اندھیروں سے نفرت کرنے والوں کو
شاید یہ یاد نہیں رہتا کہ اندھیرے نہ ہوں تو اُجالوں کے بارے میں کوئی سوچے
گا بھی نہیں۔ تلخی نہ ہو تو مٹھاس کا کیا اندازہ؟ جہل نہ ہو تو علم اور
دانش کی کیا ہستی؟ بس کچھ ایسا ہی معاملہ غریب اور غربت کا بھی ہے۔ اگر
غریب نہ ہوں تو امیروں کی کیا توقیر؟ غریب کو داد دیجیے کہ اپنے وجود کو
برقرار رکھ کر دنیا کو امیروں کی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں!
جو لوگ ہر وقت غربت کا رونا روتے ہیں یا غریبوں کے مسائل کا راگ الاپتے
رہتے ہیں اُنہیں سوچنا چاہیے کہ غریب کی زندگی میں سب کچھ خالص ہوتا ہے۔
اُن کے افلاس میں کوئی کھوٹ نہیں ہوتی۔ ناکامی ہوتی ہے تو خالص، پریشانی
ہوتی ہے تو جامع اور بے داغ۔ اور اگر کوئی غریب ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی
کارکن بھی ہو تو سمجھ لیجیے کہ اخلاص دو آتشہ ہوگیا۔ مرتے دم تک وہ جن
وعدوں پر بھروسہ کرے گا وہ بھی خالص یعنی وہ صرف وعدے ہی رہیں گے! ہماری
منتخب و غیر منتخب حکومتوں کا احسان ہے کہ غریبوں کو بہت سے مسائل اور
الجھنوں سے بچالیا ہے۔ مثلاً غریب اِس یقین کی منزل میں ہیں کہ اُن کے
مسائل برقرار رہیں گے۔ چلیے، جھوٹی امیدوں کا سہارا تو گیا۔ اُمّید بر نہیں
آتی تو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ بڑی مہربانی ہے کہ غریبوں کو اِس تکلیف سے
بچالیا گیا ہے۔
مگر خیر، اللہ کے بہت سے بندے اب بھی اُمّیدوں کے سہارے جی رہے ہیں۔ کراچی
پریس کلب کے فٹ پاتھ پر بیٹھا حکمراں جماعت کا سینئر کارکن عابد حسین میمن
شاید اب بھی اِس امید پر زندہ ہے کہ اُس کی ساری امیدیں بر آئیں گی۔ سیاسی
جماعتیں اپنے تاج محل کارکنوں کی ہڈیوں پر بناتی آئی ہیں۔ یہ ہماری سیاست
کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ قائدین اقتدار کے تختِ طاؤس پر بیٹھتے ہیں مگر اِس
تخت کو اپنے کاندھوں پر اُٹھانے والے زندگی کی تمام بنیادی و اعلیٰ نعمتوں
سے محروم ہی رہتے ہیں۔ جب بھی کوئی جماعت اقتدار میں آتی ہے تو اُس کے لیے
گالیاں اور گولیاں کھانے والوں کی آنکھوں میں اُمّیدوں کے دیئے روشن ہو
جاتے ہیں۔ دل میں آس کا پھول کھلتا ہے کہ اب مُراد کسی حد تو بر آئے گی۔
مگر کچھ نہیں ہوتا۔ حکمرانوں کے گرد حلقہ بند مفاد پرست من کی مُرادیں پاتے
رہتے ہیں اورصرف اپنے لیے نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کیلئے بھی بہت کچھ چھوڑ
جاتے ہیں۔ جنہیں کچھ بننا ہوتا ہے وہ بن کر رہتے ہیں اور مخلص کارکن سب کی
کامیابیوں کو حسرت سے دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں!
|
|
بے چارے سیاسی کارکن وعدوں پر جیتے ہیں مگر جیتتے کبھی نہیں۔ وعدوں،
دِلاسوں اور یقین دہانیوں کے عوض وہ اپنی تمام تمناؤں، اُمّیدوں اور حسرتوں
کو سیاسی جُوئے میں ہار جاتے ہیں۔ اُن کے چاروں طرف پھول کھلتے ہیں مگر اِن
پھولوں کی خوشبو تک پر اُن کا اختیار ہوتا ہے نہ اجارہ! پارٹی کے افق پر
اقتدار کا سورج طلوع ہو بھی جائے تو کیا؟ بے چارے بے آواز اور بے بس
کارکنوں کی زندگی کے اندھیرے تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتے! عابد حسین
میمن کو بھی شاید اب تک یقین ہے کہ اُس کی پارٹی اقتدار کے پانچ برسوں میں
اُس کے لیے جو کچھ نہ کرسکی وہ اب چند ماہ میں کر گزرے گی۔ اُمّید تو خیر
نہیں ہے مگر اللہ کرے کہ یہ اُمّید بر آئے، کام بن جائے، زندگی بھر کی
ناکامیوں کے عوض تھوڑی بہت کامیابی نصیب ہو ہی جائے! یہ یقین ہی کارکنوں کا
سب سے بڑا ”اثاثہ“ ہوا کرتا ہے! ہر مخلص سیاسی کارکن جب اپنی تمام اُمّیدوں
کو ناکام ہوتا ہوا دیکھتا تو ہے وہی کچھ کہتا ہے جو ایسی حالت میں ہر غریب
کہا کرتا ہے .... یعنی کچھ دے نہیں سکتے تو گولی مار دو، زندگی کا گورکھ
دھندا ہی ختم کردو!
یا مِری منزل بتا ، یا زندگی کو چھین لے
جس کے پیچھے غم لگے ہوں اُس خوشی کو چھین لے!
عابد حسین میمن جیسے نہ جانے کتنے ہی کارکن عشروں تک اپنے پورے وجود کو
پارٹی کے لیے وقت کئے رہتے ہیں مگرقائدین کو اُن کے حالات بدلنے کا خیال تک
نہیں آتا۔ اور جب ناکام سیاسی کارکنوں کی زندگی شام کے دُھندلکے سے بغل گیر
ہوتی ہے تو وہ شدید مایوسی کے اندھیرے میں ڈوب جاتے ہیں۔ چاروں طرف خوش
حالی ہو بھی تو اُنہیں کیا؟
ہمیں کیا جو ہر سُو اُجالے ہوئے ہیں
کہ ہم تو اندھیروں کے پالے ہوئے ہیں!
فوٹو گرافی : ماجد حسین) |