فلسطینی اور کشمیری نیشنلزم (قسط۳)

شہید کشمیر محمد مقبول بٹ الجزائر اور فلسطینی فریڈم موومنٹ سے بیحد متاثر تھے اور انہوں نے عملی طور پر تحریک آزادی کشمیر کو انہی خطوط پہ منظم کرنیکی بھرپورکوشش کی اور اسی جدوجہدکے دوران وہ شہادت کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہوئے جسے جھٹلانا تاریخ کا منہ چڑانے کے مترادف ہوگا۔ شہید کشمیر کا محاز آزادی سے این ایل ایف تشکیل دینا اور مسلح جدوجہد کی لازوال کوشش انکے افکار کی نشاندہی کرتا ہے انکا نکتہ نظر یہ تھا کہ دشمن کو پریشان کئے بغیر مقاصد کا حصول نا ممکن ہے اگر آزادی چاہیے تو اپنا اور دشمن کا خون بہانہ ہوگا آپ نے قوم سے کہا کہ اپنی آزادی کی کیلئے خودلڑیں اور اسکی حفاظت و تعمیرکو بھی اپنی قومی زمہ داری سمجھیں۔اورانہوں نے قوم کو یقین دلایا کہ نیشلزم کے ساتھ ساتھ تحریک آزادی کے تین بین الاقوامی مسلمہ اصولوں عسکری ،سیاسی و سفارتی محازوں پر جدوجہد کو آگے بڑھانا کامیابی کی ضمانت ہے جبکہ آپ نے حقیقتاً تحریک کوانہی خطوط پہ آگے بڑھایا بھی لیکن یہ عمل اسوقت سست روی کا شکار ہوا جب گنگا ہائی جیکنگ کے بعد محاز و فرنٹ کیخلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن ہوا جسکے نتیجہ میں اس تنظیم کا شیرازہ بکھرکے رہ گیا اوراسکے کچھ عرصہ بعد شہید کشمیر بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے جبکہ باقی ماندہ تحریکی لوگ جو ابھی اپنے اولین فیز میں تھے کو عقوبت خانوں میں قید و بند کی صوبتیں برداشت کرنا پڑھیں اور تحریک کافی حد تک پس منظر میں چلی گئی چہ جائیکہ عوامی سطح پہ بھی اس تحریک کا بہتر طور پر منظم نہ ہونا بھی ایک مسئلہ رہا اور شہید کی شہادت کیبعد تو جیسے مسئلہ کشمیر پر اوس پڑھ گئی لیکن جلد ہی جموں کشمیر لبریشن فرنٹ جسکا قیام برمنگھم لندن میں ہوا تھا نے تحریک کو دوبارہ شہید کشمیر کے افکار کیمطابق شروع کرنے کا وعزم واعادہ کیا اور پھر 88میں تحریک کو عسکری سیاسی وسفارتی محازوں میں منظم کرنیکی کوشش کی گئی تو یہ تحریک ایک بارپھر سے مقبولیت کے افق پر پہنچی بلکل اسی طرح جیسے ساٹھ کے عشرے میں الفتح کی تحریک کے چرچے عام تھے ہر سو لبریشن فرنٹ زیر بحث تھااور یہ تحریک بھی فلسطینی تحریک کے مشابع نظر آنے لگی ۔ پوری دنیا میں موجود کشمیریوں جن پر بزدلی کا داغ لگ چکا تھا کے چہرے کھل اٹھے اور وہ سر اٹھا کہ چلنے کے قابل ہوئے ۔لیکن یہ خوشی و چمک زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی اور بہت جلد یہ تحریک ایک بار پھر زوال کا شکار ہوئی ۔

