کیا کانگریس مودی کی مددگار ہے؟

ملکی سیاست میں کرپشن کا زور دن بہ دن بڑھ رہا ہے کرپشن کا رواج ختم کرنے کے لیے سخت قوانین کی ضرورت سب مانتے ہیں لیکن پھر بھی اس سلسلے میں ضروری قانون سازی نہیں ہوپارہی ہے اس کی وجہ سے یہ ہے کہ قانون ساز ہی کرپشن میں ملوث ہیں تو وہ بھلا (بقول لالو پرشاد یادو ’’اپنے گلے میں اپنے ہی ہاتھوں پھانسی کا پھندہ بھلا کون ڈالتا ہے؟‘‘) کے مصداق قانون سازی یا لوک پال بل کی موثر بنانے میں بھلا کیوں دلچسپی لیں گے! کچھ یہی حال سیکولرازم کو پامال کرنے والے فرقہ پرستی میں ہی نہیں بلکہ فرقہ پرستی سے تعلق رکھنے والے جرائم (مثلاً مسلم کش فسادات، قتل و غارت گری برپا کرنا اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کو دہشت زدہ کرنا) میں مبتلا افراد کا ہے یہ برسراقتدار ہیں یا رہ چکے ہیں اور مزید لائے جاسکتے ہیں۔ بابری مسجد کی شہادت کے مجرم نمبر ایک پی وی نرسمہا راؤ مسجد کی شہادت کے بعد بھی وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان رہے وہ گئے تو اڈوانی جو بابری مسجد کی شہادت یا رام مندر تحریک کے سرغنہ رہے ہیں پہلے وزیر داخلہ پھر نائب وزیر اعظم بن گئے۔ گجرات میں چنگیز وہلا کو کاجدید ایڈیشن نریندر مودی 2002ء میں گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام اور غارت گری کے بعد بھی آج تک وزیر اعلیٰ رہے ہیں کوئی ان کا بال بیکانہ کرسکا اب تو وہ وزیر اعظم بننے کی فکر میں ہیں۔ یہ سطور گجرات کی ریاستی اسمبلی کے انتخابی نتائج کے اعلان سے قبل رقم کی جارہی ہیں ایک عام خیال یہ ہے کہ گجرات میں کامیابی کی صورت میں نریندر مودی کو وزارت عظمیٰ کی کرسی کی امیدواری کا ٹکٹ مل جائے گا۔ ہمارا تو یہ اندازہ ہے کہ گجرات میں مودی کی کامیابی تقریباً یقینی ہے کیونکہ گاندھی کے گجرات میں نہ صرف فرقہ پرستی کا خاصہ زور ہے بلکہ فرقہ پرستی کے دیوتا مودی کی گجرات میں بڑی قدر و منزلت ہے اور بڑے بڑے سرمایہ داروں (مثلاً مکیش امبانی اور رتن ٹاٹا) کی حمایت و سرپرستی بھی ان کو حاصل ہے اس لیے ان کی کامیابی کے تعلق سے شک و شبہ کا امکان بہت کم ہے اسی طرح بی جے پی یا این ڈی اے کی جانب سے وہ وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار ضرور بن سکیں گے اور کیا عجب کہ ایک ایسا شخص جس کو بعض ممالک مدتوں اپنے ملک میں آنے کی اجازت دینے کے روادار نہ ہوئے وہ (اﷲ نہ کرے) ملک کا وزیر اعظم بن جائے تو آئیے ہم آپ ملک کے سیکولرازم ہندو مسلم اتحاد اور گنگا جمنی تہذیب کا فاتحہ پڑھنے کے لیے تیار ہیں پتہ نہیں وزیر اعظم بن کر مودی اس کی بھی اجازت دیں نہ دیں۔ یہ مایوسی وقنوطیت پسندی نہیں ہے بلکہ ایسے اندیشے ہیں جن کا مضبوط جواز موجود ہے۔

