بانی پاکستان کی سالگرہ

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ 25دسمبر 1876ءبروز اتوار بمقام وزیر منشن کراچی میں والدہ سکینہ مٹھی بائی کے بطن سے جناب ِ پونچا جناح کے ہاں پیدا ہوئے ، آپ کا خاندان گجرات کاٹھیاوار کے گاﺅں پانیلی سے 1862ءمیں ہجرت کرکے کراچی بسا، قائد اعظم اس خاندان کے وہ پہلے فرد تھے کہ جن کا باقائدہ پورا اسلامی نام ”محمد علی“ رکھا گیا ”البتہ آپ خود کو محمد علی جینابھائی کہلانا پسند کرتے تھے مگر 14اپریل 1894ءکو آپ نے اپنے نام میں ایک خاص ترمیم کی اور لفظ جینا بھائی ختم کرکے محمد علی جناح کرلیاتھا“ آپ کے تین بھائی اور تین بہنیں تھیں جن میں سے فقط محترمہ فاطمہ جناح قیام پاکستان کی بھرپور جدوجہد کا حصہ بننے کے باعث معروف ہوئیں جبکہ باقی ماندہ نے نجی و غیر معروف زندگی گزاری، آپ کی مادری زبان گجراتی تھی ، قائد اعظم ؒ نے ابتدائی تعلیم گھر سے پائی بعدازاں 1882ءمیں سندھ مدرسة الاسلام کراچی میں استفادہ تعلیم کیلئے داخل ہوئے اور یہاں سے امور تدریس کی بجاآوری کے بعد ممبئی چلے گئے جہاں گوگل داس پنچ پال پرائمری سکول میں کچھ عرصہ زیر تعلیم رہے اور انجمن اسلام سے بھی تعلیمی استفادہ کیا اور دوبارہ سندھ مدرسة الاسلام آگئے، جس کے بیرونی گیٹ پر آج ENTAR TO LEARN AND GO FOR TO SERVE نمایاں تحریر ہے، دریں حالات خدمت کرنے کا جو جذبہ انہوں نے اس مدرسہ سے حاصل کیا وہی آپ کے بام شہرت کا سبب بنا، آپ شروع ہی سے محنت کے عادی تھے جس کا جواز وہ یہ بیان کیا کرتے تھے کہ میری بھرپور محنت کا محور یہ ہے کہ میں حصول تعلیم کے بعد ایک بہت بڑا (یعنی کامیاب) آدمی بن سکوں، قائد اعظم ؒ نے جب حصول تعلیم کیلئے انگلینڈ کا رخ کیا تو آپکی عمر صرف 16برس تھی، جہاں انہوں نے اپنی تعلیم کیلئے مقامی تعلیمی ادارہ” لنکزن “کو چنا جس کی وجہ اسکے مین گیٹ پر دنیا کے جن عظیم اور نامور قانون دانوں کی فہرست کنندہ تھی ان میں حضرت محمد ﷺ کا نام مبارک نمایاں تھا قائد اعظمؒ کے اس حسن انتخاب سے واضح ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی محبت ، عقیدت اور وابستگی شروع دن سے ہی انکا خاصہ رہی، آپ نے 18سال کی کم عمری میں بیرسٹری کا امتحان پاس کرکے شعبہ تدریس میں نئی تاریخ رقم کی، قائد اعظمؒ کی شادی نہایت کم عمری میں ہوئی اور جب 1886ءمیں آپ بیرسٹر بن کر کراچی واپس آئے تو آپ کی والدہ اور بیوی کا انتقال ہوچکا تھا اور والد کا کاروبار بھی ضعیف العمری کے باعث زبوں حال تھا جس کے تحت آپ نے فوری طورکراچی سے اپنی وکالت کا آغاز کیا مگر حالات قطعی سازگار نہ رہے اور آپ 1897ءمیں کراچی سے بمبئی چلے گئے جہاں انہوں نے پہلے مسلمان بیرسٹر کی حیثیت سے بمبئی ہائی کورٹ میں وکالت کا سلسلہ پروان چڑھایا اوائلی تین سال انہیں نہایت نامسائد حالات کا سامنا رہا جس میں ہندو و دیگر مذاہب کے قانون دانوں کی طرف سے انہیں مسلمان بیرسٹر ہونے کے باعث عدم برداشت