کشمیری و فلسطینی تحاریک کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو انمیں کئی مماثلتوں کے ہوتے چند اہم کمزوریاں بھی ہیں جن کے باعث کشمیری بہت کچھ گنوا کر بھی کچھ خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکے جبکہ فلسطینی اپنے مقاصد کے حصول میں کافی حد تک کامیاب رہے اسکی اہم ترین وجہ فلسطینی قیادت کا استقامت سے لبریز زبردست تاریخی کردار رہا ہے باالخصوص عظیم یاسر عرفات جنہوں نے دیار غیر میں رہتے غیر ملکی زمین پر مہاجر کیمپوں سے اپنے ہموطنوں کو نکالا انہیں گوریلہ تربیت دی اور اسی ہزار سے زائد نفوص پر مشتمل ریگولر آرمی طرز پر گوریلہ فورس تشکیل دید ی جو کسی بھی ملک کی نیشنل آرمی کے جیسے تمام اداروں ے اور ایک واضع نظام کی حامل تھی حالانکہ عالمی سامراج اسے ابتداء ہی سے اسے دہشت گرد قرار دے چکا تھا مگر فلسطینیوں نے اسکی پرواہ کئے بنا آج تک اسے برقرار رکھا ہوا ہے جو کہ فلسطینیوں اور انکی لیڈر شپ کا ایک عظیم تاریخی کارنامہ اور وہ حقیقی قوت ثابت ہواجس نے دنیا کو مجبور کیا کہ وہ انکی آواز سنے جبکہ اتنی بڑی فورس کے تمام تر اخراجات اور اسلحہ کے حصول کیلئے بھی ایک بھر پور حکمت عملی بنائی گئی جسمیں زیادہ تر انحصار اپنے عوام پہ کرنا تھا جو کسی صورت آسان نہ تھا لیکن انہوں نے بڑی مہارت و خوبصورتی کیساتھ اسے کامیابی سے ہمکنار کیا کہ کبھی کسی کو انگلی اٹھانے کی جرات نہ ہو سکی جو کہ کسی بھی عوامی تحریک میں یہ کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔دوسری جانب کشمیر کی 88میں شروع ہونیوالی تحریک کا بغور جائزہ لیا جائے توصاف پتہ چلتا ہے کہ اس اہم ترین تحریکی پہلو کو نظر انداز کیا گیابہرحال اس تحریک کے شروع ہوتے ہی ریاستی عوام دیوانہ وار اسکی جانب کھنچے چلے آئے اور دنیا بھر میں موجود ہر طبقہ فکر نے اپنے خزانوں کے منہ کھول دئیے یہ رد عمل فلسطینیوں کے نسبتاً زیادہ تھا۔دوسری جانب کشمیریوں کے پاس بالعموم 32 ہزار جبکہ بالخصوص4 ہزار مربع میل ایسی زمین تھی جسے وہ جیسا چاہتے بنا روک ٹوک کے استعمال کر سکتے تھے جبکہ( فلسطینیوں کے پاس ایسی کوئی سہولت نہیں تھی )اور اس سر زمین میں بسنے والے بھی کشمیری تھے جو کہ کلی طور پر اس تحریک کیلئے تن من دھن قربان کرنے کو ہمہ وقت تیار تھے مختصراً کہ فضا انتہائی مثالی تھی اگر اس وقت تحریکی لوگ فلسطینیوں کی تحریک کاباریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے انہیں خطوط پر اسے آگے بڑھاتے ہوئے ساٹھ ستر ہزار پر مشیمل کوئی نیشنل گوریلہ فورس تشکیل دیدیتے بلکل ایسے ہی جیسے 47میں دی گئی تھی تو اس قومی آزادی کی تحریک کی پشت پر آج وہ فورس ہوتی جو ہماری نظریاتی اور زمینی سرحدوں کی محافظ ہونے کے ساتھ ساتھ تحریک آزادی کی بھی آمین ہوتی یہی نہیں بلکہ آج گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں غیر ملکی مداخلت نام کی کوئی چیز نہ ہوتی اور یہ خطہ حقیقی معنوں میں بیس کیمپ ہوتا اور یہاں کے لوگ بااختیار بھی ہوتے اور یقیناآج خطے کی سیاسی و جغرافیائی پوزیشن بہت مختلف ہوتی ۔آج دنیا خود مذاکرات کیلئے ہمارے پیچھے پیچھے گھومتی ۔آج فلسطین اقوام متحدہ کا مبصر ملک بنا ہے تو ہم یقینا اس سے آگے ہوتے ۔
Niaz Ahmed
About the Author: Niaz Ahmed Read More Articles by Niaz Ahmed: 98 Articles with 82179 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.