ہمارے ملک کے دستور میں مشتبہ کردار کے حامل افراد بلکہ ایسے بھی افراد بھی جن کا مجرم ہونا تو مستند ہے لیکن انصاف کے پیچیدہ تقاضے پورے کرتے ہوئے ان کو کسی عدالت سے سزا دلوانا ممکن نہ ہو) کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف دیوانی ہی نہیں بلکہ فوجداری مقدمات میں ملوث بلکہ ملزم انتخابات میں حصہ لیتے ہیں اور ’’قوت زر یا قوت بازو‘‘ کے بل پرکامیاب ہوتے ہیں وزیر بھی بن جاتے ہیں صرف اترپردیش میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں ہر انتخابی ادارے (مجلس بلدیہ سے لے کر پارلیمان تک ہر جگہ بے شمار راجہ راجہ بھیا اور مختار احمد انصار موجود ہیں بہار کے پیویادوشہاب الدین کی طرح بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو اپنے ہی دوستوں یا دشمنوں کی کسی سازش کے بدقسمتی سے شکار ہوجاتے ہیں ورنہ عام طور پر ایسے افراد پرپولیس و عدالتیں (نچلی سطح کی) ’’ڈان‘‘ حضرات کو کھلی چھوٹ دیتی ہیں۔ مہماتماگاندھی کی ہلاکت کے بعد تو دستور میں ایسے مشتبہ افراد کو عوامی نمائندہ منتخب کئے جانے یا کرانے کی کوشش پر قدغن لگانا ضرورتی تھا کیونکہ بابائے قوم مہاتما گاندھی کے قتل کے اہم ملزم ویرساورکر کو گاندھی جی کے قتل کے الزام سے محض تکنیکی بنیاد پر برأت حاصل ہوئی تھی اور بی جے پی کے این ڈی اے حکومت کے دور میں مہاتماگاندھی کے مشتبہ قاتل کی توہین کی گئی اور مہاتما گاندھی کے نام کو بلاکسی رشتہ یا تعلق کے اپنے نام سے جوڑ کر خود کو آگے بڑھانے والا خاندان اور کانگریس نے اس کو بلاکسی احتجاج برداشت کیا بلکہ اس مذموم کارروائی میں کانگریس بھی شریک رہی ۔

حیرت ہے کہ اپنی دور اندیشی اور دوربینی اور فراست کے لیے مشہور پنڈت جواہر لال نہرو اور پاکستان کے ٹوٹنے اور ناکام مملکت ہونے کی پیشنگوئی کرنے والے مولانا ابوالکلام آزاد بلکہ نہرو آزاد کی ٹیم اپنے ہی عوام کی کمزوری، سیاستدانوں کی دھاندلیوں اور سیاست اور عوامی زندگی میں جرائم پیشہ افراد کے عمل دخل روکنے اور کرپشن کے انسداد و تدارک کی صورت پیدا کرنا تو دور کی بات ہے اس کا اندازہ بھی نہ کرسکے جبکہ دستور کے نفاذ سے قبل ہی جوش ملیح آبادی مرحوم اپنی مشہور زمانہ نظم ’’ماتم آزادی‘‘ پنڈت نہرو مولانا کو سناچکے تھے۔
رشوت روا‘ فساد روا‘ رہزنی روا
القصہ جو بھی چیز ہے ناکردنی روا

لیکن دستور بنانے والوں نے جہاں بے شمار اچھے کام کئے وہیں اپنے لوگوں کی کمزوریوں سے پیدا ہونے والے خطرات کا ازالہ کرنے کی تدبیر نہ کی اس کا فائدہ جرائم کے مرتکب مجرم محض عدم ثبوت کی بناء پر سزا سے بچ جانے والے مجرموں نے خوب اٹھایا اور اٹھارہے ہیں۔

سرکاری ملازمتوں کے قواعد و ضوابط میں یہ شرط موجود ہے کہ تین دن حراست میں رہنے والا ملازمت سے برطرف یا کم از کم معطل کیا جاسکتا ہے لیکن منتخبہ عوامی نمائندے جیل سے ایوان میں رائے دینے آسکتے ہیں جبکہ عام آدمی جیل میں ہوتو ماں باپ کے جنازے کو کاندھا دینے، ان کی ارتھی جلانے یا بیٹی کے نکاح کی اجازت دینے اور کنےّادان کرنے بھی شاذ و نادر ہی آسکتے ہیں!
گاندھی جی کا قاتل ساورکر سے ’’ویر‘‘ ساوربن کر قومی ہیرو بنادیا گیا۔