کا شکار کرنا تھا، 1900ءمیں آپ پریذی ڈینسی مجسٹریٹ رہے مگر قریب5ماہ بعد ہی اسے خیر آباد کہہ کر دوبارہ پیشہ وکالت اپنایا البتہ اس وقت تک آپکا کردار و صلاحیت اجاگر ہوچکے تھے جس کے باعث جلد ہی آپ کا شمار ممبئی کے کامیاب اورقابل وکلاءمیں ہونے لگا، 1857ءکی ناکام جنگ آزادی کے بعد برصغیر کے مسلمان بے سرو سامانی کے عالم اور بری طرح ٹوٹ پھوٹ چکے تھے جبکہ سیاسی طور پر تباہی و بربادی اور پستی و زوال انکا مقدر تھی تو دوسری طرف انکے قومی تشخص کو ہندوﺅں نے بری طرح مجروح کررکھا تھا اور ہندو لیڈروں نے مشترکہ قومیت کے جس تصور کو ابھارااس میں مسلم قومیت گم ہوتی دیکھائی دے رہی تھی ان حالات میں مسلمان دوہری غلامی کا شکار ہوچکے تھے ایک طرف انگریزی سامراج تو دوسری طرف ہندوﺅں کا معاشی و معاشرتی اعتبار سے برتری حاصل کرنے کا عمل مسلمانوں کیلئے شدید دشواریاں پیدا کئے ہوئے تھا، ایسے میں سر سید احمد خاں نے مسلمانوں کو سنبھالا دینے کیلئے عملی جدوجہد پروان چڑھائی مگر 20ویںصدی کی ابتداءہی میں مسلمان نہایت مایوسی میں گھرے ہوئے تھے جنہیں اپنا مستقبل مخدوش دیکھائی دے رہا تھا، ہندوﺅں کی عیاریوں اور انگریز گٹھ جوڑ کی وجہ سے مایوسی مزید بڑھتی چلی گئی ، اس وقت ایک ایسے رہنما کی ضرورت تھی جو مسلمانوں کو اس پریشانی ومایوسی سے نجات دلانے کی صلاحیت کا حامل اور درست سمت میں رہنمائی کرتے ہوئے انہیں ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کرتا، ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ نے ہندوﺅں اور انگیریزوں کی غلامی سے آزادی کا ایک خواب دیکھا جسے شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے قائد اعظمؒ جیسے لیڈر کی دستیابی ناگزیر تھی جبکہ قائد اعظمؒ کی ذات میں وہ تمام تر خوبیاں و صفات بدرجہ اطم موجود تھیں البتہ قائد اعظمؒ کو اس تاریخ ساز جدوجہد کا سربراہ مقرر کیا گیا جنہوں نے اپنی تمام تر توانائیاں اور صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے اپنے تدبر ، فہم و فراست ، جرات و دیانتداری سے اپنا کردار نبھایا اور وہ کام کردیکھایا جو شاہد کوئی دوسرا قطعی نہیں کرسکتا تھا، مگر آزادی کی منزل پانے کیلئے پہلے ملت اسلامیہ میں جداگانہ تشخص کو ابھارنا ضروری تھا تاکہ وہ اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کیلئے اپنے اندر جذبہ و شعور بیدار کریں، قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو ماﺅزے تنگ ، اتاترک ، سوئےکارو نوجیا رہنما گرداناں گیا جنہوں نے قومیتی آزادی کیلئے اہم کردار ادا کیا ، قائد اعظمؒ نے بیک وقت بہت سے قوتوں کا مقابلہ اور عوامل کا سامنا کیا، کئی سیاسی رہنماﺅں سے آئینی و دستوری جہد کی جبکہ انگیریزوں کےخلاف سیاسی جنگ کو انجام دہی بخشی جو کئی سالوں سے برصغیر پاک و ہند پر قابض ہو کر اہل برصغیر کی تقدیر کے مختار اور وسائل و اقتدار پر قابض ہوئے بیٹھے تھے، انہوں نے