں تحریک خلافت زوروں پر تھی.
صحافت کے ساتھ ساتھ مولانا صاحب سیاسی کارکن کی حسیت سے بھی تحریک خلافت
میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے رہے. انہوں نے مولانا بھیک نیرنگ کی "انجمن تبلیغ
الاسلام " انبالہ کے نائب صدر کی حیسیت سے قابل قدر کارنامے انجام دئے. نیز
ہندووں کی انقلابی تحریکوں شدھی اور سنگھٹن کے خلاف انہوں نے قلم کے ساتھ
ساتھ کارکن کے طور پر بھی بےپناہ جدوجہد کی.
١٩٢٩ء میں مولانا نے سر آغا خان کی صدارت میں آل-انڈیا کی مسلم لیگ
کانفرینس کے اجلاس میں منعقدہ دہلی کو کامیاب بنانے کے لے شب و روز کام کیا.
. مولانا اچھے انشا پرداز اور صحافی ہی نہ تھے بلکہ بہت اچھے مقرر بھی تھے.
تقریر بڑے جوش سے کرتے تھے. چہرہ سرخ ہوجاتا تھا. آواز بہت بلند تھی. انکی
فعال قومی زندگی نے انکے ہم عصروں کو انکا قریبی دوست اور رفیق کار بنادیا،
جن میں مولانا حسرت موہانی، مولانا عبد الحامد بدایونی، مولانا آزاد سبحانی،
نواب محمّد اسماعیل خان، سر مولوی محمّد یعقوب، سید حسن امام، مولانا غلام
بھیک نیرنگ، سر شفاعت احمد خان، سید حبیب شاہ ( مدیر روزنامہ سیاست )،
مولانا محمّد شفیع داؤدی خاص طور پر قابل ذکر ہیں-
جب جمیعت العلماء ہند اپنے اسلامی نصب العین سے ہٹ کر انڈین نیشنل کانگریس
کا تمتمہ بن گئی تو مولانا مظہرالدین نے مولانا عبد الصمد مقتدری اور دیگر
علماۓ حق سے مل کر جمیعت العلما کان پور پر بنیاد ڈالی. مولانا عبد الصمد
اس کے صدر اور مولانا مظہرالدین ناظم اعلی مقرر ہوے.
. مولانا مظہرالدین نے آل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت و ترجمانی کے لۓ روزنامہ
"وحدت" جاری کیا. اس زمانے میں کانگریس نواز مولویوں نے دارالحکومت دہلی کو
اپنا مظبوط قلعہ بناکر رکھا تھا. اس قلعے کو روزنامہ "وحدت" کے شزروں نے
مسمار کردیا تو نیشنلسٹ علماء کے زیراثر طبقہ مولانا کے خون کا پیاسا ہوگیا.
مولانا کے اخباروں کا آخری دفتر ترکمان دروازے میں تھا. ١٩٣٧ میں مولانا
صاحب نے اپنے دفتر میں محمّد علی جناح اور نواب زادہ لیاقت علی خان کو پر
تکلف استقبالیہ دیا جو دہلی میں اپنی نوعیت کا پہلا استقبالیہ تھا. اس موقع
پر مولانا مظہرالدیں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر محمّد علی جناح کی خدمت
میں سپاس نامہ پیش کیا، جس میں انہیں قائد اعظم، فداۓ ملک و ملّت، رہنماۓ
ملّت، اور قائد ملّت جیسے القابات سے نوازا گیا. ان میں سے پہلا لقب "قائد
اعظم" انہوں نے اپنے اخبارات میں فورأ ہی استعمال کرنا شروع کردیا اور اپنی
ہر تحریر میں "قائد اعظم محمّد علی جناح" لکھنے کی روایت کا آغاذ کیا. یہ
لقب تعلیم یافتہ طبقے میں بہت مقبول ہوا.
پھر اگلے سال دسمبر ١٩٣٨ میں جب آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس پٹنہ
میں ہوا تو میاں فیروزالدین احمد نے اسٹیج پر"قائد اعظم زندہباد" کا نعرہ
لگایا تو یہ لقب عوام میں بھی مقبول ہوگیا.