ملک میں آزادی کے بعد سے ہر سال مسلم کش فسادات تسلسل و تواتر سے ہوتے ہیں نہ جانے کتنے سوبھیانک فسادات میں (بہ شمول 1984ء میں سکھوں کے قتل عام) ملک کی مختلف ریاستوں میں عوام کے منتخب نمائندوں کا راست یا بالراست شریک ہونا یا بعض صورتوں میں فسادات کی سازش کا منصوبہ ساز (ماسٹر مائنڈ) یا سرغنہ کوئی منتخبہ عوامی نمائندہ ہی تھا لیکن بہت کم کسی کا کچھ بگڑا وہ تو حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والے ادارے تھے یا عدالت عظمیٰ کے احکام تھے کہ گجرات فسادات (2002ء ) میں مودی کابینہ کی ایک خاتون وزیر کورڈ نانی اور ایک دوارکان ِ اسمبلی کو بہ مشکل تمام سزا پاسکے(مودی کے وزیر داخلہ امیت شاہ کسی دوسرے مقدمہ میں زیرحراست تھے)۔

فرقہ واریت سے متعلق جرائم کے مرتکب افراد بلکہ وزرأ، وزیر اعلیٰ سیاستدانوں اور اعلیٰ عہدیداروں کو سزا نہ دینا، معاملات کو سردخانہ میں ڈالنا بلکہ اپنے وزرأ کا دفاع کرنے کی قبیح اور مذموم روایات کانگریس نے قائم کی ہیں یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ 2002ء کے گجرات کے فسادات سے قبل بیشتر مسلم کش فسادات بلکہ تمام بڑے فسادات کانگریسی حکومتوں کے دور میں ہوئے کسی وزیر داخلہ یا وزیر اعلیٰ کے خلاف کارروائی ہونا تو دور کی بات ہے کسی سے جواب دہی تک نہ ہوئی۔ 1992ء میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کانگریس خود نرسمہا راؤ سے مستعفی ہونے کو کہتی شہادت کے ذمہ دار سنگھ پریوار کے قائدین کو ٹاڈا (جو اس وقت نافذ تھا) کے تحت گرفتار کیا جاتا۔ کمزور مقدمات قائم کئے گئے آج 20سال بعد بھی تمام مجرم آزاد ہیں۔ اڈوانی، مرلی منوہر جوشی مرکزی وزیر اور اوما بھارتی مدھیہ پردیش کی وزیر اعلیٰ بنائی گئیں۔ 1993ء میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد ممبئی میں ہوئے بھیانک فسادات کے بعد کسی بھی ملک میں بال ٹھاکرے کے اس بیان کے بعد کہ شیوسینا نے مسلمانوں کو سبق سکھایا ہے۔ شیوسینا پر امتناع عائد کیا جاسکتا تھا ۔ شیوسینا کی پوری قیادت کو گرفتار کیا جاسکتا تھا لیکن کچھ نہ ہوا۔ فسادات میں پولیس کے مذموم رول کے ذمہ دار پولیس افسران کے خلاف جسٹس سری کرشنا کمیشن کی سفارشات کو نہ صرف بی جے پی و شیوسینا کی مخلوط حکومت بلکہ بعد میں آنے والی کانگریس حکومتوں نے بھی کرشنا کمیشن کی سفارشات کو نظر انداز کیا۔ اس سے قبل 1984ء میں بھی سکھوں کے قتل عام کے ذمہ دار اہم افراد کو سزا دینے میں ٹال مٹول سے کام لیا جاتارہا ہے۔ 1993ء کے ممبئی بم دھماکوں کے مجرم سزا پاگئے لیکن اس سے قبل کے فسادات کے مجرم اور خاص طور پر پولیس افسران سزأ کی جگہ ترقی پاکر ملازمت سے مقررہ معیاد پوری کرکے سبکدوش ہوئے۔ ممبئی میں کانگریس نے شیوسینا اور اس کے چیف آنجہانی بال ٹھاکرے کو مہاراشٹرا کی کانگریسی سرکاروں نے ہی دہشت کی علامت یا ہوا بناکر رکھ دیا تھا ان کو کھلی چھوٹ تھی کہ جو چاہیں بولیں جو چاہے ’’سامنا‘‘ میں لکھیں۔ اب راج ٹھاکرے کی بھی پرورش بھی اسی طرح ہورہی ہے۔ کانگریس نے آسام میں ہوئے حالیہ فسادات کے ذمہ دار وزیر اعلیٰ گوگوئی کے خلاف بھی کچھ نہیں کیا۔ تازہ ترین مثال آندھراپردیش کے وزیر اعلیٰ کرن کمارریڈی کی ہے۔ جنہوں نے تاریخی چارمینار سے متصل تعمیرکردہ غیرقانونی مندر کے معاملے میں عدالتی حکم کو نظر انداز کرکے فرقہ پرستوں کی تائید کی مکہ مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھنے والوں کو روکا گیا غیرقانونی مندر جاکر درشن کرنے والوں کو خصوصی سہولتیں فراہم کی گئیں مسلم اکثریت والے علاقوں میں پولیس نے جبراً نہ صرف دکانات بند کروائیں بلکہ تین دن تک غیر معلنہ کرفیو نافذ کرکے عوام کو ہراساں کیا گیا لیکن کانگریس کی اعلیٰ کمان نے کرن کمارریڈی کو کھلی چھوٹ دے کر ان کے موقف کی تائید کی۔