ہنددﺅں کی عیاری و مکاری کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا، قائد اعظمؒ کو ان دو قوموں کے علاوہ مسلم قومیت کے بعض بے مہار افراد سے بھی نبرد آزما ہونا پڑا جنہوں نے انگزیز آقاﺅں کی غلامی اور ہندﺅں کی فرمانروائی وچاپلوسی کا طوق گلے میں ڈال رکھا تھا، ان تمام مخالفین کے باوجود قائد اعظمؒ نے قوم کی درست سمت میں رہنمائی کرکے انکی جدوجہد کو کامیابی کی راہ پر گامزن کیا جس کے صلہ میں ایک الگ وطن ”مملکت خداداد پاکستان“ نصیب ہوا، جہاں وہ اپنی زندگی اسلامی اصولوں و روایات کے مطابق آزادی گزار سکتے تھے ، قائد اعظمؒ ایک ایسی عظیم شخصیت تھے جن کے بارے میں مسزوجے لکشمی پنڈت نے کچھ یوں کہا کہ” اگر مسلم لیگ کے پاس سو گاندھی اور دو سو نہرو و ابوالکلام آزاد ہوتے اور کانگرس کے پاس ایک محمد علی جناح ہوتا تو ہندوستان کبھی بھی تقسیم نہ ہوتا “یہ اس عظیم لیڈر کی بات تھی کہ جس نے مسلم لیگی پرچم تلے برصغیر کے تمام مسلمانوں کو یکجا کیا اور وطن عزیز پاکستان کو ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر وجود دیا، جس میں ہم سب ہر سال 25دسمبر کو پورے جوش و جذبہ سے مناتے ہیں بلکہ بیرون ممالک مقیم پاکستانی بھی اس روز قائد اعظمؒ کی سالگرہ کے سلسلہ میں باوقار تقاریب کا اہتمام کرکے ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، مگرآج نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ فی زمانہ بہت سی مسلم لیگیں معرض وجود میں ہیں جن کے لیڈر صاحبان خود کو قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا حقیقی سیاسی جانشین متصور کئے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے نہ صرف مسلم لیگیوں میں انارگی و بے اتفاقی بڑھ رہی ہے اور نوبت اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اقوام عالم میں پاکستانی مسلم لیگی دھڑوں کو بوقت قیامت وجود پذیر ہونیوالے 72فرقوں کی مثل قرار دیتے ہوئے شدید طنز کا نشانہ بنایا جارہا ہے جس سے یقینا بانی مسلم لیگ قائد اعظمؒ کی روح ضرور بے چین کا شکار اور اضطراب میں مبتلا ہو گی، حالات کی نزاکت کا تقاضا ہے کہ خدارا اسے قائد اعظمؒ کی مسلم لیگ کی شکل لوٹائی جائے جس میں دھڑہ بندی و تفریق کا عنصر قطعی موجود نہ ہو جس کیلئے تمام مسلم لیگی دھڑوں کو اپنے ذاتی و پارٹی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اتحاد و اتفاق کی فضاءکو پروان چڑھانا ہوگا ، کاش ! ایسا ممکن ہو اور مسلم لیگی دھڑے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر اسے دوبارہ قائد اعظم ؒ کی مسلم لیگ بنائیں تاکہ جاری بدامنی وبدعنوانی کا راستہ روکتے ہوئے مملکت خداداد پاکستان کو قائد اعظمؒ کے خوابوں کی تعبیر دی جاسکے۔
Sahir Qureshi
About the Author: Sahir Qureshi Read More Articles by Sahir Qureshi: 5 Articles with 3823 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.