مولانا صاحب کے دفتر کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کے جب شیخ الاسلام مولانا
شببر احمد عثمانی نے کانگریس نواز جمیعت العلماء ہند سے مستعفی ہوکر پہلی
بار مسلم لیگ اور قائد اعظم کی حمایت کا اعلان کیا تو یہ اعلان مولانا
مظہرالدین کے دفتر ہی میں کیا.
١٩٣٨ء میں مصرمیں فلسطین کانفرینس منعقد ہوئی جس میں آل انڈیا مسلم لیگ نے
بھی اپنا وفد روانہ کیا. اس وفد میں عبد الرحمن صدیقی، چوہدری خلیق الزماں
،مولانا مظہرالدین اور مولانا حسرت موہانی شامل تھے. مولانا حسرت تو کچھ
وجوہات کی بنا پر اس وفد کے ساتھ مصر نہ جا سکے. باقی تینوں حضرات فلسطین
كانفرینس میں شریک ہوے. کانفرینس سے واپسی پر مولانا صاحب نے "الامان" کا
مصر نمبر نہایت شاندار اور تصویروں کے ساتھ شایع کیا.
یہ منگل کا دن تھا. ١٤ مارچ ١٩٣٩، ٢٢ محرّم ١٣٥٨ ہجری، ١٠ بجے دن کے قریب
مولانا اپنے دفتر میں اپنی میز پر بیٹھے کام کر رہے تھے. انکے سامنے والی
میز پر ٣ کاتب بیٹھے اخبار کی کتابت کر رہے تھے. ود اجنبی نوجوان دفتر میں
داخل ہوے. ایک نے انہیں باتوں میں لگالیا. دوسرے نے ایک دم سے گردن پر چاقو
کے ٣ گہرے وار کردئیے.
وہ نوجوان بھاگے. مولانا انکے تعاقب میں دوڑے. بر آمڈے میں گر پڑے اور چند
منٹوں کے اندر تڑپ کر داعی اجل کو لبیق کہا. "انّ لله وانّ الیھ راجعون".
انکے جنازے کے ساتھ برا ہجوم تھا جسکا وسیع صحن مسلمانوں سے کھچا کھچ بھرا
ہوا تھا اور مسجد سے باہربھی صفیں بچھائی گئیں تھیں. شاہی مسجد فتح پوری کے
پیش امام "حضرت مولانا مفتی مظہرالله نقشبندی مجددی رحمت الله علیه" نے
انکے شہید ہونے کا فتویٰ دیا. مولانا کو غسل و کفن کے بغیر، خون آلودہ
کپڑوں ہی میں کوٹلہ فیروز شاہ تغلق کے قبرستان میں دفن کردیا گیا. یہ
قبرستان خونی دروازے کے باہر ہے، جہاں مغلیہ خاندان کے شہزادوں کو ١٨٥٧کی
جنگ آزادی میں قتل کیا گیا تھا.
مولانا مظہرالدین کے یہ الفاظ عوام آج تک اپنے دلوں میں بساۓ بیٹھی ہے جب
انہوں نے ایک خطبے کے جواب میں فرمایا "میرے لئے میرا قلم ایک تلوار سے
زیادہ طاقت رکھتا ہے"
مولانا مظہرالدین کی شہادت کے بعد انکی بمثل خدمات کو دیکھتے ہوے انکے بیٹے
کو میاں نواز شریف جو اس زمانے میں وزیراعلی پنجاب کے عھدے پر فائز تھے،
انہوں نے مولانا کی خدمات، انکا محمّد علی جناح کے لے تجویز کیا ہوا ایسا
لقب جو آج پوری قوم کے دلوں میں بسا ہوا ہے، اس کو دیکھتے ہوۓ مولانا کے
بیٹے کو لاہور میں واقعہ الہمرہ حال میں گولڈ میڈل سے نوازا جو مولانا کی
ذات کے لے ایک باعث فخر والی بات ہے.
آرٹیکل منجانب: منیر حسن |