جس کانگریس نے مسلم کش فسادات کے سلسلے میں گزشتہ65سال سے اپنی پارٹی کے کسی قائد کے خلاف کارروائی تو درکنار ان سے جواب طلبی تک نہ کی۔ 2004ء میں این ڈی اے کی جگہ مرکز میں یو پی اے کے پرچم تلے برسراقتدار آنے کے بعد مودی کے خلاف کیا کارروائی کرتی؟ جبکہ گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام اور درندگی ہی کانگریس کا انتخابی موضوع اور انتخابی وعدہ تھا!

جن اسباب اور وجوہات کے تحت کانگریس کے لئے مودی اور ان کی حکومت کو برطرف کرنا آسان تھا کانگریس نے اس تعلق سے غور ہی نہیں کیا بلکہ الٹا بعض معاملات میں مودی کی حکومت کی تائید کی۔ کانگریس نہ صرف اپنے قائدین اور وزرأ کی پردہ پوشی کی عادی ہے بلکہ بال ٹھاکرے، بھنڈراں والا، اور نریندر مودی جیسے سانپوں کی پرورش کی ہے اور اب راج ٹھاکرے کی پشت پناہی کی جارہی ہے۔ گجرات کے حالیہ انتخابی معرکے میں کانگریس نے 2002ء فسادات کا ذکر تک نہیں کیا جس کی وجہ ’’ہندوووٹ بینک‘‘ کو متاثر نہ ہونے دینے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ کانگریس نے اس طرح مودی کی ہر طرح ممکنہ مدد ضرور کی۔

نریندر مودی کو وزیر اعظم بننے کے لیے گجرات میں کامیابی کی شرط شائد بہت ضروری نہیں ہے اگر توقعات کے برعکس وہ کامیاب بھی نہ ہوسکیں تو بھی وہ 2014ء میں این ڈی اے کی کامیابی کی صورت میں مودی کا وزیر اعظم کی کرسی کا دعویدار ہونا ضروری ہے ۔ مکیش امبانی اوررتن ناتھ ٹاٹا جیسے سرمایہ داروں کی تائید و مدد اور آر ایس ایس کی سرپرستی کے بل پر مودی کے لئے کامیابی کا راستہ آسان ہوگا اور اگر (اﷲ نہ کرے) مودی وزیر اعظم بنتے ہیں تو اس کی ساری ذمہ داری صرف اور صرف کانگریس پر عائد ہوگی کانگریس کی ناکامی کی وجوہات عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے مختصر یہ کہ عام آدمی کا ساتھ دینے کے وعدے سے اقتدار میں آنے والی کانگریس عام آدمی کا ساتھ چھوڑ کر امریکہ اور سرمایہ داروں کے ساتھ ہوگئی ۔
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 166746 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.