بھٹ شاہ کا ایک درویش

 یہ ربّ کا ہوجاتاہے سب اس کا ہوجاتاہے ۔ایک ایسا جملہ جو مجھ سے ناقص العقل کی سماعتوں سے ہوتاہوا سطح دماغ پر اک محشر بپا کردیتاکہ کیا مطلب ہے اس کا؟کیامعنٰی ہیں اس کے ؟کیا مراد ہے اس کی ؟لیکن جوں ہی کتب و اہل کتب سے تعلق پیدا ہواکافی الجھی ہوئی گتھیا سلجھنے لگیں ۔مجھے میرے سوالات کے جوابا ت مثبت اور احسن انداز میں ملنے لگے ۔چنانچہ مجھے اس سوال کا جواب بھی مل ہی گیا۔میں معاشرے میں دیکھ رہاتھاکہ مسجد سے اعلان ہورتاکہ فلاں بن فلاں کا انتقال ہوگیاہے۔جن کا نمازِ جنازہ اتنے بجے ہوگا۔وغیر ہ۔۔۔ایک عجب منظر پردہ چشم سے گزرتا کہ بعض جنازے ایسے دیکھے کہ ان میں چند افراد بامشکل ٢٥سے ٣٠افراد جبکہ بعض مرتبہ وہ منظر بھی دیکھے کہ کسی فرد کا انتقال ہوا تو چشم فلک نے انسانوں کا ٹھاٹھیںمارتاہوا سمند ر دیکھابلکہ عالم یہ کہ عشاق اپنے پیارے کی ایک جھلک کو ترسنے لگے ۔پروانے جوق در جو ق ،قافلہ در قافلہ جنازہ گاہ کی جانب بڑھتے چلے جارہے ہیں ۔ میںوہ منظر کبھی نہیں بھلا سکتاجب ہم قائد ملت اسلامیہ شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے جنازہ میں گئے تو عشاق کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمند ر،آنکھوں سے رواں ،دیوانہ وار قافلوں کی آمد پتا دی رہی تھی کہ جو رب کا ہوجاتا ہے سب اس کا ہوجاتاہے ۔مجھے میرے بہتیرے سوالوں کا جواب مل گیا۔اس کالم میں بھی میں ایک عظیم ہستی جن کے فیضان سے چار دانگ روشنی ہوئی ۔جنھوں نے اپنے کا قیام کا مرکز باب الاسلام سندھ کو بنایا۔اک ویران ،بیاباں جگہ آکر آباد ہوگئے ۔اپنے ربّ سے دوستی کی تو تاریخ کا روشن باب اور زمانہ ساز بن گئے ۔وہ عظیم ہستی حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْْْہ ہیں ۔

سندھ اولیا ء کی سرزمین ''پاکستان '' کاوہ خطہ ہے جہان آج سے کم و بیش 300 سال قبل ١١٠١؁ھ بمطابق ١٦٨٩؁ء میںہالاحویلی ضلع مٹیاری میں رہائش پذیر ایک معتبروبرگزیدہ ہستی حضرت سیدشاہ حبیب رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْْْہ کے آنگن میں ایک ایسے بچے نے آنکھ کھولی جسے منجانب اللہ عزوجل دین متین کی سربلندی کیلئے خدمات انجام دینا تھی ۔۔حضرت سیدشاہ حبیب رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْْْہ نے اپنے فرزند کا نام سید شاہ عبداللطیف رکھا جنہوںنے تبلیغ اسلام کاعلم بلندکرکے ولی کامل ،صوفی شاعرحضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْْْہ کے نام سے شہرت پائی۔۔
(تذکرہ صوفیائے سندھ،ص١٧٨)

حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْْْہ کی ابتدائی تعلیم وتربیت اپنے والدبزرگوارحضرت سیدشاہ حبیب رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْْْہ کے زیرِ سایہ ہوئی،آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْْْہکو عربی ،فارسی،ہندی پربڑا عبور حاصل تھا،علوم پر گہری نظر رکھتے تھے ،قرآن وحدیث کے اعلیٰ مضامین، تصوف کے معارف واصطلاح کو جس طرح سے آپ نے اپنی شاعری میں سمو یایہ آپ کے علم وفضل کے شاہد ہیں۔(تذکرہ صوفیائے سندھ،ص١٧٨)

آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْْْہ نے مٹیاری کے ایک قریبی قصبے میںسکونت اختیار فرمائی جسے بھٹ کے نام سے پکاراجاتا تھالیکن یہ علاقہ اب آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْْْہ کی نسبت سے بھٹ شاہ کے نام سے مشہورومعروف ہے ۔یہی سے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْْْہ نے علم وعرفان کے چشمے جاری کئے،رشد وہدایت کی شمع فروزاں کی جس سے دور دور تک دنیا روشن ہوئی ،آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْْْہکی برکات سے ویرانے خوب آباد ہوئے،آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْْْہ کا مقصدِ حیات انسانی رشتے کو اللہ عزوجل سے جوڑنا،سرکارصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْْْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کی محبت سے دلوں کو گرمانا، حسنِ اخلاق اور پاکیزہ کردار سے آراستہ کرنا ، محبت وخلوص سے آشنا کرنا اوردکھی انسانیت کو محبت کا پیغام دینا تھا،آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْْْہنے اس مقصد کے لئے ان تھک کوشش کی اور اپنے اس پیغام کو اپنی روحانی شاعری کے ذریعے عام کیااور لوگوں کی اصلاح کی،آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْْْہکی شاعری کا موضوعِ خاص خالق اور مخلوق کی محبت ہے ،آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْْْہنے اپنی شاعری سے محبت کا چراغ روشن کیا ہے، لوگوں کی زندگی میں ایک نئی امنگ اور ولولہ پیدا کیا ہے ۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْْْہکے کلام کا مجموعہ ''شاہ جو رسالو'' کے نام سے مشہور ہے جو کہ نہایت عقیدت واخلاص کے ساتھ پڑھا اور سنا جاتا ہے۔(تذکرہ صوفیائے سندھ،ص١٧٨)

حضرت سیدشاہ عبداللطیف بھٹائی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْْْہنے اپنی آخری سانس تک عوام الناس کے دلوںمیں خوف خداعزوجل اورحب نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی شمع کوروشن رکھا۔٦٣ برس کی عمر مبارک پاکر ١١٦٥؁ھ بمطابق ١٧٥٢ء میں بھٹ شاہ ضلع مٹیاری(باب السلام سندھ) میں آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْْْہ نے وصال فرمایا اور وہیںآپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْْْہ کا مزار پرانوار ہے۔ہرسال صفرالمظفر کی 12 تاریخ کو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْْْہ کا عرس مبارک نہایت عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے ۔(تذکرہ صوفیائے سندھ،ص١٧٨)

محترم قارئین :آپ کی خدمت میں گاہے گاہے مختلف عنوانات و تحقیقات کے ساتھ حاضر ہوتاہوں لیکن ان دنوں میرا قلم سیرت کے گوشوں کو بیاں کرنے کے لیے بے تاب ہے ۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میں محسوس کرتاہوں کہ ہم نے اچھوں کی صحبت ،اچھوں کی سیرت ،اچھوں کا کردار نہ صرف بھلادیابلکہ جھٹلابھی دیا ۔ایک قلم کار ،ایک ملّت کے ادنٰی خادم کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری جانتے ہوئے ان ہستیوں کی سیرت ،کردار قارئین تک پہچاوں جو مرنے کے بعد بھی امر ہوگئے ۔جن کا نام سنّت ہیں ۔سماعتوں کو فرحت محسوس ہوتی ہے ۔زبان کو تازگی ملتی ہے ۔جنھیں تاریخ کے اوراق سے نکالنے کی مکروہ کوشش بھی کی گئی تو نہ نکال سکیں گئے کیونکہ ان کا باکمال ہستیاں دلوں میں گھر کرگئی ہیں ۔وہ ربّ کی بارگاہ میں مقبول ہیں ربّ تعالٰی نے انھیں اگلوں و پچھلوں سبھی میں ممتاز رکھا۔آپ بھی یہ کوشش کریں کہ ان لازوال ہستیوں کو اپنی زندگی کا آئیڈیل بنائیں ۔بہت جلد آپ اس کے ثمرات محسوس کریں گئے ۔اللہ عزوجل !ہمیں اپنے اچھوں کے طفیل اچھااور اپنا نیک بندہ بنالے اور ہم سے وہ کام لے کہ ہمارا مرنا دوسروں کے لیے عبرت نہیں بلکہ تقلید کا باعث بن جائے ۔جو ربّ کا ہوجاتا ہے ۔سب اس کا ہوجاتاہے ۔۔
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 381 Articles with 593738 views i am scholar.serve the humainbeing... View More